علامہ شبلیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کا کارنامہ

سیرت النبی ایسا موضوع ہے کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں ہی سے اس پر کتابیں منظرعام پر آنا شروع ہوئیں، اور امتِ مسلمہ میں ان کی پذیرائی ہونے لگی۔ حضور اکرمﷺ سے والہانہ محبت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ آپؐ کی زندگی کے ہر ہر پہلو سے آشکارا کیا جائے، تاکہ اس سے عمل کا جذبہ دلوں میں موجزن ہوسکے۔ اس میدان میں چودھویں صدی ہجری کے آغاز میں ہندوستان کے ایک استاد و شاگرد علامہ شبلی نعمانیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کے قلم سے جو کارنامہ انجام پایا تھا وہ اپنی نوعیت کا ایک اچھوتا اور منفرد کارنامہ تھا، اور جس نے اپنے موضوع پر ایک تجدیدی کارنامے کی حیثیت اختیار کی۔ آخر وہ کیا بات تھی جس نے اسے سیرت کے لٹریچر میں وہ مقامِ بلند عطا کیا جو اس موضوع پر دوسری کتابوں کو حاصل نہ ہوسکا؟

علامہ شبلیؒ نے آج سے ایک سو پندرہ سال قبل 1330ء ہجری میں اپنی معرکہ آراء کتاب ”سیرت النبیﷺ“ کی تصنیف کا آغاز کیا تھا، اس کی خوبیاں بہت ساری ہیں، لیکن اس کا طرہ امتیاز اس کا منہجِ تحقیق تھا، جس کی وضاحت کتاب کے طویل مقدمہ میں دی گئی ہے، جو سیرت و تاریخ کے ایک طالب علم کے لیے بہترین رہنما کی حیثیت رکھتا ہے، اور یہ اردو میں سیرت و تاریخ پر لکھی گئی کسی کتاب پر اپنی نوعیت کا منفرد مقدمہ ہے۔ اس زمانے میں واقعاتِ سیرت کی تنقیح وتحقیق کے سلسلے میں اس کتاب میں جو اصول اپنائے گئے تھے، ان کے بارے میں کتاب کے شریک مصنف علامہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں:

”1۔سب سے پہلے یہ کہ سیرت کے واقعات کے متعلق جو کچھ قرآن مجید میں مذکور ہے، اس کو سب پر مقدم رکھا ہے۔ یہ قطعاً ثابت ہے کہ بہت سے واقعات کے متعلق خود قرآن مجید میں ایسی تصریحات یا اشارے موجود ہیں جن سے اختلافی مباحث کا فیصلہ ہوجاتا ہے لیکن لوگوں نے آیاتِ قرآنی پر اچھی طرح نظر نہیں ڈالی، اس لیے وہ مباحث غیر منفصل رہ گئے۔

2۔قرآن مجید کے بعد حدیث کا درجہ ہے۔ احادیثِ صحیحہ کے سامنے سیرت کی روایتیں نظرانداز کردی ہیں، جو واقعات بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکور ہیں، ان کے مقابلے میں سیرت یا تاریخ کی روایت کی کوئی ضرورت نہیں۔ ارباب ِ سیر سے ایک بڑی غلطی یہ ہوئی کہ وہ واقعات کو کتبِ حدیث میں، ان موقعوں پر ڈھونڈتے ہیں، جہاں عنوان اور مضمون کے لحاظ سے اس کو درج ہونا چاہیے، اور جب ان کو، ان موقعوں پر کوئی روایت نہیں ملتی تو وہ کم درجے کی روایتوں کو لے لیتے ہیں، لیکن کتبِ حدیث میں ہر قسم کے نہایت تفصیلی واقعات ضمنی موقعوں پر روایت میں آجاتے ہیں، اس لیے اگر عام استقرا اور تشخص سے کام لیا جائے تو تمام اہم واقعات میں خود صحاح ستہ کی روایتیں مل جاتی ہیں، ہماری اس کتاب کی بڑی خصوصیت یہی ہے کہ اکثر تفصیلی واقعات ہم نے حدیث ہی کی کتابوں سے ڈھونڈ کر مہیا کیے، جو اہلِ سیر کی نظر سے بالکل او جھل رہ گئے تھے۔

3۔ روز مرہ اور عام واقعات میں ابن سعد، ابن ہشام اور طبری کی عام روایتیں کافی خیال کی ہیں، لیکن جو واقعات کچھ بھی اہمیت رکھتے ہیں، ان کے متعلق تنقید اور تحقیق سے کام لیا ہے اور تا امکان کدو کاوش کی ہے،اس خاص ضرورت کے لیے ہم نے پہلا کام یہ کیا ہے کہ ابن ہشام، ابن سعد اور طبری کے تمام رواۃ کے نام الگ انتخاب کر لیے، جن کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہے، پھر اسماء الرجال کی کتابوں سے ان کی جرح و تعدیل کا نقشہ تیار کیا، تا کہ جس سلسلہ روایت کی تحقیق مقصود ہو، بہ آسانی ہو جائے۔“

سیرت النبی ﷺ کے موضوع پر اس کتاب میں تنقیح وتحقیق کے جن اصولوں کو اپنا یا گیا ہے ان کے بارے میں سوچنے کی بات ہے کہ یہ آج کا زمانہ نہیں ہے، جب کہ تحقیق کے لیے مطلوبہ مراجع کے بہتر سے بہتر نسخے پلک جھپکتے میں دنیا کے کونے کونے سے مل جاتے ہیں۔ اس کتاب کی تصنیف کے وقت مطلوبہ کتابوں کا کیا کال پڑا تھا،ذرا اس کا حال علامہ سید سلیمان ندویؒ کی زبانی ہی سنیے، فرماتے ہیں:

”مولانا کی زندگی میں اس کی تصنیف کے وقت ان کو بعض کتابیں قلمی ملی تھیں، جیسے روض الانف جس سے پورا استفادہ وقت طلب تھا، اب وہ چھپ گئی ہے، بعض کتابوں کی ان کو تلاش ہی رہی، مگر ان کو مل نہ سکیں جیسے کتاب البدایہ والنہایہ ابن کثیر، مصنف سے اکثر حسرت کے ساتھ سنا کہ افسوس تاریخ ابن کثیر نہیں ملتی، وہ مل جاتی تو ساری مشکلیں حل ہوجاتیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب وہ چھپ کر عام ہوگئی۔ مستدرک حاکم اُس وقت تک ناپید تھی، اب طبع ہوکر گھر گھر پھیل گئی۔ غرض ان کتابوں کے ہاتھ آجانے سے بہت سی نئی معلومات بڑھ گئیں، چنانچہ اس نسخے کی تصحیح و اضافہ میں ان سے کام لیا گیا“۔ (سیرت النبی 93/1)

یہ وہ زمانہ تھا جب عربی زبان کی مطلوبہ سیرت وتاریخ کی کتابیں عالم اسلام سے زیادہ یورپ کے محققین کے زیر ادارت محدود تعداد میں شائع ہوتی تھیں، اور یہ عموماً مسلم علماء و دانشوروں کی دسترس سے دور ہوتی تھیں۔ علامہ مزید فرماتے ہیں:

”مسلمانوں کے ہاں عربی زبان میں سیرت و مغازی کی جو کتابیں (قلمی شکل میں) محفوظ تھیں، وہ ایک ایک کرکے باستثنائے چند، اٹھارہویں صدی کے اواخر سے لے کر انیسویں صدی کے اختتام تک یورپ میں چھپ گئیں اور ان میں اکثر کا یورپین زبانوں میں ترجمہ ہوگیا، سب سے پہلے رسک (Reiske) المتوفی 1774ء نے تاریخ ابوالفداء مع ترجمہ لاطینی و حواشی پانچ جلدوں میں شائع کی۔ 1809ء میں کیپٹن اے (A-N-Mathews) نے کلکتہ سے مشکوٰۃ المصابیح کا انگریزی میں ترجمہ شائع کیا، 1856ء میں دان کر یمر (Kremer) نے کلکتہ میں محمد بن عمر واقدی کی کتاب المغازی طبع کرائی، 1860 ء میں ابن ہشام کی مشہور تصنیف سیرت الرسول کی گوٹنگن (Gottingen) سے اشاعت کی، اس کے علاوہ اسی مستشرق نے سمہودی کی تاریخ مدینہ اور ابن قتیبہ کی تاریخ معارف طبع کرائی، 1866ء میں ڈاکٹر ویل (G-Weil) نے ابن ہشام کا جرمنی میں ترجمہ کیا، 1877ء میں پیرس سے مسعودی کی تاریخ ”مروج الذہب“ مع ترجمہ فرانسیسی پروفیسر ڈی مانیا رڈ نے شائع کی، ولہوسن (Wellhausen) نے 1882ء میں واقدی کا جرمن ترجمہ بعنوان ”محمد بہ مدینہ“ برلن سے شائع کیا، 1883ء میں لیڈن سے ہاؤٹسما (Houtasma) کے اہتمام سے یعقوبی کی تاریخ دو جلدوں میں چھپی۔ 1879ء سے 1892ء تک چودہ برس کی محنت میں طبری کی مشہور اور نادرالوجود تاریخ بارتھ (J.Barth) اور نولدیکی (Noldeke) وغیرہ نے شائع کی، اور سب سے آخر میں مشہور جرمن مستشرق پروفیسر سخاو (Sachau) کی خاص کوشش اور دیگر سات مستشرقین کی اعانت سے ابن سعد کی عظیم الشان اور نادر الوجود طبقات جس سے زیادہ مبسوط سیرتِ نبوی میں کوئی تصنیف نہیں، تقریبا 1900 ء سے گزشتہ سال تک ایک ایک جلد کر کے لیڈن سے شائع ہوتی رہی۔“ (سیرت النبی :88)

”سیرت النبیﷺ“ کے سلسلے میں تحقیق وتنقیح کے اس کڑے اسلوب کو کیوں اپنایا گیا، اس سلسلے میں علامہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں:

”سیرت کی کتابوں کی کم پائیگی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تحقیق اور تنقید کی ضرورت احادیث احکام کے ساتھ مخصوص کردی گئی، یعنی وہ روایتیں تنقید کی زیادہ محتاج ہیں جن سے شرعی احکام ثابت ہوتے ہیں، باقی جو روایتیں سیرت اور فضائل وغیرہ سے متعلق ہیں، ان میں تشدد اور احتیاط کی چنداں حاجت نہیں۔“ (سیرت النبی1/63)

اور یہ کہ ”جن بڑے بڑے نامور مصنفین، مثلاً امام طبریؒ وغیرہ نے سیرت پر جو کچھ لکھا اس میں اکثر جگہ مستند احادیث کی کتابوں سے کام نہیں لیا۔ بعض واقعات نہایت اہم ہیں، ان کے متعلق حدیث کی کتابوں میں ایسی مفید معلومات موجود ہیں جن سے تمام مشکل حل ہوجاتی ہے، لیکن سیرت اور تاریخ میں ان معلومات کا ذکر نہیں۔ مثلاً یہ امر کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو لڑائی کا سلسلہ جنبانی کس کی طرف سے شروع ہوا؟ ایک بحث طلب واقعہ ہے، تمام اربابِ سیر اور مؤرخین کی تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا کی، لیکن سنن ابی داؤد میں صاف اور صریح حدیث موجود ہے کہ جنگِ بدر سے پہلے کفارِ مکہ نے عبداللہ بن ابی کو یہ خط لکھا کہ ”تم نے محمد(ﷺ) کو اپنے شہر میں پناہ دی ہے، ان کو نکال دو، ورنہ ہم خود مدینہ آکر تمہارا اور محمد (ﷺ) دونوں کا استیصال کردیں گے۔ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں یہ واقعہ سرے سے منقول نہیں۔“ (سیرت النبی 1/66 )

دوسرے یہ کہ ”سیرت میں اگلوں نے جو کتابیں لکھیں، ان سے مابعد کے لوگوں نے جو روایتیں نقل کیں انہی کے نام سے کیں، ان کے مستند ہونے کی بنا پر لوگوں نے ان تمام روایتوں کو معتبر سمجھ لیا، اور چونکہ اصل کتابیں ہر شخص کے ہاتھ نہیں آسکتی تھیں، اس لیے لوگ راویوں کا پتا نہ لگا سکے، اور رفتہ رفتہ یہ روایتیں تمام کتابوں میں داخل ہوگئیں، اس تدلیس کا یہ نتیجہ ہوا کہ مثلاً جو روایتیں واقدی کی کتاب میں مذکور ہیں، ان کو لوگ عموماً غلط سمجھتے ہیں، لیکن انہی روایتوں کو جب ابن سعد کے نام سے نقل کردیا جاتا ہے تو لوگ ان کو معتبر سمجھتے ہیں، حالانکہ ابن سعد کی اصلی کتاب ہاتھ آئی تو پتا لگا کہ ابن سعد نے اکثر روایتیں واقدی ہی سے لی ہیں۔“

سیرت نویسی کے منہج میں اس بنیادی غلطی کی وجہ سے جہاں یورپی مصنفین کے مذہبی اور سیاسی تعصب کو غذا ملی، وہیں خالی الذہن مصنفین کے ذہن کو بھی گدلا کردیا، اور ایک طرح سے وہ بھی معذور ہوگئے۔ علامہ ندویؒ کی نظر میں اس کی ”سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کا تمام تر سرمایہ استناد صرف سیرت و تاریخ کی کتابیں ہیں، مثلاً: مغازی واقدی، سیرت ابن ہشام، سیرت محمد بن اسحاق، تاریخ طبری وغیرہ… اور ظاہر ہے کہ کوئی غیر مسلم شخص اگر آنحضرتﷺ کی سوانح عمری مرتب کرنا چاہے گا تو عام قیاس یہی رہبری کرے گا کہ اس کو تصنیفاتِ سیرت کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ سیرت کی تصنیفات میں سے ایک بھی نہیں جو استناد کے لحاظ سے بلند رتبہ ہو، چنانچہ اس کی بحث اوپر گزر چکی۔ مصنفینِ سیرت سے قطع نظر، سیرت کی روایتیں زیادہ تر جن لوگوں سے مروی ہیں مثلاً سیف، سری ابن سلمہ، ابن نجیح عموماً ضعیف الروایۃ ہیں، اس لیے عام اور معمولی واقعات میں ان کی شہادت کافی ہوسکتی ہے، لیکن وہ واقعات جن پر مہتم بالشان مسائل کی بنیاد قائم ہے ان کے لیے یہ سرمایہ بے کار ہے۔

اس اختلافِ اصول نے یورپین تصنیفات پر بہت بڑا اثر پیدا کیا ہے، مثلاً اہل یورپ واقدی کے بیان پر سب سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ واقدی کا بیان نہایت مسلسل اور مربوط ہوتا ہے، جزئیات کی تمام کڑیاں باہم ملتی چلی جاتی ہیں، واقعات میں کہیں خلا نہیں ہوتا، جو چیزیں کسی واقعے کو دلچسپ بنا سکتی ہیں، سب موجود ہوتی ہیں۔“ (سیرت النبی1/92)

یہاں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو واقعاتِ سیرت سرور عالمﷺ اور خیرالقرون کی مقدس اور محترم شخصیات صحابہ کرامؓ، تابعین و تبع تابعین ؒ کی شبیہ کو ان کی حقیقی شکل میں پیش نہیں کرتے یا ان کی سیرت پر میل ڈال دیتے ہیں، ان کے لیے حدیثِ نبویﷺ کے تنقیدی اصولوں کو اپنانے کی اولین سنجیدہ فکر اور کوشش آج سے ایک صدی پیشتر برصغیر کے ان محققین نے کی ہے۔ ان اصولوں کو تحقیقات میں اپنانے کی سنجیدہ فکر سیرت النبیﷺ کی تصنیف کے دسیوں سال بعد اُس وقت نظر آتی ہے جب انکارِ حدیث کا فتنہ رونما ہوا، پھر ایک طویل خاموشی کے بعد 1960ء کی دہائی کے بعد یہ اُس وقت نظر آتی ہے جب ناصبیت نے ہاتھ اور پیر باہر نکالنے شروع کیے۔

لیکن یہ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ایک پوری صدی تک علامہ شبلی نعمانیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کے اس کارنامے کے صرف نام سے عالم اسلام متعارف رہا، اور اس کتاب کا عربی ترجمہ ابھی چند سال قبل منظرعام پر آیا ہے۔

جو علمی، تحقیقی اور فکری کام ہوتے ہیں، ان کی ایک محدود عمر ہوتی ہے… کیونکہ جب وسائل مہیا نہ ہوں، کتابیں دستیاب نہ ہوں، اس وقت جو محنتیں ہوتی ہیں، ان کی تاریخی اہمیت تو باقی رہتی ہے، لیکن نئے وسائل اور مواد کی فراہمی اور حالات کی تبدیلی کے بعد ان کا وہ وزن باقی نہیں رہتا جو ابتدا میں ہوا کرتا ہے۔ بہت سی تحقیقات کے نتائج بعد میں غلط ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ نتائج دستیاب وسائل اور مراجع کی بنیاد پر طے پاتے ہیں۔

1970ء کی دہائی کے بعد علامہ شبلی اور سید سلیمان ندوی کے دیے ہوئے منہج پر سعودیہ وغیرہ کی یونیورسٹیوں میں اچھا خاصا اور معیاری کام ہوا ہے، اگر سیرت النبی ﷺ کا عربی ایڈیشن اُس وقت ان کے سامنے ہوتا تو شاید یہ ان محققین کے لیے تحقیق کے ایک گراں مایہ نمونے کی حیثیت رکھتا، اور اس موضوع پر ہونے والے قیمتی علمی کاموں کا سہرا اس کے سر بندھتا۔

ہمارا خیال ہے کہ سیرت و تاریخ اور فکرِ اسلامی کے میدان میں چودھویں صدی ہجری میں اردو زبان میں تیار شدہ لٹریچر دوسری زبانوں سے زیادہ مالامال اور قیمتی تھا۔ ایک دو مفکرین کو چھوڑ کر زیادہ تر لٹریچر عالم اسلام کے لیے مجہول ہی رہا، اور جب یہ بڑے لوگ گزر گئے تو صرف ان کی تعریفوں کے پل باندھنے کو ہم نے کافی سمجھ لیا، ان کے علمی اور فکری کاموں کو آگے بڑھانے کی طرف توجہ نہیں دی۔

یورپ کا مزاج اس سے مختلف ہے، وہاں جو بڑے تحقیقی اور علمی کام ہوتے ہیں، مثلاً اکسفورڈ اور کیمبرج کی ڈکشنریاں ہیں، یا پھر انسائیکلوپیڈیا اور اطلس ہیں تو ان میں مسلسل اضافوں کا سلسلہ جاری وساری رہتا ہے، اس طرح یہ چیزیں ہر زمان ومکان کے لیے مفید اور رہنما بنتی ہیں۔ یہ بات ہمارے معاشرے میں نہیں پائی جاتی، لہٰذا بیسویں صدی میں جو بڑی شخصیات برصغیر میں پیدا ہوئیں، ان کے منہج پر علمی کاموں کے اضافے کی خبریں شاذو نادر ہی سننے کو ملتی ہیں۔ جن شخصیتوں نے گزشتہ صدی علم و تحقیق اور فکر کے میدان میں عظیم کارنامے انجام دیے، اب یہ ماضی کے مزارات بنتے جارہے ہیں۔ اب ہمارا مزاج بن گیا ہے کہ کوئی نیا مسئلہ یا تنازع سامنے ہو تو عقیدت میں سو پچاس سال پرانی فلاں فلاں مصنف اور مفکر کی کتاب پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

حالانکہ ان کتابوں کا اسلوب یا مواد آج کے زمانے والوں کے لیے اپنے اندر دلچسپی نہیں رکھتا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان شخصیات نے علم وتحقیق، فکر وفلسفے وکلام کے میدانوں میں جو محنتیں کی ہیں، ان کی بنیاد پر نئی بلند و بالا عمارت کھڑی کی جاتی، لیکن اکابر کی بنیاد پر علم و فکر کی نئی تعمیر ہمارے مزاج میں داخل نہیں ہے۔

ہمارے دوست اور ساتھی جن سے آپ سبھی واقف ہیں، مولانا مفتی شاہ جہاں صاحب.. وہ جب حضرت مولانا سید محمد انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ کی ”فیض الباری“ سے نکات نکالتے ہیں تو ہمیں کبھی کبھار محسوس ہوتا ہے کہ شاہ صاحب اور فیض الباری کے نام لیوا تو بہت ہیں، لیکن اسے سمجھنے والے شاید ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکیں۔ ہم نے مولانا سے کہا کہ آپ کو موجودہ نسل کے معیار سے بڑی شکایتیں ہیں، آپ کم از کم اتنا تو کریں کہ فیض الباری کے مطالعے کے وقت جو نکات یاد آتے ہیں انہیں کتاب پر سلسلہ وار نمبر لگاکر تحریری شکل میں محفوظ کریں۔ اس سے کم از کم فیض الباری کے معانی کی گہرائیوں تک پہنچنا آسان ہوجائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قریبی دور میں ہمارے جو اکابر گزرے ہیں چاہے وہ اداروں سے وابستہ رہے ہوں یا انہوں نے تحریکات کی بنا ڈالی ہو، ہم صرف اُن کی محبت اور اُن کے دفاع میں جذباتی ہونے کو احسان شناسی سمجھ کر اکتفا نہ کریں، بلکہ انہوں نے جو اصول و منہج دیے ہیں، ان کی بنیاد پر مزید ترقی کے لیے بھی کوشاں ہوں۔

اللہ تعالیٰ علامہ شبلی نعمانی، علامہ سید سلیمان ندوی، اور ان کے رفقاء مولانا عبدالماجد دریابادیؒ، مولانا عبدالباری ندوی ؒ وغیرہ کی قبروں کو نور سے بھر دے، انہوں نے سیرتِ پاکﷺ کے موضوع پر جو کارنامہ انجام دیا وہ اپنے وقت سے پہلے کا تھا۔