جرم اور زبان

جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد دنیا کے ہر معاشرے کا مسئلہ ہے۔ یہ وہ واحد مسئلہ ہے جس میں امیر و غریب یا ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں کوئی خاص فرق نہیں۔ ہاں البتہ اتنا ضرور ہورہا ہے کہ ترقی یافتہ ملک اپنی مصنوعات کی طرح جرائم کی نئی نئی اقسام بھی ترقی پذیر یا غریب ملکوں کو برآمد کررہے ہیں۔ قتل تو پہلے بھی ہوتے تھے مگر اب جس طرح ہوتے ہیں کچھ عرصہ پہلے اس کا تصور بھی محال تھا، اور اگر کبھی کبھار کوئی ایسا واقعہ پیش بھی آجاتا تھا تو اسے استثنیٰ سمجھا جاتا تھا، مگر اب بھیانک انداز میں ہونے والے جرائم کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ معمولی نظر آنے لگے ہیں۔

مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے اسباب اور حل بھی تلاش کیا جاتا ہے۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد کے اسباب اور اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے۔ مغربی ملکوں میں تو اس مسئلے پر اتنی تحقیق ہورہی ہے کہ اس تحقیق پر تحقیق کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اور وہ اس لیے کہ اتنی تحقیق کے باوجود بڑی بڑی حکومتیں، ہر طرح کے وسائل رکھنے والی ریاستیں مسئلے پر قابو پانے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہیں۔ جرائم نہ صرف یہ کہ بڑھ رہے ہیں بلکہ جرائم کی نئی نئی اور بھیانک سے بھیانک شکلیں بھی ظاہر ہورہی ہیں۔

کئی دوسرے موضوعات کی طرح جرم یا جرائم کا مسئلہ بھی صحافت کا مرغوب موضوع ہے۔ ایک تو اس لیے کہ یہ اہم ترین مسئلہ ہے، اور دوسرے اس لیے کہ وسیع تر معنوں میں یہ ’’بکتا‘‘ بھی بہت ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات میں جرائم کے واقعات جس سنسنی خیز انداز میں رپورٹ ہوتے ہیں ان پر غورو فکر بھی اس قدر سنسنی خیز انداز میں کیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ حقائق منکشف ہونے کے بجائے مزید پسِ پردہ چلے جاتے ہیں۔ یوں بھی صحافت کا طرۂ امتیاز مسئلے کا درست حل تلاش کرنے کے بجائے فوری حل تلاش کرنا ہوتا ہے جو عام طور پر آسان حل سے عبارت ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ تیزی کے ساتھ غور و فکر (Quick Thinking) کا یہی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔ مگر صحافت سے اس بات کی کیا شکایت کی جائے! اس سلسلے میں تو ماہرینِ عمرانیات اور ماہرینِ نفسیات بھی ناکام ہی نظر آتے ہیں۔ مگر ہم نے یہاں صحافت کا تذکرہ خوامخواہ نہیں کیا ہے۔ اس کا مسئلے سے گہرا تعلق ہے جو آگے چل کر ظاہر ہوگا۔ جرم کو عام طور پر قانون اور سزا کے تصورات کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور یہ خیال بہت عام ہے کہ قانون پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے تو مسئلے پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ قانون شکنی کے رویّے کی توجیہ مختلف ملکوں میں مختلف انداز میں کی جاتی ہے۔ بہت سے لوگ اسے اخلاقی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ بڑھتا ہوا معاشی دبائو، خاندان کے ادارے کی شکست و ریخت اور اسی طرح کی بیسیوں باتیں اس ذیل میں کہی جاتی ہیں۔ ہمیں ان میں سے کئی باتوں سے اتفاق نہیں، تاہم ہم یہاں ان سب باتوں کو درست تسلیم کرلیتے ہیں اس لیے کہ ان باتوں سے اختلاف کا اظہار آج ہمارا موضوع نہیں ہے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ اس مسئلے کو دیکھنے کا ایک اور ذریعہ بھی ہے جس پر غور و فکر سے ہم مسئلے کی بہتر آگہی حاصل کرسکتے ہیں۔ مگر یہ رخ ایسا ہے جس کو یکسر نظرانداز کیا گیا ہے۔ صحافت کا تو خیر ذکر ہی کیا… نفسیات اور عمرانیات تک میں اس رخ پر توجہ نہیں دی گئی، اور یہی رخ ہم آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری حقیر رائے میں جرائم کے مسئلے کا مذہب، اخلاق، قانون، اقتصادی ڈھانچے اور خاندانی ادارے کے علاوہ زبان سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔ بلکہ شاید بدزبانی سے بھی۔

لوگ لفظوں کو جن کی ایک خاص ترتیب سے زبان وجود میں آتی ہے، معمولی چیز سمجھتے ہیں۔ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ آپ کسی انسان سے الفاظ چھین لیجیے، آپ دیکھیں گے کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم جنہیں الفاظ سمجھتے ہیں وہ ہماری روح ہیں، ہمارا ذہن ہیں، ہمارے جذبات اور احساسات ہیں، ہمارا پورا وجود ہیں۔ ان کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ مفہوم کی ایک دنیا الفاظ سے ماورا بھی ہے، مگر ہم یہاں عام زندگی کی بات کررہے ہیں جو الفاظ کے بغیر معنی کی حامل نہیں ہوسکتی۔

ہمارے پاس اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ’’سائنسی ثبوت‘‘ تو نہیں ہے لیکن ہمارا مشاہدہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ مجرموں اور مجرمانہ رجحانات رکھنے والوں کا ذخیرۂ الفاظ محدود یا بہت محدود ہوتا ہے۔ یہ بات اگر سب مجرموں کے بارے میں درست نہیں ہے تو اکثر کے بارے میں ضرور درست ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ ذخیرۂ الفاظ کے محدود ہونے کا مجرمانہ ذہنیت سے کیا تعلق ہے؟ بہت گہرا تعلق ہے… کیسے؟

اصل میں بات یہ ہے کہ ہر انسان میں ایک قوت پائی جاتی ہے جسے ہم اپنی سہولت کے لیے توانائی کہہ لیتے ہیں۔ یہ توانائی کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہوتی ہے، مگر ہوتی یہ سب میں ہے۔ یہ توانائی اظہار چاہتی ہے الفاظ کی صورت میں، عمل کی صورت میں۔ اس توانائی کا تعلق انسانی وجود کے ہر حصے سے ہوتا ہے۔ خیالات سے بھی، جذبات سے بھی، احساسات سے بھی، جسم سے بھی، نفس سے بھی اور روح سے بھی۔ اگر یہ توانائی الفاظ کی صورت میں معرضِ اظہار میں آتی رہے تو اس میں ایک توازن اور داخلی ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہی صورت جسمانی عمل کی وجہ سے بھی رونما ہوسکتی ہے، مگر عمل کا معاملہ خیال ہی کے بعد آتا ہے اور خیال بیشتر صورتوں میں الفاظ ہی کی صورت میں ہمارے ذہن میں آتا ہے۔ یعنی ہم لفظ کی مدد سے ہی سوچتے ہیں۔ لیکن اگر یہ توانائی لفظوں کے ذریعے معرضِ اظہار میں نہ آئے یا اسے اپنے اظہار کے لیے مناسب الفاظ نہ ملیں تو اس میں عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے اور اس کی داخلی ہم آہنگی بدنظمی میں ڈھل جاتی ہے، اور پھر یہ آتش فشاں کے اندر کھولتے ہوئے لاوے کی طرح ہوجاتی ہے جو نہ جانے وجود کے کس حصے کو نہ جانے کب اور نہ جانے کہاں سے توڑ کر بہہ نکلے اور ہر طرف تباہی پھیلا دے۔ مجرمانہ نفسیات کے سلسلے میں دنیا بھر میں جو تحقیق ہوئی ہے اس کا مرکزی نکتہ یہ خیال ہے کہ مجرموں کی ابتدائی زندگی میں سماجیانے کے عمل یعنی Socialization کی کمی رہ جاتی ہے۔ انہیں خاندان اور معاشرے کی مناسب توجہ نہیں مل پاتی جس کی وجہ سے ان میں معاشرے کے لیے مجرمانہ رجحانات پرورش پانے لگتے ہیں۔ تاہم ہماری نظر سے ایسی کوئی چیز نہیں گزری جس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہو کہ خراب، بری یا کمزور Socialization کا ایک پہلو ذخیرۂ الفاظ کا محدود ہونا یا زبان کے ڈھانچے کی کمزوری بھی ہے۔

یہ بات تو ہم سب بھی اپنے تجربے سے جانتے ہیں کہ اگر ہمیں اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے کبھی مناسب الفاظ نہیں ملتے تو ہم اپنے اندر ایک بے چینی اور اضطراب محسوس کرتے ہیں، اور اگر ہم بہترین الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اپنے اندر ایک سکون اور اطمینان کی کیفیت محسوس کرتے ہیں۔ مجرمانہ رجحانات کے حامل افراد کی بہت بڑی تعداد کا سرسری مشاہدہ بھی اس حقیقت کو آشکار کرنے کے لیے کافی ہوگا کہ اُن میں اس توانائی کی مقدار عام لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے جس کا ذکر ہم نے سطورِ بالا میں کیا ہے۔ چونکہ ان میں توانائی زیادہ ہوتی ہے اس لیے ان کے خیالات اور احساسات بھی شدید ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں اصولاً انہیں زبان کے ایک ٹھوس ڈھانچے یا وسیع ذخیرۂ الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے یہی ان کے پاس نہیں ہوتا۔ چونکہ وہ اپنے شدید جذبات و احساسات اور خیالات کے مناسب اظہار سے محروم رہ جاتے ہیں اس لیے یہ توانائی ایک تخریبی قوت بن جاتی ہے اور مجرمانہ سرگرمیوں میں جو بیشتر صورتوں میں شدید کیفیت کی حامل ہوتی ہیں، اپنا اظہار ڈھونڈ لیتی ہے۔ چونکہ ان کی اندرونی کیفیتیں بھی شدید تر ہوتی ہیں اسی لیے یہ شدید خارجی سرگرمیاں انہیں اپنی اپنی سی لگتی ہیں اور وہ ان سرگرمیوں میں اپنے آپ کو پا لیتے ہیں یا انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مجرموں کو یہ سرگرمیاں ایک خاص نوعیت کا اظمینان بھی فراہم کرتی ہیں، ایسا اطمینان جو اضطراب کا ہم معنی ہوتا ہے اور جو عام آدمی کو تو اضطراب ہی لگتا ہے مگر انہیں سکون کی طرح محسوس ہوتا ہے۔

اگر آپ مجرموں کی ذہنی کیفیت کا تجزیہ کریں گے تو دیکھیں گے کہ ان کے ذہن پر بیداری کے بیشتر حصے میں ایک دھند چھائی رہتی ہے، ایک ابہام سا طاری رہتا ہے، وہ اپنی مختلف کیفیتوں کے سلسلے میں واضح فرق قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کا ذخیرۂ الفاظ محدود ہوتا ہے۔ الفاظ ہماری مختلف کیفیتوں کو ایک نام دے دیتے ہیں، اور نام دے کر ان کا تعین یا تعین سا کردیتے ہیں جس کی وجہ سے انسان جب کبھی ایک کیفیت سے دوسری کیفیت میں داخل ہوتا ہے تو اسے اس کا شعور رہتا ہے اور وہ اپنے اوپر بڑی حد تک قابو رکھنے کا اہل ہوتا ہے، لیکن مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد اس سہارے سے محروم ہوتے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات یہ تو بتاتے ہیں کہ بیشتر مجرم Impulses کے زیراثر عمل کرتے ہیں، مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے، یعنی ان کے ذہن پر چھائی رہنے والی دھند کی سی کیفیت، ابہام یا Vagueness۔

ذخیرۂ الفاظ کے محدود ہونے کی بھی کئی صورتیں ہیں، مثلاً بعض لوگوں کے پاس ایسے الفاظ ہوتے ہیں جو عام خیالات کے اظہار کے لیے کفایت کرتے ہیں مگر جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے ناکافی ہوتے ہیں۔ اسی طرح صورت حال اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں میں ایک خاص قسم کی شدت ہوتی ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان میں سے بیشتر لوگ جذباتی اور احساساتی وجود ہوتے ہیں، اور جذبات و احساس اور خاص طور پر شدید جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے نازک الفاظ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو اُن کے پاس نہیں ہوتے، بلکہ اُن کے پاس کیا عام اور صحت مند کہلانے والے اور اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگوں کے پاس بھی نہیں ہوتے۔ چنانچہ ان کے جذبات و احساسات اپنی شدت کے ساتھ کبھی بھی اظہار میں نہیں آ پاتے، اور گھٹتے گھٹتے بالآخر گالی بن جاتے ہیں۔ مجرمانہ ذہنیت کے حامل لوگوں کی مخرب اخلاق کہلانے والی زبان کا ان کی بے زبانی سے گہرا تعلق ہوتا ہے، بلکہ عام افراد کا بھی شاید یہی معاملہ ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جن افراد کا ذخیرۂ الفاظ محدود ہوتا ہے وہ سب کے سب مجرمانہ رجحانات کی زد پر ہوتے ہیں؟ ہماری رائے میں اس کا انحصار ’’توانائی کی مقدار‘‘ پر ہے، اگر کسی فرد میں توانائی بھی زیادہ ہو، اس کی Socialization بھی کمزور ہو، اور اس حوالے سے اس کا ذخیرۂ الفاظ بھی محدود ہو تو وہ یقینا مجرمانہ رجحانات کی زد پر ہوگا۔ لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ زندگی کی عام سرگرمیاں اس توانائی کو ٹھکانے لگا دیتی ہیں اور اسے تخریبی قوت نہیں بننے دیتیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی شخص کے مجرمانہ رجحانات ٹھوس تخریبی سرگرمی کی صورت میں سامنے بھی آجائیں۔ قانون کا فیصلہ تو صاف ہے، وہ تو ایسے ہی لوگوں کو مجرم سمجھتا ہے جو اپنے احساسات کا کسی نہ کسی صورت میں اظہار کردیں اور پھر یہ رجحانات عدالت میں ثابت ہوجائیں۔ اخلاقیات کا فیصلہ یہی ہے کہ ایسے لوگ بھی مجرم ہی ہیں جو مجرمانہ رجحانات رکھتے ہیں، اس لیے کہ وہ عملی طور پر مجرم ہوں نہ ہوں ایک ممکنہ عملی مجرم ضرور ہوتے ہیں۔

ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ اس مسئلے کا صحافت سے بھی گہرا تعلق ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تعلق کیا ہے؟ ہمارا خیال یہ ہے کہ صحافت کی نام نہاد معروضی یا غیر انسانی زبان نے لوگوں کے ذخیرۂ الفاظ کو محدود کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ ایک عالم گیر مسئلہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا مطالعہ اخبارات و رسائل تک محدود رہ جاتا ہے، اور اگر محدود نہ رہے تو بھی ان کے مطالعے کا بیشتر وقت صحافیانہ یا صحافیانہ نوعیت کی تحریروں (جو ادب کی دنیا میں بھی پائی جاتی ہیں) کی نذر ہوجاتا ہے۔ صحافت کا ذخیرۂ الفاظ محدود ہوتا ہے، گھوم پھر کر وہی الفاظ استعمال ہوتے رہتے ہیں، اور یوں زبان کا ایک مخصوص ڈھانچہ وجود میں آجاتا ہے جو اظہار کے سانچے کے تعین میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں کا حال تو اس سلسلے میں اور بھی برا ہے۔ یہ صورتِ حال اس لیے اور خطرناک ہوگئی ہے کہ ذخیرۂ الفاظ تو صحافت نے محدود کردیا مگر انسانی وجود محدود نہیں ہوا۔ اس کے پاس روح بھی ہے، ذہن بھی، خیالات بھی، احساسات بھی، جبلتں اور ان کے تقاضے بھی۔ مگر ان کے مقابلے پر ماضی کی نسبت اس کا ذخیرۂ الفاظ محدود ہوگیا ہے۔ مگر اس سلسلے میں صرف صحافت کو موردِ الزام ٹھیرانا انتہائی غلط ہے۔ علوم کی بڑھتی ہوئی اور فنون کی گھٹتی ہوئی اہمیت (جو افادیت پرستی کے بڑھتے ہوئے عالمی رجحان کا شاخسانہ ہے) بھی اس کی ذمہ دار ہے۔ ادب اور شاعری جب تک عام لوگوں کی زندگی میں ایک اہمیت رکھتے تھے ان کے ذخیرۂ الفاظ کی صورتِ حال ٹھیک ٹھاک تھی۔ ادب اور شاعری میں ہزاروں ہی برائیاں ہوں گی مگر ایک ایسی خوبی ہے جو ان کی تمام خامیوں پر بھاری ہے، اور وہ یہ کہ وہ اپنے قاری اور سامع کی لغت کو وسیع کردیتے ہیں اور اس کے اظہار کا سانچہ بہت مستحکم ہوجاتا ہے۔ مگر یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے جس میں جذبات و احساسات کی حیثیت ماضی کی بیماریوں کی سی ہوگئی ہے جن سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔

اس سلسلے میں اب آخری سوال یہ رہ گیا ہے کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کا ذخیرۂ الفاظ وسیع ہوتا ہے مگر پھر بھی اُن میں مجرمانہ رجحانات پائے جاتے ہیں؟ ہمیں اس کا اعتراف ہے، مگر یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے جس پر ہم پھر کبھی گفتگو کریں گے۔ آخر میں ہمیں صرف یہ کہنا ہے کہ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ مذہبی اور اخلاقی احساس کی کمزوری اور بہت سے معاشرتی، نفسیاتی اور اقتصادی امور بھی اس سلسلے میں اہم ہوسکتے ہیں، مگر زبان بھی اس سلسلے میں بڑی اہمیت کی حامل ہے، لیکن یہ بات شاید ہی کسی کو معلوم ہوگی۔