سید المبشرینﷺ (سیرت النبیﷺ کے قرآنی استدلال پر مشتمل نعتیہ سانیٹس)

سیرت النبیﷺ پر اردو زبان میں علامہ شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐ اور قاضی سلیمان منصورپوری کی رحمۃللعالمینؐ جیسی مفصل کتابیں بھی ہیں اور کسی ایک موضوع کے متعلق مختصر کتابچے بھی۔ ایسی کتابیں بھی ہیں جن میں سیرتِ رسولؐ کے سہارے بنیادی مباحث پر گفتگو کی گئی ہے، اور ایسے جائزے بھی ہیں جن میں حضورﷺ کے کردار اور حیاتِ انسانی کے لیے اس کی اہمیت کے نقوش کو ابھارا گیا ہے۔ عالمانہ، تاریخی اور تحقیقی کتابوں کے علاوہ سیرتِ نبی کریمﷺ کوقصےکےاندازمیں یعنی ادیبانہ اسلوب میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ بعض اہلِ قلم نے افسانوی اور تخلیقی انداز میں حضورﷺ کی سیرت کو پیش کیاہے۔ اسی طرح منظوم کتبِ سیرت بھی اردو سیرت نگاری کا ایک اہم حصہ ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق اب تک 100 سے زائد منظوم کتبِ سیرت شائع ہوچکی ہیں۔

پیشِ نظر کتاب ”سید المبشرین ﷺ“ کے شاعر عارف منصور (1950ء۔ 2016ء) کو یہ اختصاص حاصل ہے کہ انھوں نے حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے مختلف مراحل کو شعری سانچے میں ڈھال کر ”سید المبشرین“ کے عنوان سے سانیٹ (Sonnet)تخلیق کیے ہیں۔ ”سانیٹ“یورپی زبانوں میں نغمانی اشعار کے لیے استعمال کی جانے والی ایک صنفِ سخن ہے جو خاص نظامِ قوافی اور خاص ساخت کے چودہ مصرعوں پر مشتمل ایک نظم ہوتی ہے۔ سانیٹ لکھنے والے شعراء کو سانیٹرز(Sonneteers) کہا جاتا ہے۔

عارف منصور نے اپنی اس کتاب میں یورپین سانیٹ کے مختلف انداز برتے ہیں۔ ہیئت کے اعتبار سے یہ تمام سانیٹس انگریزی سانیٹ کے مطابق ہیں اور نظامِ قوافی میں مختلف ترتیب رکھی گئی ہے۔ کتاب میں پہلے سیرتِ طیبہﷺ کے کسی واقعے کو نثر میں بیان کیا گیا ہے۔ پھر ہر واقعے کو ایک جداگانہ سانیٹ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ واقعات کے بیان میں مستند کتبِ سیرت و تاریخ کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے اور بڑی عرق ریزی سے کام لیا گیا ہے۔ تاریخ میں واقعات کا بیانیہ ہوتا ہے، لیکن منظوم تاریخ میں بیانیے کو ادبی لب و لہجہ دینا ناگزیر ہوتا ہے ورنہ اس میں خواندگی کے لیے کشش نہیں رہتی۔ عارف منصور نے تاریخی واقعات کو سانیٹ کی ہیئت میں نظم کرتے ہوئے اس نکتے کو خاص طور سے پیشِ نظر رکھا ہے۔ جیسا کہ ”قران السعدین“ کے عنوان سے رسول اللہﷺ اور حضرت خدیجہ کے مبارک نکاح کا ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں:

بندھا اطہر سے یوں طاہرہ کا دامنِ عفت

ہوئے سعدون یوں مقرون، رب کی ہو گئی رحمت

اسی طرح سورہ علق کی آیات 1 تا 5 اور سورہ قدر سے استدلال کرتے ہوئے پہلی وحی کے نزول، اس کی کیفیت اور رمضان المبارک کی اس رات کی عظمت و برکت اور اس پورے واقعے کو درجِ ذیل سانیٹ میں ”مژدہ نبوت“ کے عنوان سے کس عمدگی سے نظم کیا ہے:

ہوئے چالیس برس کے جب جنابِ سید و صادق
مشاہد ہوگئے رویائے صادق کے بکثرت ہی
لگی بڑھنے حرا میں معتکف ہونے کی مدت بھی
اندھیرا چھٹتا جاتا تھا سحر ہونے لگی فائق
پھر آیا ماہِ رمضان المبارک روشنی لے کر
اُ سی میں تھی وہ شب صدیوں سے افضل ساعتیں جس کی
زمیں پر تا ابد پھیلی رہیں گی برکتیں جس کی
کہ اس میں آئے جبریل ِ امیں پہلی وحی لے کر
حرم میں نور پھیلا جب کہا جبریل نے اقرا
کہا جبریل سے اُمّی نے کہ میں پڑھ نہیں سکتا
لگا کر سینے سے بھینچا انھیں نوموسِ اکبر نے
ہوا جب تین بار ایسا سخن پایا سخن رو نے
پڑھیں آپ اپنے رب کے نام سے جس نے کیا پیدا
قلم سے علم بخشا نوعِ انساں کو ہدایت کا

حضرت عمر فاروقؓ کا اسلام لانا تاریخِ اسلام کا ایک اہم واقعہ ہے۔ ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بڑی تقویت ملی، پہلی بار مسلمانوں نے صحنِ حرم میں جاکر نماز ادا کی،اور مشرکینِ مکہ کو انھیں روکنے کی جرات نہ ہوسکی۔ عارف منصور نے ”حرم میں پہلی نمازِ باجماعت“ کے عنوان سے جو سانیٹ لکھا ہے اس میں بہت خوبصورتی سے اس کی منظر کشی کی ہے۔کفار پر جو ہیبت طاری تھی اور ان کی جو حالت ہوئی تھی اُس کا ذکر اِس سانیٹ کے آخری شعر میں ملاحظہ کیجیے:

یہ نظارہ تھا یا کفار کے حق میں قیامت تھی
جو کاٹو جسم تو خوں بھی نہ نکلے ایسی حالت تھی

عہدِ جاہلیت میں عرب میں شاعری کا وہ اثر تھا کہ تنہا ایک شاعر اپنے اشعار کے ذریعے پورے قبیلے کے دلوں میں آگ بھڑکا دیتا تھا۔ اسی ضمن میں عارف منصور کعب بن اشرف کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

یہودی فتنہ گر تھا کعب بن اشرف مدینے میں
وہ شاعر تھا کہ شیطاں کا بھڑکایا ہوا شعلہ

(”شیطاں کا بھڑکایا ہوا شعلہ“، کیسا بلیغ استعارہ ہے۔ غور کریں تو یہ اصطلاح آج کے ہمارے اکثر میڈیا ہائوسز اور سوشل میڈیا کے لیے بھی درست معلوم ہوتی ہے۔)

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ منظوم سیرت پر اب تک سو سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ لیکن سانیٹ کی ہیئت میں سیرتِ طیبہﷺ کو پہلی با ر منظوم کرنے کی سعادت عارف منصور کو حاصل ہوئی ہے۔ اس اعتبار سے اردو میں سیرتِ طیبہﷺ پر یہ پہلی منظوم کتاب ہے جو چودہ چودہ لائنوں کے بندوں میں لکھی گئی ہے۔ یہ عارف منصور کا کمال ہے کہ انھوں نے سیرت کے مختلف واقعات (آمدِ اسماعیل تا آخری مسکن، تقریباً 138 عنوانات کے تحت ) تاریخی ترتیب سے چھوٹے چھوٹے نثر پاروں میں تحریر کیے، جو مختصر ہونے کے باجود جامع اور ضروری معلومات کے حامل ہیں۔ اور پھر ہر نثر پارے کو جدا گانہ سانیٹ کی ہیئت میں نظم کیا ہے۔

ڈاکٹر ریاض مجید صاحب کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ”سیدالمبشرین“ بیک وقت نظم اور نثر کی سیرتی دستاویز بن گئی ہے۔ اس اعتبار سے اردو زبان میں یہ سیرت کی غالباً پہلی کتاب ہے جس میں عہد و حیاتِ رسالت مآبﷺ کے واقعات شعرو نثر میں صفحہ بہ صفحہ ساتھ دیے جارہے ہیں۔ یوں یہ سیرت نامہ زیادہ کیف آور ہوگیا ہے۔“

یہ کتاب عارف منصور (مرحوم) کی قریباً تین دہائیوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے اس کتاب کو 1994ء میں لکھنا شروع کیا تھا،لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور یہ کتاب ان کی زندگی میں زیورِ طباعت سے آراستہ نہ ہوسکی۔

اللہ تعالیٰ عارف منصور کے درجات بلند فرمائے اوراس کتاب کے مرتب جناب شیر افگن خان جوہر ؔ کو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے کہ انھوں نے عارف منصور مرحوم کےاس بڑے اور منفرد کام کو بہت محنت سے سمیٹا، ترتیب دیا، اسے منصہ شہود پر لے کر آئے اور عارف منصور سے جو تعلقِ خاطر انھیں تھا اس کا حق ادا کردیا۔