بچوں کے ادب میں جاسوسی کہانیاں اور ناول لکھنے والے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسی صنف ہے جس میں نوعمر (ٹین ایج) بچوں کی ایک بڑی تعداد بہت زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔ جہاں یہ صنف بچوں میں مقبول ہے وہیں اس قسم کی کہانیاں یا ناول لکھنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں اور خالہ جی کا گھر نہیں۔ جاسوسی اور تفتیش کے طریقِ کار سے آگاہی اور گہرا مشاہدہ مصنف اور ادیب کے لیے بہت ضروری ہے۔ لکھنے والا جتنا ذہین ہوگا، اس کے کردار بھی اپنی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے نت نئے طریقے اپنائیں گے۔
پاکستان میں بچوں کے ادب میں جاسوسی کہانیاں لکھنے والوں میں اشتیاق احمد سرفہرست ہیں۔ اسی طرح اے حمید نے اس صنف میں طبع آزمائی کی۔ موجودہ دور میں ’’غلام رسول زاہد‘‘ اپنے مضبوط پلاٹ پر بُنی کہانیوں کے ساتھ نمایاں نظر آتے ہیں۔ آپ کی خاص بات یہ ہے کہ آپ بچوں کے ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ حاضر سروس ایڈیشنل آئی جی بھی ہیں۔ آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قائداعظم گولڈ میڈل، یونیورسٹی اعزاز اور اکیڈمک رول آف آنر حاصل کیے۔ تین سال کالج کی سطح پر درس و تدریس سے منسلک رہے۔ مقابلے کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور تحریری امتحان میں ملک بھر میں اول رہے۔ پولیس سروس آف پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔
بطور اے ایس پی ایبٹ آباد، پشاور اور کراچی میں تعینات رہے۔ ایس پی کی حیثیت سے کراچی، راولپنڈی، لاہور، خانیوال اور سرگودھا میں اہم خدمات سرانجام دیں۔ اقوام متحدہ کے امن مشن برائے کوسوو میں تربیت اور مشاورت کے فرائض ادا کیے اور یو این میڈل کے حقدار ٹھہرے۔ سرکاری فرائض کے سلسلے میں ترکی، سعودی عرب، امریکہ اور کینیڈا کے سفر کیے۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے تربیتی کورس پاس کیا۔ انٹیلی جنس بیورو میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ بطور ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی پنجاب پولیس اور نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ اعلیٰ کارکردگی کے اعتراف میں اِنھیں صدر پاکستان کی طرف سے پریزیڈنٹ پولیس میڈل عطا کیا گیا۔
دورانِ ملازمت پنجاب یونیورسٹی سے لاء اور علوم اسلامیہ جبکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ریاست کے امن سے متعلق قرآنی تعلیمات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور مختلف چینلز میں بطور مہمان شریکِ گفتگو ہوتے ہیں۔
ادبی میدان میں آپ نے ”بچوں کا اسلام“ میں متعدد کہانیاں لکھیں۔ بچوں کے لیے آپ کا ایک ناول ”پراسرار تحریر“ شائع ہوچکا ہے، جبکہ ”سبز خون“، ”پھول کی گواہی“، ”سونے کی تلوار“ ، ”ایک پولیس آفیسر کی ڈائری“ (دو حصے)پر مشتمل کہانیوں کے مجموعے آچکے ہیں۔ اسی طرح آپ کا ایک سفرنامہ ”کوسوو“ جبکہ دو شعری مجموعے بھی شائع ہو کر منظر عام پر آچکے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہم نے ایک نشست میں ان سے بچوں کے ادب کے حوالے سے تفصیلی تبادلۂ خیال کیا۔ قارئین اور بچوں کے لیے لکھنے والے ادیبوں کو یقیناً اس مفید گفتگو سے سیکھنے کے نئے زاویے ملیں گے۔
انٹرویو کا آغاز ہم نے روایتی انداز سے کرتے ہوئے سب سے پہلے اُن کے بچپن کے بارے میں پوچھا تو اُنھوں نے بتایا:
مکمل نام غلام رسول زاہد ہے۔ اکتوبر 1964ء میں قبولہ شریف میں پیدا ہوا۔ یہ ایک تاریخی قصبہ ہے۔ چھے سات سو سال قدیم یہ تحصیل عارف والا ڈسٹرکٹ پاک پتن پنجاب میں واقع ہے۔ یہاں سے ہی میں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ یہاں ایک اسکول ہےجس کا نام جامعہ اسلامیہ ہے۔اس کا سرکاری نام Arabic Model high schoolہے، اس جامعہ کے مزاج میں اسلامی روح تھی۔ یہاں سے میٹرک کیا اور ملتان بورڈ میں پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہا۔ چھے سال میں نے یہاں گزارے۔ انٹر میڈیٹ میں لاہور بورڈ میں ٹاپ کیا اور بی اے میں پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد انگلش ادبیات میں ایم۔اے، گورنمنٹ لاہور کالج ہی سے کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد میں نے اپنے علاقے عارف والا میں گورنمنٹ ڈگری کالج میں تین سال انگریزی پڑھائی۔ اسی دوران مقابلے کا امتحان دیا۔ سی۔ایس ۔ ایس اور پولیس میں میرا انتخاب ہوا اور 1991ء میں پولیس میں شمولیت اختیار کی اور اس کے بعد سے میں پولیس سروس میں خدمات سر انجام دے رہا ہوں۔
سوال: بچوں کے بڑے ادبا پہلے بہت اہتمام کے ساتھ لکھا کرتے تھے، اب یہ سلسلہ ہمیں منقطع نظر آرہا ہے، اس کی آپ کیا وجہ سمجھتے ہیں؟
غلام رسول زاہد: بدقسمتی سے ہم جس زمانے میں زندہ ہیں یہاں کتاب پڑھنے والوں کی تعدادبہت کم ہوگئی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی۔ کتاب تو ہمیشہ زندہ رہے گی، قائم رہے گی، لوگ اسے پڑھتے رہیں گے۔ لیکن اب اس کا رجحان بہت کم ہوگیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں بچے اب بھی پڑھتے ہیں۔ پڑھے لکھے بڑوں نے کتاب پڑھنی چھوڑ دی ہے۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ پچھلے دنوں میرے اپنے محکمے نے مجھےمیری کتاب پر بڑا گراں قدر انعام دیا ہے۔ بچوں کے لیے بھی اور بڑوں کے لیے بھی لکھا، خصوصاً بچوں کے لیے لکھناآسان کام نہیں۔ بڑوں کے لیے لکھنے والے ادیب اس بات کو شاید محسوس نہ کرسکیں ۔
اُردو کے جتنے بڑے ادیب گزرے ہیں ان میں سے اکثر نے بچوں کے لیے لکھا ہے۔ اسماعیل میرٹھی اور امتیاز علی تاج سے شروع ہوں، پھر آپ احمد ندیم قاسمی، غلام عباس، قرۃ العین حیدر، کرشن چندر اور عصمت چغتائی کو پڑھیں۔ علامہ اقبال کے ہاں آپ کو بانگ درا کے آغاز ہی میں ہمدردی، پہاڑ اور گلہری، ماں کا خواب جیسی بچوں کےلیے بڑی شاندار نظمیں ملتی ہیں۔ صوفی تبسم اتنے بڑے آدمی گزرے ہیں جو استادوں کے استاد ہیں۔ انھوں نے جہاں ادبی شہ پار ے چھوڑے ہیں وہاں بچوں کے لیے بڑی خوبصورت شاعری بھی کی ہے ۔ بچوں کے لیے ان کا ٹوٹ بٹوٹ آتا ہے اور چھا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے نرسری کی نظموں میں جتنی اچھی شاعری انھوں کی ہے وہ کسی اور کی نہیں ہے۔ آپ ان کی استادانہ عظمت پر کلام نہیں کرسکتے۔ اب یہ ہے کہ جو بڑا لکھنے والا ادیب ہے اس نے یہ کہا نیاں لکھنی چھوڑ دی ہیں۔ اس کو میں اس طرح لیتا ہوں کہ وہ ایک لحاظ سے اپنی کوتاہیِ فن کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ بچوں کے لیے نہیں لکھ سکتے۔ بچوں کے لیے بڑے ادیب کا لکھنا اس کے اوپر ایک ایسا قرض ہے جو اسے ادا کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ بچہ جو تحریر پڑھے گا جس طرح سے وہ اس کا اثر قبول کرے گا، بڑا نہیں کرے گا۔ اور جس طرح بچے کےذہن میں زیادہ اچھے اور مثبت نقوش ثبت ہوں گے، اس طرح بڑے آدمی میں کتاب پڑھتے ہوئے قبولیت پیدا نہیں ہوتی۔
سوال: آپ خود کہانی کی طرف کب آئے؟
غلام رسول زاہد: کہانی کا مجھے شروع سے شوق ہے اور میں نے بہت زیادہ بچوں کی کتابیں پڑھی ہیں اور اب بھی پڑھتا ہوں۔ کہانی لکھنے کی جو تحریک مجھے ملی ہے وہ اشتیاق احمد سے ملی ہے۔ جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو میں نے اشتیاق صاحب کو پڑھنا شروع کیا۔ چونکہ ان کا انداز آپ کو اپنے سحر میں ایساگرفتار کرلینے والا ہوتا ہے کہ پھر اس کے بعد کسی دوسرے کی طرف آپ کی توجہ کم ہی جاتی ہے۔ میں اشتیاق احمد مرحوم سے یہ کہا بھی کرتا تھا کہ آپ کی جو مقبولیت ہے، اس کا نقصان بھی ہوا ہے۔ جتنے بڑے بڑے لوگ تھے جو بڑی خوبصورت کہانیاں اور ناول لکھا کرتے تھے، پس منظر میں چلے گئے۔
سوال: کیا مغربی ادب میں کسی جاسوسی کہانی کار، ناول نگار سے متاثر ہوئے؟
غلام رسول زاہد: دیکھیں جو ادب یورپ میں لکھا گیا ہے وہ بڑے پائے کا ہے۔ کمال کا ہے۔ انگریزی ادب میں بہت بہترین کہانیاں لکھی گئی ہیں اور بچوں کے لیے تو کیا ہی خوب اور نت نئے تجربات کیے گئے ہیں۔ جاسوسی کے میدان میں اگاتھاکرسٹی، آرتھر کونن ڈائل،ایڈ گر ایلن پوکے نام کا طوطی بولتا تھا۔ انھوں نے بہت اچھی تحریریں لکھیں۔ ہم خوش نصیب تھے کہ بچپن ہی میں ہم نے ان بڑے ناموں کو پڑھ ڈالا۔
سوال: بچے اور بچوں کا ادب، پاکستان کے تناظر میں اسے کیسا دیکھتے ہیں اور اس میں مستقبل کی کیا صورت گری پیش کرتے ہیں؟
غلام رسول زاہد: بچوں کا ادب ، بچوں کے ذوقِ مطالعہ کی آبیاری کرتا ہے۔ معاشرے میں کتاب خوانی کے جو بچے کھچے اثرات ہیں، وہ بچوں کے ادب ہی کی وجہ سے ہیں۔ اگر بچہ اچھی کتاب پڑھتا ہے تو اس کے اثرات کو قبول کرتا ہے۔ اگر بچے میں مطالعے کا شوق ہے تو وہ بہترین شہری بنے گا۔ آپ کوئی بھی مضمون پڑھ رہے ہوں۔ آپ ڈاکٹر بنیں یا پھر آئی ٹی اسپیشلسٹ۔ اگر بچے کو کتاب پڑھنے کا شوق ہے تو اس کے اندر تہذیبی اور معاشرتی اقدار منتقل ہوجائیں گی اور وہ یہی عمر ہوتی ہے جس میں بچہ سیکھتا ہے۔ جس کو بچپن سے ہی مطالعے کا شوق ہے وہ ساری زندگی مطالعہ کرتا رہے گا۔ لہٰذامیں سمجھتا ہوں کہ بچوں کے اندر کتب بینی کا شوق پیدا کرنا بہت ضروری ہے اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بچوں کے ادب کے ذریعے اسے راغب کیا جائے۔ اور جب آپ بچوں کے ادب کی بات کرتے ہیں تو میں اس میں لفظ ’’معیاری‘‘ کا اضافہ کرتا ہوں۔ وہ ادب ایسا ہو جو ہم نے بچپن میں پڑھا تھا۔ جتنے بڑے بڑے مشاہیر ہیں سب کو ہم نے پڑھ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اپنی بڑی عمر کو پہنچے تو ہم نے شاہ ولی اللہ، شبلی نعمانی، سید مودودی کو پڑھنا شروع کیا۔ اسی طرح اقبال کو پڑھنا شروع کیا تو ہمیں کبھی یہ دقت محسوس نہیں ہوئی ۔فکشن میں ایچ جی ویلز، اگاتھا کرسٹی، جوناتھن سوفٹ کو ہم نے پڑھا۔ بچپن میں ہمیں ایسی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا جو یقیناً معیار کے مطابق تھیں۔ اس وقت ہمارے لیے یہ چیلنج ہے کہ دنیا کا جو بہترین بچوں کا ادب تخلیق ہوا ہے، اس کا ترجمہ یا تلخیص بچوں تک پہنچائی جائے۔ ان کو اس طرف راغب کیا جائے۔ اس سے ان کے ذہن کے آفاق وسیع ہوں گے اور وہ زیادہ غوروفکر کرنے والے بچے بنیں گے۔
سوال: جاسوسی کہانیاں لکھتے ہوئے آپ کن چیزوں کو بروئے کار لاتے ہیں؟ جو لوگ پولیس تحقیقات وغیرہ جیسے معاملات سے واقف نہیں ہیں، وہ اپنی جاسوسی کہانیوں کو کیسے مؤثر کرسکتے ہیں؟
غلام رسول زاہد: اب کا پولیس افسر بدقسمتی سے عمومی طور پر لکھنے کی طرف راغب نہیں ہے، جتنا اچھا مشاہدہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دیا ہے کسی دوسرے شعبے کے فرد کے پاس نہیں ہے۔ ایک پولیس افسر ایک جاسوسی کہانی لکھتا ہے تو وہ تکنیکی اعتبار سے اس کے تمام زاویوں اور جزئیات پر حاوی ہوتا ہے۔ کہانی میں تضادات نہیں ہوتے یا پھر کم ہوتے ہیں۔ اس میں وہ ایسی بات نہیں کرتا کہ پڑھنا والا بدمزہ ہو کہ یہ انھوں نے کیسی بے جوڑ بات کر دی۔ اشتیاق احمد مرحوم مجھے کہا کرتے تھے کہ آپ کی کہانی جب میرے پاس آتی ہے تو مجھے کوئی فکر نہیں ہوتی۔ کیونکہ ساری چیزیں آپس میں مربوط ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں کہی جاتی جو عقل تسلیم نہیں کرتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تفتیش کا جو عمل ہے یہ بڑا عقلی اور منطقی عمل ہے، اور جب بچوں کو آپ جاسوسی کہانیاں پڑھنے کے لیے دیتے ہیں تو پہلی بات یہ کہ ان میں مشاہدے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو نظر انداز نہیں کرتے۔ بہت سی کہانیوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بہت بڑا مسئلہ ایک چھوٹی سی چیز سے حل ہوجاتا ہے۔ گواہی اور شہادتوں کی کیا اہمیت ہے؟ جرم کیوں ہوتے ہیں؟ موقع واردات کی جو شہادت ہے وہ کس طرح اکٹھی کی جاتی ہے؟ اس کی کیا اہمیت ہے؟ اور پھر دیکھیں تفتیش میں آپ کیسے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے تک پہنچتے ہیں اور کس طرح آپ کڑی سے کڑی ملا کر آخری نتیجے تک پہنچتے ہیں۔ ان ساری چیزیں کا خیال رکھتے ہوئے اگر کوئی پولیس والا جاسوسی کہانیاں لکھتا ہے تو وہ بڑی مربوط اور منظم قسم کی کہانی آپ کے سامنے پیش کرے گا۔ آپ اسے دیکھیں گے تو اسے واقعی سراہیں گے۔ اس کے اثرات بھی آپ پر مرتب ہوں گے۔ عام آدمی یا شوقیہ مزاج آدمی جب لکھتا بھی ہے تو نہ اس نے کوئی قتل کی واردات دیکھی ہوتی ہے، نہ ڈکیتی کی کبھی تفتیش کرتا ہے۔ کون سی چیز شہادت میں شامل ہے کون سی شامل نہیں ہے۔ عدالتی طریقہ کار کیا ہوتا ہے، عدالت میں جرح کیسے کی جاتی ہے، دفاع کیسے کیا جاتا ہے؟ یہ ساری چیزیں وہ نہیں جانتا۔ تو اگر کوئی جاسوسی یا جرم کہانی لکھنا چاہتا ہے تو اُسےچاہیے کہ ان معلومات کا احاطہ کرے، ان چیزوں کو سیکھے، کیونکہ عام کہانی میں آپ اپنے تخیل کی مدد سے کچھ بھی لکھ دیں، وہ چل جاتا ہے، سوالات کھڑے نہیں ہوتے۔ جیسے سند باد جہازی کی کہانی ہے۔ آپ کون کون سی راہوں پر چلتے جاتے ہیں کوئی آپ سے اس کا سوال نہیں کرے گا، لیکن اگر آپ کو جاسوسی کہانی لکھنی ہے تو اس کے اندر پورا ربط ہونا چاہیے اور وہ تکنیکی اعتبار سے جھول سے پاک ہو۔ میراخیال ہے کہ باقاعدہ ریسرچ اور ہوم ورک کے بعد بچوں اور بڑوں کے لیے جاسوسی کہانی لکھنی چاہیے۔
سوال: کسی مجرم یا ملزم کی داستان کو اس کی اجازت کے بغیر لکھنا، چاہے وہ فرضی ناموں سے ہو لیکن واقعہ بہت مشہور ہو اور کہانی سنتے ہی ذہن اس اصل واقعے کی طرف چلا جائے۔ اسی سے جڑا ایک سوال کہ حالیہ دنوں میں پولیس کی کسٹڈی میں موجود ملزمان کے انٹرویوز مختلف یوٹیوبرز کررہے ہیں۔ کیا یہ عمل ٹھیک ہے؟
غلام رسول زاہد: آپ نے خود فرق کیا ہے ملزم اور مجرم کے درمیان۔ ملزم دراصل وہ ہے جس پر الزام ابھی تک ثابت نہیں ہوا، صرف اس پرالزام ہے۔ اور مجرم وہ ہے جس کے اوپر الزام ثابت ہوچکاہے، اسے سزا ہوچکی ہے، اس کی اپیل مسترد ہوچکی ہے اور اب وہ بالآخر سزا یاب شخص قرار دیا جاچکا ہے۔
ملزم کے بارے میں واقعی اس طرح کی کہانیاں نہیں لکھنی چاہئیں۔ کیوںکہ ہو سکتا ہے بعد میں کسی مرحلے پہ جا کے وہ بَری ہوجائے۔ تو ازالہ حیثیت ِعرفی کی صورت بن جاتی ہے۔ قانوناً بھی اور اخلاقی طور پر بھی یہ غلط بات ہے۔ البتہ وہ مجرم جس کی سزا یابی کے تمام مراحل طے ہوچکے ہیںاُس کے بارے میں لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ایسے مجرم کو نشانِ عبرت بنا کر پیش کرنا چاہیے۔ آپ نام اور مقامات تبدیل کردیں۔ ثابت شدہ جرائم کی کیس اسٹڈیز بھی ہوتی ہیں۔ جو بڑے بڑے جرائم ہیں دنیا میں، ان کی کیس اسٹڈیز موجود ہیں۔
دوسرا ضمنی سوال کہ پولیس کی کسٹڈی میں موجود مجرم سے انٹرویوز مختلف یوٹیوبرز کر رہے ہیں اور کیا یہ عمل ٹھیک ہے؟
تو یہ عمل بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے کہ تفتیش ایک بڑا پیشہ ورانہ اور مشقت والا ماہرانہ کام ہے۔ ہر آدمی اس کو نہیں کرسکتا، حتیٰ کہ ہر پولیس آفیسر بھی نہیں کرسکتا۔ شعبہ تفتیش الگ ہوتا ہے۔ پھر شعبہ تفتیش کے اندر قتل کے جرم کو ڈیل کرنے کے ماہرین الگ ہوتے ہیں۔ اسی طرح اِغوا اور منشیات کے جرم کو ڈیل کرنے والے بھی ماہر ہوتےہیں جیسے آج کل موبائل فرانزک کے ماہرین ہیں۔ تو عام شہری کے اوپر یہ چیزیں چھوڑی نہیں جاسکتیں اور تفتیش کا عمل محض کہنے سننے کی بات نہیں ہوتی، اس کو عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے اور وہاں عدالت میں وکیل استغاثہ ہوتا ہے۔ وکیل دفاع ہوتا ہے۔ کیس کے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں۔ اس کے اوپر جرح ہوتی ہے۔ سوال جواب ہوتے ہیں تب جاکے جج صاحب اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ ملزم جو ہے واقعی مجرم ہے کہ نہیں۔ تو یہ ایک سنجیدہ عمل ہے اور اس کا تعلق پیشہ ورانہ لوگوں کے ساتھ ہے جو خاص طور پر اس کام کے لیے مامور کیے گئے ہیں۔ اس لیے یوٹیوبرز کا یہ طرزِ عمل کسی صورت مناسب نہیں۔ اخلاقاً بھی اور قانوناً بھی۔
سوال: آپ کی اپنی کہانیوں میں اصلی واقعات کا کتنے فیصد حصہ شامل ہوتا ہے؟
غلام رسول زاہد: میں نے لکھنے کا آغاز ایک ناول سے کیا تھا اور اس کے بعد چپ سادھ لی تھی، پھر اشتیاق احمد مرحوم نے ’’بچوں کا اسلام‘‘ شروع کیا تو میری سرگودھا پوسٹنگ تھی۔ اشتیاق احمد نے کہا کہ آپ کو کہانی لکھنی ہے، تو اس کے لیے میں نے پہلی کہانی’’مصنوعی ٹانگ‘‘ لکھی۔ وہ کہانی کچھ پولیس کی ہے، کچھ سماجی پہلو ہیں۔ اس کے بعد لکھنے لکھانے کا یہ سلسلہ چل پڑا۔ پھرمیں نے زیادہ تر اُن واقعات اور تفتیش پر مبنی کہانیاں لکھیں جو میں نے دیکھے یا جن کا میں حصہ رہا۔ اس میں تخیل کو شامل کرکے اسے کہانی کی شکل دے دی۔ کیونکہ کہانی اور واقعات میں فرق ہوتا ہے، حقیقی واقعات سے میں نے بہت زیادہ مدد لی ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ اس میں زیادہ مقبول کہانیاں وہ ہوتی ہیں جو حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں۔ جیسے میری کہانی تھی ’’سفید گلاب‘‘ جو اُردو ڈائجسٹ میں بھی چھپی تھی، پھر بعد میں بچوں کے لیے بھی لکھی کہ کس طرح سے بوڑھا والد جو بہت دولت مند ہے، اسے کینسر ہوجاتا ہے۔ اس کی ٹانگ کاٹنے کا وقت آتا ہے تو اس کےبچے لڑتے ہیں کہ ہمیںیہ ٹانگ لے کر جانی ہے۔ ہمیں اس سے بڑی محبت ہے۔ آخر میں یہ ہوتا ہےکہ جو بچہ ٹانگ لے کر جاتا ہے وہ پہلی فرصت میں اسے جھاڑیوں میں پھینک دیتا ہے۔ اس میں ایک معاشرتی پہلو بھی تھا اور تفتیش بھی تھی۔ یہ ایک حقیقی واقعہ ہے جو کراچی کا تھا، جس پر میں نے کہانی لکھی تھی۔ آپ یقین جانیں حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جتنی کہانیاں، ڈرامے، ناول، افسانے لکھے گئے، ان میں اگرحقیقی عنصر ہو، اس کے تکنیکی تقاضوں کو پورا کیا گیاہو یا پھر اس میں آپ نے خیال آفرینی کی ہے یا تخیل شامل کیا ہے وہ زیادہ کامیاب اور مقبول ٹھہری ہیں۔
سوال: جاسوسی یا جرائم کی کہانیوں میں قتل اور خودکشی جیسے واقعات کا تذکرہ بچوں کے لیے مناسب ہے؟
غلام رسول زاہد: بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ وہ بچے جو چھوٹی عمر کے ہیں یعنی دس سے بارہ سال تک کے، ان کے لیے جاسوسی یا جرائم کی کہانیاں مناسب نہیں۔ ان کے لیے پریوں کی، باغوں کی،شہزادے اور شہزادیوں کی، سفر کی کہانیاں مناسب ہیں۔ ان معصوموں کے لیے اسی طرح کی معصوم سی کہانیاں ہونی چاہئیں، اس پر تو کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن ٹین ایجرزکے لیے جاسوسی اور جرائم کی کہانیاں میرے خیال میں بہت مناسب ہیں۔ ہاں البتہ اس میں قتل کی منظر کشی، اعضا کی قطع وبرید وغیرہ کا ذکر نہیں کرنا چاہیے۔ جرائم میں سب سے سنگین جرم قتل ہے، پھر ڈکیتی ہے، اغوا ہے۔ یہی بڑے بڑے جرائم شمار ہوتے ہیں اور ان ہی کی جاسوسی کی جاتی ہے۔ فراڈ بھی اس میں آجاتا ہے۔ ان کی آگاہی دینی ضروری ہے، ایک تویہ کہ اس سے بچوں میں قوت ِمشاہدہ پیدا ہوگی، وہ چیزوں کوبغور دیکھیں گے، برے بھلے کی پہچان ہوگی، جو مجرمانہ رجحانات ہیں ان سے وہ آشناہوں گے، اور اسی طریقے سے انھیں یہ بھی پتا ہوگا کہ ان جرائم میں ملوث ہونے کے کیا نتائج نکلتے ہیں، کس طرح معاشرے پر اس کے اثرات پڑتے ہیں اور کس طرح خاندان برباد ہوتے ہیں۔ اس لیے جرم کو عبرت بنانا ویسے بھی ضروری ہے۔ عبرت کے معنی سبق ہی ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں نو عمر بچوں کے لیے جاسوسی یا جرائم پر مبنی جیسے شرلاک ہومز کی کہانیاں، انسپکٹر جمشید کی کہانیاں مناسب ہیں۔
(جاری ہے)