مغرب کی روایتی فکر کتابِ مقدس اوریونانی تصورات کی آمیزش ہے۔ یروشلم اور ایتھنز کے افکار کا یہ قالب ازمنہ وسطیٰ فلسفہ کے مشہور”Christian synthesis”(عیسائی مرکب مقالہ) میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ہم ’ازمنہ وسطیٰ‘ کی اصطلاح یہاں اس کے وسیع مفہوم میں سمجھیں گے، ایک ایسا زمانہ جو قدیم سے جدید تک پھیلا ہے، پانچویں صدی میں سلطنتِ روما کے انہدام سے پندرہویں صدی میں سقوطِ قسطنطنیہ تک۔ ہم یہاں واقعات سے قطع نظر علمیاتی طریقہ تحقیق کا ارتقا دیکھیں گے جو شاید ہمیں ’تصور‘ پر مختلف نکتہ ہائے نظر سے آگاہ کرسکے۔ اس سے قبل کہ ہم ازمنہ وسطیٰ کے ’تصور‘ پر مطلوب طریقہ تحقیق پر چند مثالوں کو الگ کریں، انجیلی الٰہیات اور یونانی علم الوجود پر ’عیسائی مرکب مقالہ‘ کے بارے میں کچھ کہنا اہم ہوگا۔ ہم اس مرکب مقالہ کو”onto-theological” یعنی وجودی الٰہیات کہیں گے، اسے Etienne Gilson نے خدا اور وجود مطلق کی معرفت قرار دیا ہے، وہ معرفت جو عیسائی فلسفے کے لیے ’عمومی فلاح‘ کا سبب ہو۔ مختصراً، ’وجودی الٰہیات‘ کی مرکب اصطلاح میں ہمیں ازمنہ وسطیٰ کے وہ افکار ایک ساتھ نظر آتے ہیں جو یہودی عیسائی عقیدے میں ’خالقِ حقیقی‘ اور افلاطونی ارسطوئی ماورا الطبیعات میں ’وجودِ مطلق‘ کے بارے میں ہیں۔
اس فکری اتحاد کی دونوں روایتوں میں، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، ’تصور‘ بنیادی طور پر’نقل کی سرگرمی‘ نظر آتا ہے۔ یہ نقل انعکاس ہے اُس ’اصل‘ ذریعہ معنی کا جو آدمی سے ماورا ہے۔ کتابِ مقدس کی روایت میں، اس ’اصل‘ کو Yahweh(یہووہ) کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے، جو ’خالقِ حقیقی‘ ہے۔ جب کہ یونانی روایت میں اسے وجود کی ’مطلق‘ حالت بیان کیا جاتا ہے: کہ فانی مخلوقات جس ’وجودِ کامل‘ کا اتباع اور نقل کرنا چاہیں، اور کسی نہ کسی طور اُس کی معرفت چاہیں۔
یونانی اور یہودی عیسائی روایات کا ملاپ ابتدا میں قبول نہیں کیا گیا۔ اسے یکسر مسترد کیا گیا۔ جب جان پال یروشلم سے ایتھنز پہنچا اور یونانی فلسفیوں سے مکالمہ کیا، اُس نے اعلان کیا کہ جو سچائیاں عہد نامہ قدیم و جدید میں منکشف ہوئی ہیں، انہیں یونانی اصطلاحوں اور ماوراالطبیعات میں نہیں سمجھا جاسکتا۔ خدا اور بندے کا پراسرار تعلق ایک فلسفیانہ ذہن کے لیے ’حماقت‘ ہے۔ وہ کورینتھینز کو لکھے گئے پہلے خط میں کہتا ہے کہ خدا اور بندے کا تعلق صرف اہلِ ایمان کا خاصہ ہے۔ آغاز میں بہت سے عیسائی مفکرین نے یونانی عقلیت پرشک کیا۔ دوسری صدی عیسوی میں عیسائی مصنف طرطلیان نے دعوٰی کیا کہ ایتھنز اور یروشلم میں کچھ ایک جیسا نہیں۔ انجیل واحد راہِ نجات ہے اور فلسفیانہ کلیے کی کوئی اہمیت نہیں۔
بہرکیف، بہت جلد عیسائی عذر خواہوں پر یہ واضح ہوگیا کہ اگر لادینیت اور دہریت کے مقابل کتابِ مقدس کا دفاع کرنا ہے تو یونان کی کلاسیکی ماورا الطبیعات کے لیے لچک دکھانا ضروری ہے، اسے تسلیم کرنا ہوگا، سمجھنا ہوگا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ اس طرح یونان کا ’نامعلوم خدا‘ عیسائیت کا خدائے واحد بن گیا۔ اس طرح مماثلتوں اور مطابقت کا سلسلہ چل نکلا۔ افلاطون کا ’الوہی صانع‘ پر مفروضہ کتابِ پیدائش کے یہووہ کا متوازی ہوگیا۔ بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ عیسائی علما نے یونانی مابعدالطبیعات کے Logos کو ’تثلیث‘ کی دوسری ہستی یعنی یسوع مسیح (علیہ السلام) سے مماثل قرار دے دیا۔ فریڈرک کوپلیسٹن نے Medieval Philosophy:From the point of view of the Christian writers میں ان مماثلتوں کو اس طرح پیش کیا، جیسے افلاطون کے خدا کو عیسائیت کے خدا میں اپنا خدا مل گیا ہو۔ عیسائی مصنفین کا نکتہ نظر یہ ہوگیا کہ افلاطون نے رب کائنات اور علم کے باب میں جو فلسفہ دیا، وہ مذہب عیسائیت میں حتمی صورت اختیار کرگیا، منزلِ مراد پاگیا۔ اس طرح عیسائیت کا تصور جہاں یونان کے فلسفے کا حامل ہوگیا۔ یوں یہ افلاطونی عناصر اور عیسائیت پر ایمان ایک ’مرکب مقالہ‘ (Synthesis) کی صورت سامنے آیا۔ یعنی واحد ہی تثلیث ہے، لوگوس مسیح میں حلول کرگیا، آدمی خدا سے مماثل ہوگیا، اورروح القدس۔
جس وقت کئی کلیسا رہنما ’مرکب مقالہ‘ کے ممکنات پر اشارے دے رہے تھے، یہ چوتھی صدی عیسوی کا آگسٹن تھا جس نے پہلی بار یونانی فلسفہ اور یہودی عیسائی الٰہیات میں مطابقت قائم کردی۔ آگسٹن نے دلیل دی کہ کتابِ مقدس میں خالقِ کائنات پر آدمی کا ایمان فلسفیانہ تصورات کی مدد سے واضح کیا جاسکتا ہے۔ اُس نے دلیل کے دو دائروں میں خطِ امتیاز کھینچا، کہا کہ ایک سچ یہ ہوتا ہے کہ بچہ والدین کا فرماں بردار ہوتا ہے، اور دوسرا یہ کہ جب وہ فلسفیانہ عقلیت کی مدد سے سچ مستحکم کرتا ہے۔ اس طرح آگسٹن یہ نظریہ لے کر آگے بڑھا کہ آدمی وجودیاتی الٰہیاتی تناظر میں خدائے بزرگ پر ایمان اور ’وجود‘ کی مابعد الطبیعاتی تفہیم میں مطابقت کے قابل ہوچکا ہے۔ یہووہ جو خالقِ کائنات ہے وہ ہی ’وجودِ مطلق‘ ہے۔ اُس نے ’تفہیم الایمان‘ “faith seeking understanding” (fides quarens intellectus) کو ازمنہ وسطیٰ کا مقبول نظریہ بنادیا۔ اس نظریے نے ازمنہ وسطیٰ میں آدمی کے ’تصور‘ پر گہرے اور فیصلہ کن اثرات مرتب کیے۔ یہ اپنی سادہ ترین صورت میں ایک ایسا اتحاد تھا جس نے ’تصورِ تخلیق‘‘ پر روایتی شک کو گہرا کیا، اس نے اس بات کو مزید مستحکم کیا کہ کتابِ مقدس میں آدمی کے ’تصور‘ کو گناہ قرار دیا گیا ہے، اس کی مذمت کی گئی ہے، اسے خدائی نظامِ تخلیق میں بگاڑ کہا گیا ہے، اور سچ کی نقالی سمجھا گیا ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ عہدِ ازمنہ وسطیٰ میں آدمی کا ’تصور‘ لادین (imagin-atio profana)قرار پاتا ہے۔ بلاشبہ اس عہد میں ’تصور‘ کے کلیات پر آگسٹن کا اثر رہنما ہے۔ وہ پہلا لاطینی مصنف ہے جس نے imaginatio کی اصطلاح کا تواتر سے فلسفیانہ استعمال کیا ہے۔ آگسٹن کا فلسفہ نوافلاطونیت سے شدید متاثر ہے۔ یقیناً اُسے فلاطینوس کا یہ انتباہ ذہن نشین نہ ہوا کہ ’’ہم غیر مرئی موجودات کو ’تصور‘ سے نہیں سمجھ سکتے، یہ صرف غوروفکرسے ممکن ہے‘‘۔ (Enneads, 5,5)
فلاطینوس کا یہ نظریہ اُس کے شاگردوں کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ فرفوریوس نے آدمی کے ’تصور‘ کو جذبات کی رو کے پست درجے میں گرا دیا تھا۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ جب تک ہم ’تخیل کی پرواز‘ اڑتے رہیں گے، غیر مرئی کائنات کا علم حاصل بے حد مشکل رہے گا۔ آگسٹن کا نظریہ ’تصور‘ زیادہ تر کلاسیکی ‘mimetic’ نقل درنقل سے مطابقت میں ہے۔ یہ خود ’کائنات کا سچ‘ خلق نہیں کرسکتا، اسے ہمیشہ تخلیقی تسلسل کی حدوں میں رہنا پڑتا ہے۔ یہ ’اصل‘ کے خالق ہونے کا دعوٰی نہیں کرسکتا۔ یہ قطعی اختیار صرف ’قادرِ مطلق‘ کا ہے۔ آگسٹن کا imaginatio ’تصور‘ خالقِ کائنات کا محض تابعدارغلام ہے، اورخدا کی ’سچی تصویر‘ صرف یسوع مسیح علیہ السلام تھے۔