بت پرستی سے بت شکنی تک کے مسافر نعیم الرحمن جوہر بھی جنت نشین ٹھیرے۔27 ستمبرکی صبح فیس بک پر یہ افسوس ناک خبر ملی کہ جوہر صاحب انتقال کرگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ جوہر صاحب اردوکے ایک ایسے نامی گرامی استاد تھے جن سے بلاشبہ ہزاروں نہیں لاکھوں نے استفادہ کیا ہے۔ 3 جولائی 1943ء کوگجرات کے ایک ہندوبرہمن خاندان میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان کے بعد تنہا حیدرآباد سندھ چلے آئے، یہاں انھوں نے گاڑی کھاتہ میں سکونت اختیارکی۔ اسلامیہ ماڈرن ہائی اسکول ہیرا آباد، سٹی آرٹس کالج کپڑامارکیٹ اور جامعۂ سندھ سے میٹرک سے ایم اے اردو تک تعلیم حاصل کی۔ جامعۂ سندھ اُس وقت حیدرآباد سے جام شورو منتقل نہیں ہوئی تھی۔ ماڈرن ہائی اسکول میں ان کے استاد مولانا وصی مظہرندوی تھے۔ مولانا اُس وقت نورمحمد ہائی اسکول سے مستعفی ہوکر آئے تھے۔ اسکول میں دورانِ تعلیم مولانا وصی مظہرندوی سے جو تعلق استوار ہوا وہ آخر تک قائم رہا۔ مولانا عربی کے استاد اور ایک عالم فاضل شخص تھے۔ جماعت اسلامی کی امارت سے حیدرآبادکی پہلی میئرشپ، اور میئرشپ سے وفاقی وزارتِ مذہبی امور جیسے مناصب پر فائز رہے تھے۔ سٹی آرٹس کالج میں ان کے اساتذہ میں پروفیسر مرزا عابد عباس بھی تھے جو اِنھیں انگریزی پڑھاتے تھے۔ مرزا عابد عباس کالج کے بانیان میں سے تھے خود بھی شاعر وادیب تھے۔ ان کا دور سٹی کالج کا سنہری دور تھا۔ اُس وقت کالج میںکُل پاکستان مشاعروں اورادبی تقریبات کا انعقاد معمول تھا۔ سابق ڈی جی آئی ایس پی آر اطہر عباس، معروف صحافی ظفر عباس اور مظہر عباس انھی کے صاحبزادے ہیں۔ ایم اے اردو میں پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی خاں اور پروفیسر ڈاکٹر سید سخی ہاشمی جیسے محققین اساتذہ کی شاگردی اختیار کی۔ دیگر نمایاں اساتذہ میں تفضل حسین دائود، انعام اللہ، مولانانعیم ندوی اورمولانا سعد حسن خان شامل ہیں۔
جوہر ؔ صاحب عملی زندگی میں شعبۂ درس وتدریس سے وابستہ رہے۔ تدریس کا آغاز میمن انجمن ہائی اسکول سرے گھاٹ سے بحیثیت اسسٹنٹ ٹیچر کیا۔ جب ان کا تقرر حیدرآبادکے معروف تعلیمی ادارے پبلک اسکول حیدرآباد میں ہوا تب ان کی صلاحیتیں مزید کھل کر سامنے آئیں۔ یوں اسکول اور یہ ایک دوسرے کا حوالہ بن گئے، اور ان کی شناخت کا ایک بڑا حصہ اسی اسکول کی عطا ہے۔ یہیں سے 1999ء میں سبکدوش ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے شوق کی آبیاری کے لیے کالج آف ایکسی لینس فار گرلز یونٹ 6 لطیف آباد، جی آرکالونی میں پرسٹن کالج جی آر، سپیریئر سائنس کالج، دی ایجوکیٹر،کائونٹی گرلزکالج ٹھنڈی سڑک اور TABS کالج میں جزوقتی اور کُل وقتی تدریسی خدمات انجام دیں۔ دورانِ درس و تدریس تصنیف وتالیف کاسلسلہ بھی جاری رہا۔ ایم اے اردو میں ’’شررؔ کا انشائی ادب‘‘کے موضوع پر نہایت عرق ریزی سے مونو گراف تحریر کیا۔ تصانیف میں پہلے پہل ڈاکٹر محمد اسحاق ابڑوکی سندھی تصنیف ’’نورِنبوتﷺ‘‘کا اردومیں ترجمہ کیا۔ ایم اے اردو کے مونوگراف ’’شررؔ کاانشائی ادب‘‘کو ضروری ترامیم کے بعدکتابی صورت دی۔ تیسری کتاب مختلف ادبی تقریبات اور اخبارات ورسائل میں شائع مضامین پر مشتمل ’’اوراق ِ پریشان‘‘ہے۔ جن اخبارات و رسائل میں ان کے مضامین شائع ہوئے ان میں ’’سب رس‘‘ حیدرآباد دکن، ’’آج کل‘‘ لکھنؤ،’’ادب ِلطیف‘‘ لاہور، ’’سیّارہ ‘‘ لاہور، ’’نقش‘‘کراچی، ’’ساقی‘‘ کراچی، ’’نگار‘‘ کراچی، ’’ماہِ نو‘‘کراچی،’’زاویے‘‘ حیدرآباد، ’’نئی قدریں‘‘ حیدرآباد اور ’’روزنامہ جنگ‘‘کراچی شامل ہیں۔ چوتھی اورآخری کتاب ’’بت پرستی سے بت شکنی تک‘‘ زیرطبع تھی۔ یہ ان کی وہ آپ بیتی ہے جس میں ان کے قبولِ اسلام کی ایمان افروز اور دلچسپ داستان بیان کی گئی ہے۔
آغازِ جوانی میں پہلا عشق شاعری سے کیا۔ جوہرؔ تخلص اختیار کیا۔ چند غزلیںکہنے کے بعد اس پتھر کو چوم کر چھوڑ دیا، البتہ تخلص کوسینے سے لگائے رکھا۔ مختصراً این آر جوہرؔ اور جوہر ؔ کہلائے۔ دوسرا عشق دوران تعلیم فصیحا خاتون سے کیا۔ یہ عشق ایمان اورنکاح کی صورت میں تکمیلِ ایمان کا سبب بنا۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی رقیہ نامی خاتون سے کی۔ دونوں پبلک اسکول سے منسلک تھے۔ تسلیم و وفا کا یہ پیکر جوہر صاحب کے دکھ درد میں ساتھ رہی اور خدمت کا حق ادا کیا۔ ان کی کُل تین اولاد ہوئیں، ان میں دوصاحب زادے محمد طالب اور خرم شہزاد، اور ایک صاحب زادی مصباح ہے۔ جوہر صاحب کے شاگردوں میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ شخصیات ہیں، ان میں ایک ڈاکٹر سید رضی محمد ہیں جو میرپورخاص میں نجی شعبے کی طبی جامعہ ابن سینا کے چانسلر ہیں، نہ صرف خود شاعر وادیب ہیں بلکہ طب سے وابستہ خالص پیشہ ورانہ جامعہ میں باقاعدگی سے مشاعروں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ چند سال پیشتر نامور ناشر، مرتب، محقق اور مصنف راشد اشرف سے سماجی ذرائع ابلاغ کے ذریعے گفتگو ہوئی تو علم ہوا کہ وہ پبلک اسکول حیدرآباد میں جوہر صاحب کے شاگرد رہے ہیں اور اپنے استاد پر سوانحی کتاب مرتب کرنا چاہتے ہیں۔ راقم نے دونوں کے درمیان رابطہ قائم کرا دیا۔ جوہر صاحب اپنے جن عزیزترین شاگردوں کا ذکرکرتے رہے ہیں اُن میں ڈاکٹر محمد اقبال سومرو، ڈاکٹرکامران رضوی اور خرم ودودشامل ہیں۔ جوہرؔ صاحب مشاہیر ادب سے رابطے میں رہے ہیں جس کا اندازہ اُن کے نام مشاہیر کے خطوط سے لگایا جاسکتا ہے۔
جوہر ؔ صاحب15فروری 1971ء کومولانا وصی مظہر ندوی کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے اور نربھے رام جوہر سے نعیم الرحمن جوہر کہلائے۔ بت پرستی سے بت شکنی تک کا یہ مسافر26 ستمبر 2023ء کو 81برس کی عمر میں جنت مکین ٹھیرا اور اپنے پیچھے شہرکو سوگوار چھوڑگیا۔
(نوٹ: معروف ادیب و دوست محمودصدیقی صاحب کے بقول: جوہرؔ صاحب 1942ء میں پیداہوئے تھے اور ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔)
(٭صدر شعبۂ اردوگورنمنٹ کالج یونی ورسٹی حیدرآباد)