قومی سیاست کا ہیجان

انتخابات کے انعقاد پر ابہام بڑھ رہا ہے

کسی بھی علمی، فکری مجلس میں بیٹھ جائیں…پاکستان کی سیاست، جمہوریت، آئین، قانون، معیشت اور ادارہ جاتی بحران کے تناظر میں لوگوں میں فکرمندی کا احساس آپ کو غالب نظر آئے گا۔ لوگوں میں پریشانی یا غیر یقینی کی جوکیفیت ہے وہ فطری ہے۔ کیونکہ آج جو حالات دیکھنے کو مل رہے ہیں ان میں امید کا پہلو کم اور مایوسی یا غیر یقینی کی کیفیت زیادہ نمایاں ہے۔ یہ سوچ اور فکر کسی مخصوص طبقے تک محدود نہیں بلکہ آپ اوپر سے لے کر نیچے تک کسی بھی سطح کے پڑھے لکھے، کم پڑھے لکھے یا فیصلہ ساز افراد، اداروں، یا فیصلوں کا اختیار نہ رکھنے والوں کی کہانی سنیں تو ایک بنیادی نکتہ جو سب سے زیادہ زور دے کر پیش کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم درست سمت کی طرف نہیں جارہے۔ ان طبقوں کے بقول ہماری منزل درست سمت میں نہیں بلکہ ہم اپنے ہی طرزِعمل، اپنی ہی پالیسیوں یا حکمت عملیوں کی وجہ سے سیاسی تنہائی کا شکار ہورہے ہیں۔

غیر یقینی کی یہ کیفیت محض داخلی سیاست تک محدود نہیں، بلکہ علاقائی سیاست ہو، معیشت ہو یا خارجہ پالیسی سے جڑے معاملات… سب پر ہماری بے بسی نمایاں ہے۔ داخلی محاذ پر سیاست اور معیشت سمیت اداروں کی تباہی کی کہانی ہے تو دوسری طرف علاقائی سیاست میں بھارت ہو یا افغانستان، دونوں محاذوں پر ہمیں عدم استحکام کا سامنا ہے۔ ہم سی پیک منصوبے کو اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کررہے تھے اور یقین تھا کہ اس خطے کی سیاست میں سی پیک ہمارے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ لیکن بھارت کی جانب سے جی 20کانفرنس اور ایک نئے ’’بھارت، یورپ، امریکہ‘‘ کوریڈور نے خطے کی سیاست میں ایک نئی تبدیلی اور بھارت کی معاشی ترقی کے فریم ورک کو ایک نئی جہت دی ہے۔ یہ جو تھیوری تھی کہ ’اگر کابل میں طالبان کی حکومت ہوگی تو اس کا براہِ راست اثر پاکستان کی داخلی سیاست میں استحکام کی صورت میں سامنے آئے گا‘ وہ بھی آج کے دن تک غلط ثابت ہورہی ہے۔ ٹی ٹی پی ہمارے لیے دردِسر بنی ہوئی ہے اور اس نے ہماری قومی سیکورٹی کو چیلنج کیا ہوا ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کو کسی نہ کسی شکل میں افغانستان اور افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے۔ افغان طالبان حکومت کی یہ یقین دہانی کہ اُن کی زمین پاکستان سمیت کسی کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی، غلط ثابت ہورہی ہے، اور افغانستان کو بنیاد بناکر ٹی ٹی پی ہمیں مشکل صورتِ حال میں ڈالے ہوئے ہے۔

داخلی سطح پر عدم استحکام کی سیاست اور بار بار نئی سیاسی مہم جوئی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ یہاں جو بھی فیصلے کرنے والے ہیں اُن کی اوّلین ترجیح سیاسی ومعاشی استحکام نہیں بلکہ اپنی ہی سیاسی بقا کی جنگ ہے۔ وہ یہ جنگ خود کو بالادست سمجھ کر یا سوچ کر جیتنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست سمیت ریاستی اداروں میں شدید ٹکرائو کا ماحول ہے۔ انتخابات کے حوالے سے بھی ابہام ہے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن کے بقول جنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔لیکن اس کے باوجود ابہام کم نہیں ہورہا بلکہ مزید بڑھ رہا ہے۔کیونکہ انتخابات سے پہلے ہمارے طاقتور حلقوں کی روایت رہی ہے کہ وہ پہلے انتخابی ماحول کو اپنے کنٹرول میں کرتے ہیں یا سیاسی ارینجمنٹ کو ترتیب دیا جاتا ہے، اس کے بعد انتحابی میدان اپنی مرضی کے نتائج کے لیے سجایا جاتا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ابھی تک انتخابات کے تناظر میں سیاسی صف بندی نہیں ہوسکی ہے اور خود اسٹیبلشمنٹ کو اس تناظر میں کئی محاذو ں پر مزاحمت یا مشکلات کا سامنا ہے۔

اِس بار تین بڑے سیاسی کردار موجود ہیں (1) مسلم لیگ (ن)، (2) پیپلز پارٹی، اور (3) پی ٹی آئی۔ جبکہ علاقائی سطح پر دیگر جماعتیں جن میں جے یو آئی، اے این پی اور بلوچستان کی جماعتیں شامل ہیں۔ جبکہ اِس بار دو نئی جماعتوں کی تشکیل بھی کی گئی ہے جن میں پنجاب میں جہانگیر ترین کی قیادت میں استحکام پاکستان پارٹی، اور کے پی کے میں پرویز خٹک کی سربراہی میں پی ٹی آئی پارلیمنٹرین پارٹی شامل ہیں۔ ایک اور نئی پارٹی کی خبریں ہیں جس میں شاہد خاقان عباسی، مصطفی نواز کھوکھر، اسلم رئیسانی اور مفتاح اسماعیل شامل ہیں۔ یقیناًان تمام جماعتوں میں حصہ داری کا معاملہ طے ہوجائے تو انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی کردیا جائے گا، وگرنہ دوسری صورت میں کوئی نیا انتظام بھی کیا جاسکتا ہے۔

اصل ڈیل کی خبریں پی ٹی آئی اورمسلم لیگ (ن) کے حوالے سے ہیں۔ ایک بات واضح ہے کہ باہر کی کچھ قوتوں کی جانب سے نہ صرف انتخابات کے لیے دبائو ہے بلکہ تمام فریقوں کو انتخابی عمل کا حصہ بنانے پر بھی دبائو کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں بڑی سیاسی قوتوں کے ساتھ پسِ پردہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کھیل جاری ہے۔ نوازشریف 21اکتوبر کو پاکستان آنے کا اعلان کرچکے ہیں اوران کی آمد کو بنیاد بنا کر سیاسی ماحول کو گرم کیا جارہا ہے۔ نوازشریف نے اپنے کچھ بیانات سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بنانے کی کوشش کی مگر شہبازشریف کی پاکستان آمد اور ایک دن بعد اچانک لند ن روانگی اور وہاں سجائی سیاسی بیٹھک کے بعد نوازشریف کو اپنے بیانیے میں پھر تبدیلی کرنا پڑی ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ نوازشریف کا بیانیہ 9مئی کے واقعات اور اس کے کرداروں کے خلاف ہوگا، اور وہ اپنی تنقید عمران خان یا دیگر سیاسی مخالفین تک محدود رکھیں گے۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا نوازشریف کی آمد پر لال کارپٹ بچھاکر ان کے استقبال کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا ہے اور کیا وہ چوتھی بار ملک کا وزیراعظم بننے کی ڈیل کرچکے ہیں؟ اس پر فوری طور پر کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی۔ خیال یہ ہے کہ نوازشریف اور اُن کی وزارتِ عظمیٰ پر کوئی اتفاق ہوا ہے اور نہ ہی ابھی تک نوازشریف کی واپسی حتمی ہے۔کیونکہ اُن کو پاکستان آنے سے قبل کچھ ضمانتیں درکار ہیں، اگر وہ مل جاتی ہیں تو کھیل اُن کے حق میں ہوسکتا ہے۔ شہبازشریف بھی اس کھیل میں کمالِ ہوشیاری سے اپنا راستہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں، اُن کی کوشش ہے کہ نوازشریف ہی ان کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیں تاکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے حق میں راستہ ہموار کرسکیں۔ کیونکہ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ نوازشریف کی اسٹیبلشمنٹ میں قبولیت بطور وزیراعظم اتنی آسان نہیں جتنا کہ میڈیا کے حلقوں میں سمجھا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر نوازشریف اقتدار کے لیے قابلِ قبول نہیں تو وہ کیوں پاکستان آنے کا خطرہ مول لیں گے؟ نوازشریف اور شہبازشریف پنجاب میں دوبارہ اپنا اقتدار دیکھنا چاہتے ہیں لیکن پنجاب کا انتخابی منظرنامہ بہت حد تک تبدیل ہوا ہے اور ان کو اس حوالے سے خاصی مزاحمت کا سامنا ہے۔ حالیہ گیلپ سروے میں بھی نوازشریف کو اپنے سیاسی حریف عمران خان کے مقابلے میں عدم مقبولیت کا سامنا ہے۔ عمران خان قومی سیاست میں بدستور سب سے مقبول راہنما ہیں۔ یہ سمجھنا کہ اس کھیل میں نوازشریف یا شریف خاندان کو مرکز اور پنجاب میں مکمل اقتدار مل جائے گا، درست نظر نہیں آتا۔ یہ بات بھی اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں زیر بحث ہے کہ اگر نوازشریف کو واپسی کا راستہ دیا جاتا ہے تو ان پر عمران خان کی سیاسی واپسی کے لیے بھی دبائو بڑھ جائے گا، اور اگر عمران خان کو نوازشریف کی واپسی کے باوجود جیل میں رکھا جاتا ہے تو اس کی داخلی اورخارجی قبولیت نہیں ہوگی اوران کو بھی واپسی کا راستہ دینا ہوگا۔ نوازشریف پہلے ہی اپنے سخت گیر بیانیے سے توبہ کرچکے ہیں اور انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو یقین دلایا ہے کہ وہ اب ایک فرماں بردار بچے کی طرح اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیں گے۔ اسحاق ڈار کے بقول نوازشریف نے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سمیت سیاسی محاذ پر اپنے مخالفین کا مقدمہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے اوراب وہ اقتدار کا حصہ بن کر ملکی ترقی میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس سے قبل ملک کی ترقی کا ایجنڈا نہیں رکھتے تھے؟ اور اب جو نئی چیز اُن کے پاس ہے وہ کیا ہے؟ اور وہ کیسے ملک کے حالات میں بہتری پیدا کرسکتے ہیں؟ اس کا کوئی واضح جواب ان کے پاس نہیں ہے۔

ایک حکمتِ عملی یہ بھی زیر غور ہے کہ عمران خان اورنوازشریف دونوں کو راستہ نہ دیا جائے، اور دونوں کو ہی انفرادی سطح پر انتخابات کا حصہ نہ بننے دیا جائے، کیونکہ ایک کو راستہ دینے کا مطلب دوسرے کو بھی راستہ دینا ہے۔پی ٹی آئی سے پسِ پردہ جو بات چیت چل رہی ہے اس میں اِس پر توبہت حد تک اتفاق ہوگیا ہے کہ پی ٹی آئی کو بھی انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی اور وہ اپنے انتخابی نشان بلے پر حصہ لے گی، البتہ عمران خان کی انتخابات میں شمولیت یا اُن کی انتخابی مہم میں شرکت پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ تجویز بھی گردش کررہی ہے کہ عمران خان کی مقبولیت کی بنیاد پر اُن کو پنجاب اور کے پی کے میں اقتدار میں آنے دیا جائے اورمرکز میں پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کی مخلوط اورکمزور سی حکومت بن جائے۔ اس کھیل میں سندھ کا اقتدار پیپلزپارٹی کے پاس ہی رہے گا۔اس کھیل کی بنیاد پر عمران خان اورنوازشریف دونوں وزارتِ عظمیٰ سے محروم رہیں گے۔ مسلم لیگ (ن) میں پھر نوازشریف کے بجائے شہبازشریف ہی امیدوار ہوں گے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے حلقوں میں بھی خاموشی ہے اور وہ موجودہ صورتِ حال سے مطمئن نہیں، ان کو بھی بتادیا گیا ہے کہ ان کا کھیل فی الحال سندھ تک ہی محدود ہے۔جو تنقید بلاول بھٹو نے شروع کی تھی اس میں بھی عملًا پسپائی دکھائی دے رہی ہے، اوراس کی وجہ آصف علی زرداری ہیں جو کسی بھی صورت میں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کی سیاست کے حامی نہیں، وہ مفاہمت ہی کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

یہ سارا کھیل جس کا منظرنامہ میں نے پیش کیا ہے، پسِ پردہ قوتوں کی مدد سے ہی ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ سب کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ یا سب جماعتوں کی بنیاد پر حکومت سازی کے کھیل کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے جس میں امریکہ اور برطانیہ شامل ہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ آرمی چیف کا دورۂ امریکہ بھی ممکن ہے، اور وہاں بھی بہت کچھ طے ہوگا۔ اس وقت اکتوبر میں آئی ایم ایف کے ساتھ بھی ہمیں بیٹھنا ہے، اور ہمیں اُسے جنوری کی تاریخ کا اعلان کرکے مطمئن کرنا ہے کہ ہم انتخابات میں سنجیدہ ہیں۔ ایشیائی ڈویلپمنٹ بینک بھی کہہ چکا ہے کہ انتخابات کی بنیاد پر ہی پاکستان میں سیاسی اورمعاشی استحکام ہوسکتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری سیاسی جماعتیں اوربالخصو ص تینوں بڑی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر سہولت کاری کے اس کھیل کا حصہ بننے کے لیے تیار ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر قومی سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں، اور سب پرانی تنخواہ پر ہی کام کو جاری رکھیں گے۔یہ جو تاثر دیا جارہا ہے کہ سب سیاسی فریق کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کرنا چاہتے ہیں، اورسب کچھ اُسی وقت حتمی صورت میں سامنے آئے گا جب کھیل کا ایک بڑا حصہ ہمیں قومی سیاست اور انتخابات کی صورت میں دیکھنے کو ملے گا۔ لیکن لگتا ہے کہ اِس وقت بھی سیاسی مفاہمت کے عمل میں پس پردہ قوتوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کو بھی یہ کہنا پڑا ہے کہ جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات ممکن نہیں، اور یہ موسم انتخابات کا نہیں۔ بلکہ انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر کہا ہے کہ پہلے معیشت کو درست کریں اورپھر انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم معاملات کو سنبھالنے میں عملاً ناکامی سے دوچار ہیں، اوراگر معاملات نہیں سلجھتے اور حالات میں بدستور خرابیاں رہتی ہیں یا مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو اس کی بھاری قیمت سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی صورت میں چکانی پڑے گی۔