دنیا بھر میں بڑے شہر اب دردِ سر بن چکے ہیں۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ اُن سے نجات کیونکر پائی جائے؟ مگر اُس سے بڑی الجھن یہ ہے کہ بڑے شہر ضرورت بھی ہیں، اُن کے بغیر کام بھی نہیں چلتا۔ ہر بڑا شہر معیشت کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ دنیا بھر میں بڑے شہر معاشی سرگرمیوں کا غیر معمولی مرکز ہوتے ہیں۔ ملک بھر کے، اور بعض صورتوں میں تو دنیا بھر کے ہنرمند اور پڑھے لکھے افراد بڑے شہروں کا رُخ کرتے ہیں اور اپنے ہنر کی داد کے ساتھ ساتھ خاطرخواہ صلہ بھی پاتے ہیں۔ بڑے شہر اپنے دامن میں بہت کچھ سمولیتے ہیں۔ بڑے اور پھیلتے ہوئے شہر ہر سال لاکھوں افراد کے لیے بہترین مواقع پیش کرکے اُنہیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یوں اِن شہروں کی آبادی میں ہوش رُبا رفتار سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
بڑے شہر چھوٹے اور کمزور ملکوں کے لیے بہت بڑے سہارے کا درجہ رکھتے ہیں۔ کراچی اور لاہور ہی کو دیکھیے۔ اِن دونوں شہروں نے اپنے ساتھ ساتھ باقی ملک کی معیشت کا بھی اچھا خاصا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ کراچی میں ملک بھر سے لوگ آتے ہیں اور آباد ہوتے جاتے ہیں۔ کراچی کی آبادی پانچ عشروں سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اب یہ رفتار اس لیے زیادہ ہوگئی ہے کہ ملک بھر میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے اور معاشی مواقع اتنے کم رہ گئے ہیں کہ ملک بھرکے پس ماندہ علاقوں کے دیہات اور شہروں سے لوگ کراچی نقلِ مکانی کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کراچی میں اُن کے لیے بہت کچھ ہے۔ شہر کا مزاج بھی ایسا ہے کہ غیر مقامی افراد کو بخوشی قبول کرلیا جاتا ہے۔ یہ مزاج شہر کو زیادہ سے زیادہ پسندیدہ بناتا رہا ہے۔
لاہور پر بھی آس پاس کے شہروں اور قصبوں کے رہنے والوں کا دباؤ برقرار رہتا ہے۔ کراچی اور لاہور میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ لاہور میں لوگ اپ ڈاؤن کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یعنی قرب و جوار کے قصبوں اور دیہات سے لوگ یومیہ بنیاد پر لاہور آتے ہیں اور ڈیوٹی پوری کرکے شام کو اپنے اپنے علاقوں کو واپس چلے جاتے ہیں۔ کراچی میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں لوگ آتے ہیں تو بس ہی جاتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں شہر میں بنیادی سہولتوں کا نظام تلپٹ ہوکر رہ گیا ہے۔ بنیادی ڈھانچے پر مرتب ہونے والا دباؤ اِس قدر ہے کہ اب یہ شہر تمام مکینوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اس کیفیت نے ہر شعبے میں مافیا کو جنم دیا ہے۔ بجلی، پانی، گیس، نقل و حرکت اور دیگر معاملات مافیا کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گئے ہیں۔
بڑے شہروں کی معاشی اہمیت اپنی جگہ، مگر معاشرت پر اُن کے اثرات بہت بھیانک ہوتے ہیں۔ ملک بھر کے کمزور اور پس ماندہ علاقوں کے لوگ جب بڑے شہروں کا رُخ کرتے ہیں تو اپنی الگ آبادیاں بناکر رہتے ہیں۔ اس طرح شہر مختلف نسلوں کے لوگوں اور برادریوں میں منقسم ہوجاتے ہیں۔ یہ سب اپنے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے دن رات سرگرم رہتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں تعصب اور نفرت کا پنپنا بھی فطری امر ہے۔ معاشی مواقع کی ناہموار تقسیم نے بڑے شہروں کو شدید نوعیت کی بے چینی سے ہم کنار کر رکھا ہے۔ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے جرائم کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اُنہیں اور کوئی راستہ سُوجھتا ہی نہیں۔ کراچی ہی کو لیجیے۔ یہ شہر ایک طرف تو آبادی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور دوسری طرف سیاسی اور معاشرتی بے چینی بھی کم نہیں۔ ایسے میں شہر کا ڈھنگ سے سانس لینا بھی ممکن نہیں رہا۔ آج کراچی میں منظم جرائم کے کئی گروہ کام کررہے ہیں۔ پولیس لاکھ کوشش کرے، بگڑے ہوئے تمام ذہنوں کو کنٹرول کرنا اُس کے بس کی بات نہیں۔ عشروں کے نتیجے میں جو جرم پسندی پیدا ہوئی ہے وہ راتوں رات کیسے ختم ہوسکتی ہے؟
لازم ہے کہ شہروں کی منصوبہ سازی میں بنیادی سہولتوں کی معیاری تقسیم ممکن بنانے کا خاص خیال رکھا جائے۔ اِس کی ایک معقول صورت تو یہ ہوسکتی ہے کہ شہروں کو پھیلنے ہی نہ دیا جائے۔ جب شہر بے ہنگم طریقے سے پھیلتے ہیں تو مکینوں کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں۔ کراچی، لاہور، ملتان، فیصل آباد اور راولپنڈی کے بنیادی مسائل سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ اِن تمام شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ نے مکینوں کا جینا محال کردیا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، بنیادی ڈھانچے پر بری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ اس لیے شہروں کو بنیادی سہولتوں کی تقسیم و فراہمی کے حوالے سے متوازن رکھنا دشوار سے دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔
کولمبیا سے تعلق رکھنے والے کارلوس مورینو شہری منصوبہ سازی کے میدان میں غیر معمولی مہارت اور شہرت کے حامل ہیں۔ اُنہوں نے کئی قصبوں اور شہروں کی منصوبہ سازی یعنی ٹاؤن پلاننگ میں حصہ لیا ہے۔ 2020ء کی ایک ٹیڈ ٹاک میں کارلوس مورینو نے ایسے شہر کا تصور پیش کیا جو زیادہ حجم کا نہ ہو اور مکینوں کے لیے زندگی بسر کرنے کو چیلنج میں تبدیل نہ کرے۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک معیاری شہر کو ایسا ہونا چاہیے کہ اُس کے مکینوں کو اسکول، دفتر، فیکٹری، اسپتال، شاپنگ سینٹر، پارک اور دیگر مقامات پر جانے میں زیادہ وقت لگے نہ توانائی، اور خرچ بھی کم رہے۔ کارلوس مورینو کا تصور یہ ہے کہ ایک آئیڈیل شہر کو ایسا ہونا چاہیے جس میں لوگ کہیں بھی جانے میں زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ صرف کرنے پر مجبور ہوں۔ اسکول اتنا قریب ہونا چاہیے کہ بچہ پندرہ منٹ میں وہاں پہنچ جائے۔ اِسی طور دفتر، دکان، فیکٹری یا کام کی کوئی جگہ بھی اتنی دور ہونی چاہیے کہ وہاں تک پہنچنے میں پندرہ منٹ لگیں۔ شاپنگ مال اور مارٹ وغیرہ بھی قریب ہونے چاہئیں تاکہ لوگ اپنی ضرورت کی تمام اشیاء خریدنے کے لیے جانے اور گھر واپس آنے میں زیادہ وقت اور توانائی خرچ کرنے کے پابند نہ ہوں۔ لوگوں کو تفریح بھی درکار ہوتی ہے۔ اگر پارک نزدیک ہو تو ہوا خوری کے لیے وہاں تیزی سے پہنچا جاسکتا ہے۔ اِسی طور کسی رشتے دار یا دوست سے ملنا ہو تو اُس تک پہنچنے میں بھی زیادہ وقت نہیں لگنا چاہیے۔ یہ سب کچھ اس لیے ناگزیر ہے کہ لوگ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ فضول سفر پر ضائع کررہے ہیں۔
اگر کراچی ہی کی بات کریں تو یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ لاکھوں افراد روزانہ کام پر جانے اور گھر واپس آنے میں اوسطاً تین گھنٹے صرف کرنے پر مجبور ہیں۔ اِس یومیہ سفر پر آمدنی کا تقریباً 10 فیصد اور کبھی کبھی تو 20 فیصد تک کھپ جاتا ہے، اور پھر اس سفر کے نتیجے میں توانائی کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ لوگ کام پر پہنچتے پہنچتے تھک جاتے ہیں اور وہاں سے تھکے ہارے جب گھر پہنچتے ہیں تو مزید تھک چکے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ زندگی کو دشوار سے دشوار تر بناتا جارہا ہے۔
دنیا بھر میں ٹاؤن پلانر اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ لوگ زیادہ سے زیادہ آسانی اور سہولت کے ساتھ جئیں۔ یہ تبھی ممکن ہے جب شہر بہت بڑے نہ ہوں یا شہروں کو بڑا ہونے ہی نہ دیا جائے۔ انگلینڈ اور یورپ کے دوسرے بہت سے ممالک میں ٹاؤن پلانر اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ شہر بے ہنگم طور پر نہ پھیلیں۔ وہاں لینڈ مافیا کا تصور ناپید ہے۔ حکومتیں شہروں کو بہتر حالت میں رکھنے پر متوجہ رہتی ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ کسی بھی شہر کی آبادی بے ہنگم طور پر نہ بڑھے اور بنیادی سہولتوں کا نظام متاثر نہ ہو۔ بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ سازی بھی سو سوا سو سال کے لیے کی جاتی ہے۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ دیہی علاقوں میں قصبے بسائے جائیں تاکہ لوگوں کو دیہی ماحول ہی میں شہر کا لطف بھی محسوس ہو اور اُن کے وسائل، توانائی اور وقت فضول سرگرمیوں پر ضائع نہ ہو۔
فی زمانہ کسی بھی قوم کے لیے انسانی وسائل سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ قدرتی یا معدنی وسائل چاہے جتنے بھی ہوں، اگر افرادی قوت معیاری نہیں، انسانی وسائل مطلوبہ سطح کے نہیں تو پھر اقوامِ عالم میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے کچھ خاص نہیں کیا جاسکتا۔ لازم ہے کہ انسانی وسائل کا معیار بلند ہو۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب لوگوں کو ڈھنگ سے جینے اور معیاری انداز سے کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ کئی اقوام نے صدیوں کی محنت کے نتیجے میں ایسا ممکن بنایا ہے۔ امریکہ اور یورپ اِس کی نمایاں ترین مثال ہیں۔ ایشیا میں چین، ملائشیا، انڈونیشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے چند اور ممالک بھی اس حوالے سے مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ پاکستان جیسے پس ماندہ ممالک کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ عام آدمی کو بنیادی سہولتوں کا حصول یقینی بنانے کی تگ و دَو ہی سے فرصت نہیں مل پاتی۔ ایسے میں اعلیٰ درجے کی زندگی بسر کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔ المیہ یہ ہے کہ لوگوں کے لیے روزانہ کام پر جانا اور واپس آنا بڑے دردِ سر کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب اتنی بنیادی سہولت بھی ڈھنگ سے میسر نہ ہوگی تو ترقی کی راہ کیوںکر ہموار ہوسکے گی؟
کراچی جیسے بڑے اور بے ہنگم طور سے پھیلے ہوئے شہروں میں ماس ٹرانزٹ پروگرام بھی آسانی سے تیار نہیں کیا جاسکتا، اور اگر تیار کر بھی لیا جائے تو اُسے ڈھنگ سے رُوبہ عمل لانا آسان نہیں ہوتا۔ اگر شہر کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہو تو ساری منصوبہ سازی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ پس ماندہ ممالک کے بڑے شہروں میں بنیادی سہولتوں کا نظام بالعموم بری حالت میں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کوئی شہر بڑا ہو بھی جائے تو بنیادی سہولتوں کا نظام بگڑنے نہیں دیا جاتا۔ عوام کو تمام بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر ہوتی ہیں اور وہ بھی معقول ادائیگی پر۔ اِس کے نتیجے میں عوام اپنے بیشتر معاملات اور بالخصوص معاشی سرگرمیوں کا معیار بلند رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا کے بڑے شہروں میں ماس ٹرانزٹ سسٹم ایسا معیاری ہوتا ہے کہ لوگ طویل فاصلے بھی خاصے پُرلطف انداز سے طے کرتے ہیں۔
پاکستان جیسے ممالک میں چند بڑے شہروں پر پوری معیشت کا مدار ہوتا ہے۔ کراچی معیشت کا گڑھ ہے۔ یہ مینوفیکچرنگ کے ساتھ ساتھ مالیات کا بھی صدر مقام ہے۔ ایسے میں شہر کی آبادی کا بڑھتے رہنا حیرت انگیز امر نہیں، کیونکہ ملک بھر سے لوگ بہتر معاشی امکانات کے لیے اِس کا رخ کرتے ہیں۔ شہر کی آبادی اب بھی بے ہنگم طور سے بڑھ رہی ہے۔ اس کے تدارک کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ہر صوبے میں کئی ایسے شہر بسائے جانے چاہئیں جن میں بہتر معاشی امکانات موجود ہوں تاکہ لوگ بڑے شہروں کا رُخ کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ چھوٹے شہروں کی بھی دوبارہ ٹاؤن پلاننگ کی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے مہارت کے ساتھ ساتھ غیر معمولی سیاسی عزم بھی درکار ہے۔ یہ تھوڑی ٹیڑھی کھیر ہے۔ ہمارے ہاں شہری علاقوں میں ہر شعبے کی مافیا موجود ہے جو حکومتی مشینری سے مل کر اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرتی رہتی ہے۔ شہروں کو غیر ضروری طور پر پھیلنے سے روکنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس معاملے میں اپنے اپنے مفادات اور تحفظات بالائے طاق رکھتے ہوئے ریاستی مشینری کے استحکام اور قومی مفادات کے حوالے سے زیادہ منظم ہوکر سوچنا چاہیے۔ کراچی کے بے ہنگم پھیلاؤ نے بہت کچھ سکھانے کی کوشش کی ہے۔ ہر سطح کی حکومت کو سبق سیکھنا ہے۔ شہرِ قائد کو حقیقی معنوں میں قابلِ رہائش بنائے رکھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ عوام کو بنیادی سہولتوں کے حوالے سے پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ شہر کی تطہیر ناگزیر ہوچکی ہے۔ کراچی کے متعدد علاقے مافیا کے چنگل میں ہیں۔ زمینوں پر قبضوں نے معاملات کو بہت بگاڑ دیا ہے۔ غیر قانونی تعمیرات کی روک تھام بھی لازم ہے تاکہ شہریوں کو بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر ہوسکیں۔ شہر کی تطہیر سے مراد یہ ہے کہ غیر قانونی بستیوں کو ختم کیا جائے۔ بے گھر ہونے والوں کو شہر ہی میں جہاں تہاں آباد ہونے سے روکنا اور شہر سے کچھ فاصلے پر چھوٹے شہر یا قصبے بسانا لازم ہے۔ غیر قانونی بستیاں جرائم کے گڑھ بن چکی ہیں۔ اِن پر قابو پاکر ہی شہر کو منظم کیا جاسکتا ہے۔