حملہ آور کے فنگر پرنٹس نادرا کے ڈیٹا میں موجود نہیں ہیں
خیبرپختون خوا کے ضلع ہنگو میں جمعہ کی نماز کے لیے خطبہ جاری تھا کہ اس دوران موٹر سائیکل سوار دو خودکش حملہ آوروں نے تھانہ دوآبہ پر حملہ کردیا۔ ایک پولیس اہلکار نے فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں ایک خودکش حملہ آور گیٹ ہی پر دھماکے سے پھٹ گیا، جبکہ دوسرا بھاگ کر تھانے کی مسجد میں داخل ہوا، تاہم پولیس کی بروقت کارروائی کے باعث اُسے مسجد پہنچنے میں تھوڑی دیر ہوگئی جس پر اُس نے مسجد میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا، جس سے مسجد کی چھت گر گئی۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق دھماکے میں ایک پولیس اہلکار سمیت 3 شہری شہید جبکہ 12 افراد زخمی ہوگئے۔ دریں اثناء آئی جی خیبر پختون خوا اختر حیات گنڈاپور، کور کمانڈر حسن اظہر حیات، چیف سیکرٹری ندیم اسلم چودھری اور ڈی آئی جی شیر اکبر نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔ اس موقع پر آئی جی خیبر پختون خوا اختر حیات گنڈاپور نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ پولیس جوانوں کی بروقت جرأت مندانہ کارروائی سے دہشت گردوں کے حملوں نے کم نقصان کیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبر پختون خوا پولیس اور سی ٹی ڈی کا پیشہ ورانہ کردار بہت کلیدی رہا ہے۔
نگران وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمد اعظم خان نے ہنگو کے علاقے دوآبہ کی جامع مسجد پر خودکش حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ نگران وزیراعلیٰ نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت اور دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے دھماکے کے زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ نگران صوبائی حکومت دھماکے کے متاثرین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ محمد اعظم خان نے عید میلادالنبی کے مبارک موقع پر مسجد میں نمازیوں پر حملے کو انتہائی مذموم اور قبیح فعل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے والے انسان کہلانے کے لائق نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے واقعات دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قوم کے عزم کو کمزور نہیں کرسکتے۔
قبل ازیں واقعے کی اطلاع ملتے ہی وزیراعلیٰ نے فوری طور پر متعلقہ حکام کو امدادی کارروائیاں بروقت شروع کرنے، جبکہ دھماکے کے زخمیوں کو بروقت طبی امداد کی فراہمی کے لیے ہنگو کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے احکامات جاری کیے۔ وزیراعلیٰ نے خودکش حملہ آوروں کو مسجد میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے پولیس اہلکاروں کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ایک خودکش حملہ آور کو مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ماردیا، ورنہ جانی نقصانات زیادہ ہوسکتے تھے۔
ڈی پی او نثار احمد نے دوآبہ پولیس اسٹیشن پر حملے سے متعلق کہا ہے کہ خودکش حملہ آور موٹر سائیکل پر آئے تھے، پولیس کی فائرنگ سے ایک خودکش بمبار ہلاک ہوا جبکہ موٹر سائیکل کو گیٹ کے باہر دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ خودکش حملہ آوروں کے پاس 12 سے 15 کلو، جبکہ موٹر سائیکل میں بھی 12 کلو سے زائد بارودی مواد تھا۔ پولیس اہلکاروں کی بروقت فائرنگ سے جانی نقصان کم ہوا۔ ڈی پی او نثار احمد نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں کو بہادری پر انعامات سے نوازا جائے گا۔
اس دوران معلوم ہوا ہے کہ ہنگو میں مسجد میں خود کو دھماکے سے اڑانے والے حملہ آور کے فنگر پرنٹس نادرا کے ڈیٹا میں موجود نہیں ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حملہ آور بظاہر کوئی نامعلوم شخص یا غیر ملکی ہوسکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ پولیس اسٹیشن پر خودکش حملہ داعش خراسان نے کیا ہے۔ حکام نے بتایا کہ مسجد میں ہونے والے دھماکے میں 5 افراد جاں بحق اور 9 زخمی ہوئے، یہ مسجد رہائشی کوارٹرز اور پولیس بیرکوں کے ساتھ موجود ایک کمپاؤنڈ کے اندر واقع ہے۔ تھانے میں تعینات پولیس اہلکار اور آس پاس کی دکانوں کے مالک عموماً وہاں نماز میں شریک ہوتے ہیں۔ جمعہ کو موٹر سائیکل پر سوار 2 حملہ آوروں نے کمپاؤنڈ میں داخل ہونے کی کوشش کی، تاہم کمپاؤنڈ کے داخلی دروازے پر ان کا پولیس والوں سے سامنا ہوا تو ان میں سے ایک حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جس سے جانی نقصان کم ہوا۔
ہنگو میں دو آبہ تھانہ اور مسجد میں خودکش دھماکوں سے متعلق تفتیشی رپورٹ کے مطابق خودکش حملہ آور افغان باشندے ہیں، دھماکوں میں کالعدم تنظیم ملوث ہے۔ رپورٹ میں یہ حیرت انگیز دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ داعش نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے یہ کارروائی کی، کمانڈر حافظ اسلم افغانستان سے کوہاٹ کے علاقے میں کام کرتا ہے۔ کمانڈر کاظم، ابوبکر، فاروق اور قصاب پر مشتمل ایک گینگ کو چند ہفتے قبل وسطی کرم روانہ کیا گیا۔ دہشت گرد گینگ مبینہ طور پر اب بھی علاقے میں موجود ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابق ٹی ٹی پی کمانڈر ممتاز امتی اب داعش سے وابستہ ہے اور اس کا گروپ کوہاٹ میں افغانستان سے آپریٹ کرتا ہے۔ تفتیشی رپورٹ کے مطابق موٹر سائیکل چلانے والے حملہ آور نے جیکٹ نہیں پہن رکھی تھی، موٹر سائیکل کی سیٹ میں دھماکہ خیز مواد نصب تھا، حملہ آوروں نے موٹر سائیکل کے انجن اور چیسز نمبر مٹادیے تھے، دھماکے سے قبل 40 سے 50 تک نمازی مسجد کے اندر موجود تھے۔
ہنگو میں دو آبہ تھانہ اور مسجد میں خودکش دھماکوں سے متعلق یہ بات حیران کن بھی ہے اور لائقِ توجہ بھی کہ مستونگ سمیت یہ دونوں حملے ایک ایسے موقع پر کیے گئے ہیں جب چند دن پہلے ہی افغان طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے 200 مشتبہ عسکریت پسندوں کو پاکستان کے خلاف سرحد پار حملے کرنے پر گرفتار کرلیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف پکڑ دھکڑ کی تفصیلات گزشتہ ہفتے کابل میں پاکستان کے اعلیٰ سطح کے وفد سے مذاکرات میں بتائی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوند زادہ نے اپنی فورسز کو پاکستان کے خلاف سرحد پار حملوں سے منع کردیا ہے اور ان حملوں کو حرام اور غیر اسلامی قرار دیا ہے۔ ملا ہبت اللہ اخوند زادہ نے افغان عوام کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی تعاون نہ کریں اور نہ ہی اسے عطیات دیں۔ یہ اطلاعات گزشتہ مہینے افغانستان سے چترال میں ٹی ٹی پی کی دراندازی اور چند ماہ پہلے ژوب میں سیکورٹی فورسز پر سرحد پار سے ہونے والے حملوں کے بعد سامنے آئی تھیں کہ افغان طالبان نے پاکستان کی درخواست اور بین الاقوامی دبائو پر ٹی ٹی پی کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔ افغان طالبان اپنے ان دعووں میں کتنے سچے ہیں، اور آیا وہ کل تک کے اپنے مضبوط حلیفوں کے خلاف ایک ایسے وقت میں سخت ایکشن کیوں کر لے سکتے ہیں جب وہ اتحادی افواج کے خلاف عسکری کارروائیوں کے حوالے سے ٹی ٹی پی کے ممنونِ احسان رہے ہیں۔
دریں اثناء اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ ہوا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیرملکیوں کو ملک بدر کیا جائے گا۔ غیر ملکی متوقع ڈیڈلائن تک تمام اثاثے فروخت کرکے اپنے وطن واپسی کے پابند ہوں گے، اور ڈیڈلائن ختم ہونے پر غیر ملکیوں کو ملک بدر اور ان کی جائدادیں ضبط کرلی جائیں گی۔ افغان شہری قانونی طور پر اجراء کردہ ڈیجیٹائزڈ ’’ای تذکرہ‘‘ پر ہی پاکستان کا سفر کر سکیں گے اور صرف ’’پروف آف رجسٹریشن‘‘ کے حامل افغان مہاجرین ہی پاکستان میں سکونت کے اہل ہوں گے، جبکہ پاکستان میں مقیم تمام غیرقانونی افغان مہاجرین شہریوں کو بھی ممکنہ ڈیڈ لائن تک اپنے ملک واپس جانا ہوگا۔ اگر اس فیصلے پر عمل درآمد ہوتاہے تو ملک میں جاری بدامنی کے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے یہ فیصلہ دوررس اثرات کا حامل ثابت ہو سکتاہے۔