غلام حاضر ہے!

ایک پُرمزاح فقرہ بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ آپ نے بھی سنا ہوگا۔ فقرہ کسنے والے کو ہمیشہ ہنستے دیکھا اور فقرہ سننے والے کو بھی ہنس ہنس کر ہی سنتے دیکھا۔ مگر اب بڑھاپے میں یہ تماشا دیکھا کہ فقرہ تو وہی تھا مگر سننے والا کسنے والے پر غضب ناک ہوگیا۔ ہوا یوں کہ ایک روز احباب کی محفل سجی ہوئی تھی۔ خوش گپیاں چل رہی تھیں۔ اتنے میں ایک صاحب تشریف لائے اور بہ آوازِ بلند فرمایا: ’’السلامُ علیکم‘‘۔

محفل میں تشریف فرما ایک خوش گو، خوش مزاج بزرگ نے بڑی خوش طبعی، خوش الحانی اور اتنی ہی بلند آوازسے سلام کا جواب دیا:

’’وعلیکم السلام۔ جنت المقام۔ دوزخ الحرام۔ آپ کا بیٹا میرا غلام‘‘۔

بس یہ سننا تھا کہ آنے والے صاحب بھڑک اُٹھے۔ طیش بھرے لہجے میں بولے:

’’دیکھیے صاحب! کتنی غلط بات کہہ دی ہے انھوں نے۔ کیوں حضرت؟‘‘ رُوئے سخن ہماری طرف تھا۔

عرض کیا: ’’جی ہاں۔ ’دوزخ‘ فارسی کا لفظ ہے اور’ الحرام‘ عربی کا۔ دونوں کو عربی قاعدے کی گوند سے جوڑنا بالکل غلط ہے‘‘۔

مزید بھڑک اُٹھے۔ کہنے لگے:

’’آپ بھی حد کرتے ہیں۔ ہر جگہ اپنی قابلیت جھاڑنے پر اُتر آتے ہیں۔آپ کو یہ تو نظر آگیا کہ انھوں نے ’دوزخ الحرام‘ بولا، یہ نہیں دیکھا کہ میرے بیٹے کو اپنا غلام بولا۔ اپنا غلام۔کتنا گھٹیا لفظ استعمال کیا… غلام… غلام… اب یہاں قابلیت جھاڑ کر دکھائیے‘‘۔

عرض کیا: ’’جھاڑے دیتے ہیں حضور! تشریف رکھیے۔‘‘

دیکھیے صاحب! عربی لغت کے مطابق ’غلام‘ کا اصل مفہوم تو ’بالغ ہونا‘ ہے۔ وہ عمر جس میں شہوت پیدا ہونے لگتی ہے۔ مگر ولادت سے بلوغت تک کی تمام عمر پر لفظِ غلام کا اطلاق ہوتا ہے۔ سبز خط نوجوان کو غلام کہا جاتا ہے، وہ لڑکا جس کی ڈاڑھی مونچھ ابھی پوری نہ نکلی ہو۔ غلام کی جمع غِلمان ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کو جب ’برادرانِ یوسفؑ‘ نے گھر سے لا کر کنویں میں پھینک دیا تو ایک قافلہ وہاں سے گزرا۔ قافلے والوں نے اپنے سقے کو پانی لانے کے لیے کنویں کی طرف بھیجا۔ سقے نے جب اپنا ڈول کنویں میں ڈالا تو قرآنِ مجید کی سورۂ یوسف (آیت نمبر 19) کے مطابق خوشی سے چیخ اُٹھا: ’’یَا بُشْریٰ ھٰذَا غُلام‘‘ (بشارت ہو، ایک لڑکا ہاتھ آگیا ہے)

عربی میں غلام بمعنی بیٹا بھی بولا جاتا ہے۔ اہلِ فارس بھی اس لفظ کو ’پِسر‘ کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ اُردو میں بھی دیکھیے، اگر کوئی آپ سے یہ کہتا ہے کہ ’’مسعود کا لڑکا آیا ہے‘‘ تو یہی سمجھا جائے گا کہ آنے والا ’مسعودکا بیٹا‘ ہے۔ دورِ جاہلیت میں عرب خریدے اور بیچے جانے والے مرد و زن کو ’عبدی‘ (میرا بندہ) اور’ أمتی‘ (میری بندی) کہا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے انسانیت کی اس توہین کو گوارا نہیں فرمایا، سخت ناگواری کا اظہار فرمایا۔ لہٰذا صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5874 کے مطابق حضرت ابوہُریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:

’’تم میں سے کوئی شخص کسی کو میرا بندہ اور میری بندی نہ کہے۔ تم سب اللہ کے بندے ہو اور تمھاری عورتیں اللہ کی بندیاں ہیں۔ البتہ میرا لڑکا یا میری لڑکی کہہ سکتے ہو‘‘۔

اس حکم کی تعمیل میں ’عبد‘ اور ’أمۃ‘ کی جگہ مسلمانوں نے اپنے خادموں اور خادماؤں کو محبت اور پیار سے غلام اور جاریہ (لڑکا اور لڑکی) کہہ کر پکارنا شروع کردیا، جو مساواتِ نوعِ انسانی کا عملی اظہار تھا۔ بالفاظِ دیگر اِن خدمت گزاروں کو بیٹا اور بیٹی کہہ کر بلایا گیا۔ اس پس منظر میں دیکھیے تو ’غلام‘ کوئی ’گھٹیا‘ لفظ نہیں ہے۔ خدّام کے لیے استعمال کیا جانے والا یہ لفظ اُس اعلیٰ اخلاقی روایت کا حصہ ہے جو اسلام نے شرفِ انسانی کو بحال کرنے کے لیے حکماً رائج کی۔ ہمارے موجودہ معاشرے میں ججوں اور جاگیرداروں کے گھروں میں خدمت گاروں سے جو غیر انسانی، بہیمانہ اور وحشیانہ سلوک کیا جارہا ہے، وہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلّم کے فرامین کی صریح نافرمانی ہے اور اللہ کے غضب کو بھڑکانے کی باغیانہ جسارت ہے۔

’عبد‘ عبادت گزار کو کہتے ہیں۔ انسان صرف اللہ کا عبادت گزار ہوسکتا ہے، اللہ کی کسی مخلوق کا نہیں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی طرح ’أمۃ‘ مملوکہ کو کہا جاتا ہے۔ انسان کا مالک صرف اللہ ہے۔ کوئی انسان کسی انسان کا مالک ہوسکتا ہے نہ کوئی انسان کسی انسان کا مملوک۔ ناک، کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں، دل، دماغ اور انسان کی تمام قوتیں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی ہیں، کوئی اور مالک کیسے ہوسکتا ہے؟ عبد بھی اللہ کا ہے اور أمۃ بھی اللہ کی ہے۔ اسلام نے بتدریج انسانوں کی خرید و فروخت اور ملکیت و مملوکیت کا پورا نظام ہی جڑ سے اُکھاڑ پھینکا۔ البتہ ’’مہذب مغربی اقوام‘‘ماضیِ قریب تک غیر مہذب افریقی انسانوں کو جانوروں کی طرح جہازوں میں بھر بھر کر لاتی رہیں اورگوری چمڑی والوں کو مالک اور کالی چمڑی والے انسانوں کو مملوک بناتی رہیں۔ مغرب میں اس ’فرعونیت‘ کی باقیات اب بھی نظر آتی ہیں۔

عربی کے علی الرغم اُردو میں ’غلام‘ کا لفظ صرف ملازم، نوکر، خادم، نمک خوار، نیاز مند یا عقیدت مند کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے۔ چچا غالبؔ دربارِ شاہی سے فقط وظیفہ پاتے تھے۔ دربار میں جھاڑو پونچھا نہیں کرتے تھے۔ پھر بھی ’’گزارش مصنف بحضورِ شاہ‘‘ میں فرمایا:

شاد ہوں لیکن اپنے جی میں، کہ ہوں
بادشہ کا غلامِ کار گزار

مگر دربار میں جا کرقصیدے پڑھنے کے سوا کار گزاری تھی ہی کیاچچا کی؟ روز اِک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ۔

باوجودے کہ اسلام نے انسان کو انسان سے آزاد کرایا اور بقول سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ انسانوں کو اُن کی ماؤں نے آزاد جنا، مگر انسان کے اندر سے خوئے غلامی کبھی گئی نہیں، بالخصوص ہماری دنیائے عجم سے۔ برصغیر میں جسے دیکھیے غلام بننے پر راضی بلکہ تُلا نظر آتا ہے:

کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں

مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے

غلاموں کی خرید و فروخت اب اُس طرح تو نہیں ہوتی جیسی زمانہ قبل از اسلام میں ہوتی تھی، مگر بعض لوگ اب بھی بعض لوگوں کے ’’زر خرید غلام‘‘ بن جاتے ہیں، پھر اپنے عمل سے ثابت بھی کرتے ہیں۔ایسے لوگ پیسے کے غلام ہوتے ہیں۔پیسے نہ ملیں تو ’’بے دام غلام‘‘ بن جاتے ہیں۔جس شخص کی غلامی اختیار کرتے ہیں اُس کی بابت بتاتے ہیں کہ اُس نے ’’کلام جس شخص سے کیا ہے، غلام اپنا بنا لیا ہے‘‘۔ ’غلام بنا لینے‘ کا مطلب ہے اپنا مطیع اور فرماں بردار بنا لینا۔پیامِ مشرق میں ’’جمہوریت‘‘ کے عنوان سے اقبالؔ نے ایک قطعہ کہا، جس کا یہ شعر بہت مقبول و مشہور ہوا۔ اس شعر میں بھی ’غلام‘ کا لفظ مطیع اور فرماں بردار کے معنوں میں آیا ہے:

گریز از طرزِ جمہوری، غلامِ پختہ کارے شو
کہ از مغزِ دو صد خر فکر انسانے نمی آید

طرزِ جمہوری سے گریز کرو یعنی ہر کس و ناکس کی رائے کے پیچھے نہ چل پڑو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے پختہ کار غلام بن جاؤ، کیوں کہ دو سو گدھوں کا دماغ یکجا کر لیا جائے تو اُن سے ایک انسان کی بھی فکر برآمد نہیں ہو سکتی۔انسان ذہنی طور پر غلام ہو جائے تو اس کی فکر گدھوں جیسی فکر ہو جاتی ہے کہ ہم تو گدھے ہیں، مغرب ہم پر جو لادے گا وہ لدوا لیں گے، کہہ دیں گے کہ لادیے صاحب! غلام حاضر ہے!