ہند اور ہندوستان اور پاک وہند کے لیے استعمال ہونے والی جغرافیائی اصطلاحات کے تناظر کا فرق
ہم جس خطے میں رہائش پذیر ہیں، یا پاکستان جس خطے میں واقع ہے یہ آج جدید رجحانات کے زیراثر جنوبی ایشیا سے موسوم ہے، اور یہ نام جدید علمی و مطالعاتی اعتبار سے عالمی طور پر ہر ایک کے لیے قابلِ قبول اور مروجِ عام ہے۔ ورنہ قبل ازیں تاریخ کے ہر دور میں اور خصوصاً جدید علمی ترقی کے دور یا برطانوی عہدِ حکومت سے یہ علاقہ بالعموم ایشیا میں واقع ”ہند“ اور ”ہندوستان“ کہلاتا رہا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے مشرق میں نیپال تک اور مغرب میں ایران تک کا علاقہ ہندوستان میں شامل رہا ہے۔ یا یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ آج کی جغرافیائی اصطلاحات کے مطابق خود پاکستان کہاں واقع ہے؟ یقیناً ایشیا میں، اور یہ جہاں واقع ہے ایک زمانے تک اسے ”برصغیر“ کہنا مناسب سمجھا گیا، یا پھر اب یہ ”برعظیم“ یا ”جنوبی ایشیا“ میں واقع ہے!
قدیم تاریخوں میں تو مغلیہ عہد کے اختتام تک اس سارے خطے کو ”ہندوستان“ ہی کہا گیا، لیکن مغربی استعمار یا برطانوی نوآبادیاتی دور میں یا جدید علوم کے زیراثر اس ”ہندوستان“ ہی کو ایک جدید تر عمومی رجحان کے تحت ”برصغیر“بھی کہا گیا اور وسیع پیمانے پر ایک عرصے تک بلکہ اب بھی ایک عمومی رجحان کے تحت متواتر یہی نام استعمال میں رہا ہے اور بیشتر لوگ اپنی لاعلمی یا کم علمی میں اس خطے کو ”برصغیر“ ہی سے موسوم کرتے رہے ہیں بلکہ اب بھی برصغیر ہی سمجھتے ہیں۔ 1947ء کے بعد اس خطے میں واقع ممالک ”ہندوستان“ اور ”پاکستان“ کے نام سے متعارف ہوئے ہیں جو ایک مجموعی حوالے میں ”ہندو پاکستان“ یا ”ہندوپاک“ کے طور پر بھی معروف ہوئے۔ اب بھی یہ نام یکسر معدوم نہیں ہوئے ہیں، اور اب بھی پرانے طرز و خیالات کے لوگ جنوبی ایشیا کو ”ہندوپاکستان“ یا ”ہندو پاک“ یا ”پاک و ہند“ جیسے ناموں سے موسوم کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں۔
اس طرح اسی رجحان کے تحت ”برصغیر“ یا ”پاکستان و ہند“ یا ”ہندو پاکستان“ جیسے نام استعمال کرنے والوں میں ایک مثبت تبدیلی یہ بھی رونما ہوئی ہے کہ سیاسی و قومی اثرات کے ذیل میں کچھ مصنفین و مؤرخین بمثل ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، جنھوں نے اپنی معروف تاریخی تصنیف ”برعظیم پاک وہند کی ملتِ اسلامیہ“ (شائع کردہ کراچی یونیورسٹی، 1967ء) میں معنوی طور پر کہ ”برصغیر“ میں ایک وسیع تر تناظر میں چوں کہ نیپال و افغانستان تک کے ممالک شامل ہیں، اسے ”برصغیر“ کہنے کے مقابلے میں ”برعظیم“ قرار دینا زیادہ بامعنی و جائز سمجھا، پھر اپنی ہرتحریر میں ”ہندوستان“ یا ”برصغیر“ کے مقابلے میں ”برعظیم“ لکھنا اورکہنا شروع کردیا اور ہمیشہ اسی اصطلاح کے استعمال پر قائم رہے۔ جس زمانے میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی یہ کتاب شائع ہوئی اس زمانے میں راقم الحروف کراچی یونیورسٹی کاطالب علم اور قریشی صاحب کے علم و فکر سے متاثر رہا ہے، اس لیے اس اصطلاح کو پسند کرتے ہوئے ہمیشہ اس خطے کے لیے ”برعظیم“ ہی استعمال کرنا مناسب سمجھا اور اُس وقت سے آج تک اسی خیال کے تابع اور اپنی ہر متعلقہ تحریر میں اسی اصطلاح کے استعمال پر قائم اور مُصر بھی ہے۔
ان امور سے قطع نظر یہ واقعہ ہے کہ برطانوی دور کے اختتام سے کچھ قبل ہی مغرب میں افغانستان نے ایک مستقل و مستحکم مملکت کی صورت اختیار کرلی تھی اور پھرکچھ ہی عرصے میں ”ہندوستان“ سے موسوم یہ وسیع تر خطہ تقسیم ہوکر پہلے پاکستان اور پھر تقریباً ربع صدی کے بعد بنگلہ دیش کی تخلیق کا باعث بنا، اور اس طرح ان ساری مملکتوں یا ریاستوں پر مشتمل علاقہ ”جنوبی ایشیا“ کے نام سے موسوم ہوا اور عالمی سطح پر اسی نام سے معروف بھی ہوا اور اب معروف و مقبول بھی ہے۔ یوں ان میں سے کسی بھی ملک میں رہنے والے باشندے دراصل جنوبی ایشیا کے باشندے ہیں۔ اسی مناسبت سے وسیع تر معنوں کی حامل ماضی بعید کی اصطلاح ”ہندوستان“ جو اپنے متعلقہ علاقوں کے ساتھ مل کر وسیع تر مفہوم میں ”برصغیر“ اور پھر ”برعظیم“ کہلائی، عہد جدید میں دراصل ”جنوبی ایشیا“ ہے، اور جو اَب بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش پر مشتمل ہے اور جس کی سرحدیں مشرق میں نیپال اور مغرب میں افغانستان سے ملتی ہیں۔ اس طرح ہم پاکستان کے باشندے ہیں جو عرفِ عام میں ”جنوبی ایشیا“ میں واقع ہے۔
مذکورہ یہ ساری جغرافیائی اصطلاحات یا جغرافیائی اسماء اگرچہ تصنیف و تالیف میں اپنے اپنے مقام پر بکثرت استعمال میں رہتے ہیں لیکن ان کا تعین یا انتخاب ماضی کے استعمال کے مطابق اور عادتاً ایک دیرینہ روایت سے مختلف نظر نہیں آتا، اور اب بھی اکثریت اس خطے کے لیے ”برصغیر“ ہی استعمال کرتی ہے، جب کہ اب عین علمی حوالے سے ”جنوبی ایشیا“ کا استعمال بھی نظر آنے لگا ہے اور عام بھی ہورہا ہے، لیکن نظریاتی یا قومی وسیاسی تناظر میں اسے ”برصغیر“ کے مقابلے میں ”برعظیم“ کہنے یا لکھنے کا رواج بہت محدود رہاہے، لیکن جو افراد یا مصنفین کچھ لکھتے ہوئے اگر قومی و سیاسی یا ملّی تناظر کو اہمیت دیتے ہیں وہ اب بھی اس خطے کو ”برعظیم“ ہی قرار دینا مناسب سمجھتے رہے ہیں۔ اس اصطلاح کے استعمال میں کمی کا ایک بڑا سبب یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آج بھی لکھنے پڑھنے والوں میں، یہاں تک کہ جامعات کے اعلیٰ مدارج کے اساتذہ میں بھی مذکورہ بالا اصطلاحات کے باہمی فرق کا احساس کم ہی نظر آتا ہے جو ہماری یا ہمارے نظام تعلیم کی بدقسمتی ہے کہ اساتذہ میں بھی اب علمی شعور و احساس کم ہی کہیں قابلِ اطمینان نظر آتا ہے۔ ہمارے موجودہ مصنفین اور بالخصوص اساتذہ میں حقیقی علمی جستجو و لگن کم ہی ہوتی نظر آرہی ہے جو علمی ذوق و معیار کی ضامن ہوسکتی ہے، لیکن یہ سب اب زوال آمادہ ہوتے نظر آرہے ہیں جو ایک قومی و علمی المیے سے کم نہیں۔ چناں چہ بس یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ ہمارے نظام ِتعلیم میں ایسی مثبت و مفید تبدیلیاں وضع ہوں جو لائق و مخلص اربابِ اختیار اور اساتذہ کو اس سے منسلک کریں، جو اس نظام میں واقع خرابیوں کو دور کرکے اس کی بہتری کا سبب بن سکیں اور ”برصغیر“ و ”برعظیم“ اور ”جنوبی ایشیا“ جیسی اصطلاحات کے غلط استعمال سے گریز کریں!