جاپان کے محققین نے پانی کے حامل بادلوں میں مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی اور موسمیاتی تبدیلی پر ان کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹوکیو میں واسیڈا یونیورسٹی کے پروفیسر ہیروشی اوکوچی کی سربراہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں پتا چلا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک کی بڑی مقدار انسانوں اور جانوروں میں سانس کے ذریعے داخل ہوتی ہے اور پھیپھڑوں، دل، خون، آنول اور آنتوں میں جمع ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دس ملین ٹن پلاسٹک کے ذرات سمندر کے پانیوں میں جا ملتے ہیں جس کے بعد یہ بخارات میں تبدیل ہوکر فضا میں شامل ہوتے ہیں۔
جاپانی محققین نے بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مائیکرو پلاسٹک بادلوں کا ایک لازمی جزو بن چکے ہیں جو بارش میں مل کر ہمارے کھانے پینے کی تقریباً ہر شے کو پلاسٹک سے آلودہ کررہے ہیں۔ اگرچہ مائیکرو پلاسٹک پر زیادہ تر مطالعات آبی ماحولیاتی نظام پر مرکوز ہیں لیکن کچھ لوگوں نے بادل کی تشکیل اور موسمیاتی تبدیلی پر ان کے اثرات کو ہوا میں موجود ذرات سے بھی منسلک کیا ہے۔
جاپانی محققین نے فضا میں مائیکرو پلاسٹکس (AMPs) کا پتا لگایا ہے جس سے انسانی صحت اور آب و ہوا پر منفی اثر پڑتا ہے۔ ان کا مطالعہ حال ہی میں انوائرنمنٹل کیمسٹری لیٹرز نامی جریدے میں شائع ہوا ہے۔ مطالعے میں بتایا گیا کہ اگر پلاسٹک کی فضائی آلودگی کے مسئلے کو فعال طور پر حل نہ کیا گیا تو موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی خطرات ایک حقیقت بن جائیں گے جو مستقبل میں ناقابلِ تلافی اور سنگین ماحولیاتی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔