یہ مختصر کہانی اُن دنوں کی ہے جو سیلاب زدگان کے ساتھ گزرے۔ بچے، بوڑھے، مرد، عورتیں، مائیں، بہنیں جن کا سب کچھ بارش میں بہہ گیا، وہ دیہات اور بستیاں جن کا وجود مٹ گیا۔ کہانی جب شروع ہو تو خبر نہیں ہوتی کہ کس کس موڑ سے گزرے گی، کہاں ختم ہوگی۔ اس کہانی میں موڑ بھی بہت سے ہیں۔ سیلاب زدگان کے علاوہ بہت سے اور لوگوں کا تذکرہ جو ایک خواب دیکھتے ہیں، مؤاخات کا خواب، ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر شخص کو عزت سے زندہ رہنے کا حق حاصل ہو۔ اس کہانی کا ایک موڑ اندلس کی مسجد قرطبہ کی عظمت اور غرناطہ کا زوال بھی ہے۔ یہ ذکر شاید اس لیے شامل ہوا کہ ہم کمال و زوال کی حقیقت کو سمجھ سکیں۔ یہ جان پائیں کہ سلسلۂ روز و شب میں عشق ہی اصل شے ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو کائنات کو تسخیر کرتی ہے۔ خود سے خدا آشنائی کا واحد راستہ یہی ہے۔
زیر نظر کتاب سیلاب 2022ء میں اجڑی ہوئی بستیوں کی داستان ہے جس میں دکھ کی صدا بھی ہے اور صبحِ نو کا پیغام بھی۔ ان الفاظ میں آپ کو عصرِ حاضر کی تصویر کے علاوہ ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کی آرزو بھی نظر آئے گی۔
خود صاحبِ کتاب کا کہنا ہے: ’’سیلاب میں لٹنے والوں کی یہ روداد آنسو بہانے کے لیے نہیں، امید کے دیئے جلانے کے لیے ہے، ان لوگوں کو ڈھونڈنے کے لیے جو دوسروں کی راہ میں پڑے کانٹے اٹھاتے ہیں‘‘۔