29 ستمبر کو مستونگ پھر لہولہان کردیا گیا ’’ پھر‘‘ اس لیے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔ مستونگ کی حدود نے دہشت گردی اور انسان کُشی کے بڑے دردناک سانحات سہے ہیں۔ یہاں اہلِ تشیع کی بسیں زائرین کو لے کر ایران جاتے یا ایران سے زائرین لے کر آتے ہوئے نشانہ بنی ہیں۔ مسافر اتارکر، قطار میں کھڑے کرکے گولیوں سے بھون ڈالے گئے ہیں۔ یہ ہولناکی دو عشروں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ نواب اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی سراج رئیسانی کے 13جولائی2018ء کو منعقدہ انتخابی جلسے کو خودکش بمبار نے مقتل میں بدل دیا۔ سراج رئیسانی سمیت لگ بھگ 130 افراد جاں بحق ہوگئے۔ منصوبہ ساز مقامی تھے۔ بمبار تو وقوعہ کے قریب کسی گائوں کا رہائشی تھا۔ مولانا عبدالغفور حیدری پر بھی خودکش حملہ ہوا جس میں 25 سے زائد افراد جان سے گئے۔ چند دن پہلے 14 ستمبر 2023ء کو جے یو آئی کے رہنما حافظ حمداللہ سڑک کنارے کھڑی بارود سے لدی موٹر سائیکل کے دھماکے میں زخمی ہوگئے تھے۔ ساتھ گزرنے والی ایک بس بھی اس کی زد میں آگئی جس کا ڈرائیور کئی روز زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد 2 اکتوبر کو کراچی کے نجی اسپتال میں انتقال کرگیا۔ چند دیگر لوگ بھی زخمی ہوئے تھے۔ یہ ریموٹ کنٹرول دھماکا تھا۔
مستونگ کے اندر ٹارگٹ کلنگ کی وبا الگ داستان ہے اور اس کی تاریخ بھی دو عشرے سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ ٹارگٹ کلنگ میں دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد، پولیس، لیویز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکار اور سیاسی جماعتوں کے کارکن ہدف بنتے آرہے ہیں۔ ہدفی قتل میں داعش اور لشکر جھنگوی ملوث ہیں۔ یہ دو کالعدم تنظیمیں اشتراک رکھتی ہیں۔ بلوچ شدت پسند گروہ بھی غالب حصہ رکھتے ہیں۔ سراج رئیسانی پر جولائی2011ء میں بھی مستونگ کے فٹبال گرائونڈ میں کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ نے دستی بم حملہ کردیا تھا، فائرنگ بھی ہوئی تھی، نتیجتاً سراج رئیسانی کا جواں سال بیٹا حقمل رئیسانی بم حملے میں جاں بحق ہوگیا تھا۔ ابھی چند دن پہلے کالعدم داعش کے آپریشنل کمانڈر غلام الدین عرف شعیب کے مستونگ میں مقابلے میں مارے جانے کی خبر دی گئی تھی۔ یہ شخص داعش کے ایک کمانڈر ممتاز کے مارے جانے کے بعد اُس کا خلا پُر کررہا تھا۔ غلام الدین سراج رئیسانی اور مچھ میں ہزارہ کان کنوں کے قتل میں ملوث تھا۔ ممتاز کے مارے جانے کی خبر ستمبر2021ء میں دی گئی تھی۔ وہ کئی سنگین وارداتوں میں ملوث بتایا جاتا تھا۔
مستونگ اور اس کے اردگرد کے پہاڑی سلسلے میں داعش سمیت بلوچ شدت پسند کالعدم گروہوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔ چند سال قبل اسپلنجی کے پہاڑوں میں داعش اور لشکر جھنگوی کی کمین گاہوں پر فوجی آپریشن کیا گیا تھا جس میں ان کے درجن سے زائد ارکان مارے گئے تھے، چند دھرلیے گئے تھے اور ٹھکانوں سے ان کا صفایا کردیا گیا تھا۔ افغانستان میں بھی ان کے کمانڈر مارے گئے۔ تب امریکہ افغانستان میں موجود تھا، اشرف غنی کی حکومت تھی۔ مقامی افراد اس گروہ کا حصہ ہیں۔ ژوب میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق پر خودکش حملہ کرنے والا نوجوان بھی مقامی تھا، دشت مستونگ سے اس کا تعلق تھا اور کوئٹہ کے سریاب روڈ پر اس کے اہل‘ خانہ رہائش پذیر ہے۔
جمعہ 29ستمبر کو مستونگ میں بارہ ربیع الاوّل کے جلوس کے شرکاء کے بیچوں بیچ خودکش دھماکہ داعش کی کارستانی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور مذمت کی ہے۔ بمبار کی شناخت سے متعلق تحقیقات ہورہی ہے۔ اس دھماکے میں60 سے زائد افراد جاں بحق اور 100سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں اہل سنت کے مقامی امیر مفتی سعید احمد حبیبی بھی شامل ہیں۔ ایک ڈی ایس پی محمد نواز گشکوری بھی لقمہ اجل بنے، کئی خاندان اجڑ گئے، سات بہنوں کا اکلوتا بھائی مارا گیا، باپ اور تین بیٹے خاک ہوگئے، کھڈ کوچہ کے ایک جھگی نشین خاندان کے چار جوان لقمہ اجل بنے، دوسگے بھائی اور ان کے دو چچا زاد جاںبحق ہوگئے۔ بیشتر متاثرین کا تعلق انتہائی غریب اور پسماندہ خاندانوں سے تھا جو جھگیوں،خیموں یا پھر کچے مکانات میں رہائش پذیر تھے۔ ایسی کئی دردناک داستانیں رقم ہوئیں۔ سیکورٹی یقینا نہ تھی۔ کوئٹہ میں البتہ سیکورٹی کے اچھے انتظامات کیے گئے تھے۔ مستونگ کی تقریبات میں رسمی طور پرپولیس موجود تھی۔ پولیس نے ڈی ایس پی محمد نواز گشکوری کی دھماکے میں موت کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ آئی جی پولیس بلوچستان شیخ عبدالقادر نے تو یہاں تک غلط بیانی کی کہ ڈی ایس پی نے خودکش حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی۔ حالاں کہ دھماکے سے قبل کی آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ڈی ایس پی جلوس کی قیادت کرنے والوں کے ساتھ ہی کھڑے تھے۔آئی جی پولیس کے اس دعوے پر اہل سنت اتحاد بلوچستان کے علماء نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس میں تعجب کا اظہار کیا۔ سچ یہ ہے کہ سیکورٹی کے کوئی انتظامات نہ تھے، باوجود اس کے کہ مستونگ ان کالعدم مذہبی گروہوں کا اہم مرکز ہے۔ معلوم یہ بھی ہوا ہے کہ سیکورٹی تھریٹ موجود تھا۔ کوئٹہ کے مشرقی بائی پاس پر ایک نجی کار پارکنگ سے 27 ستمبر کو حساس اداروں نے کارروائی کرکے 35 کلو گرام بارود سے بھری گاڑی پکڑی۔ یہ گاڑی یا تو بارہ ربیع الاوّل کے کوئٹہ میں ہونے والے جلوس و اجتماع کے لیے تیار کی گئی تھی یا ممکنہ طور پر مستونگ پہنچائی جانی تھی۔ اس برآمدگی کے باوجود مستونگ کی تقریبات کا تحفظ نہ کیاگیا۔
30ستمبر کو کوئٹہ میں اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل عاصم منیر، نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی، نگران وزیرداخلہ علی مردان ڈومکی، آئی جی پولیس عبدالخالق شیخ شریک ہوئے۔ اجلاس میں جملہ صورت حال پر تبادلہ خیال ہوا۔ مستونگ سانحے کے تناظر میں بریفنگ دی گئی۔ آرمی چیف نے کمبائنڈ ملٹری اسپتال میں مستونگ دھماکے کے زخمیوں کی عیادت بھی کی۔ سرفراز بگٹی مابعد وزیراعلیٰ ہائوس پہنچ گئے جہاں انہوں نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کی۔ وہ مشتعل تھے، انہوں نے کہا کہ ’’داعش اور ٹی ٹی پی کے پیچھے جائیں گے، ان کی نانی ایک ہی ہے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘، جو ملوث ہے۔‘‘ انہوں نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بڑے آپریشن کا اعلان کیا اور خون کا بدلہ لینے کا کہا۔ کالعدم بلوچ گروہوں کو بھی نشانے پر لیا۔
مسلح گروہوں کے خلاف جنگ مدت سے جاری ہے۔ معلوم نہیں ان کی سرکوبی کے لیے مزید کتنا وقت درکار ہوگا۔ مسلح گروہ پاک افغان سرحدی پٹی کا استعمال کرتے ہیں۔ خصوصاً ٹی ٹی پی سرحدی علاقوں سے پاکستان کی فورسز پر حملے کرتی ہے۔ 28ستمبر کو بھی ژوب میں پاک افغان سرحد کے قریب ایک چوکی پر حملے میں چار اہلکار جاں بحق ہوئے۔ حکومت کابل پر غصہ ہے، اس ذیل میں حکومت نے کابل حکومت کے لیے عبوری حکومت کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کردی ہے۔ حصہ امریکہ بھی ڈال چکا ہے۔