پاکستان کے اربابِ اقتدار و اختیار کی بے حسی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ عوام گرانی کے سبب بلبلا رہے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ حکومت کے اپنے وفاقی ادارۂ شماریات کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قیمتوں کا اشاریہ گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 31.44 فیصد بڑھ چکا ہے، وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے سود پر مبنی بینکاری اور معاشی نظام کے مکمل خاتمے کے حکم کے برعکس مہنگائی پر قابو پانے کو جواز بناکر 22 فیصد کی انتہائی بلند شرح سود مقرر کیے جانے کے باوجود افراطِ زر کی شرح 21 فیصد ہے، کرنسی کی قدر میں تیز رفتار کمی، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری پر کوئی قدغن نہ ہونے کے باعث مئی میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ نگران وزیر خزانہ محترمہ ڈاکٹر شمشاد اختر مجلس شوریٰ کے ایوانِ بالا کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے سامنے اعتراف کرچکی ہیں کہ گزشتہ مالی سال کے دوران ساڑھے نو کروڑ پاکستانی یعنی ملکی آبادی کا تقریباً چالیس فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے تھے، جب کہ بے روز گاری کی شرح 6.3 فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد تک پہنچ گئی ہے، ان حالات میں گزشتہ دو برسوں میں عام آدمی کی قوتِ خرید بڑے پیمانے پر کم ہوچکی ہے… پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں، بجلی کے نرخوں اور اس پر مستزادطرح طرح کے ٹیکسوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں جس پر شدید عوامی رد عمل گزشتہ ماہ دیکھنے میں آیا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی اپیل پر ملک بھر کے عوام اور تاجروں نے 2 ستمبر کو ہمہ گیر ہڑتال کرکے اپنے جذبات حکمرانوں تک پہنچائے، جس کے بعد وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان نے چند یوم میں لوگوں کو سہولت فراہم کرنے کے اعلانات بھی کیے، اس مقصد کے لیے عالمی ساہو کار آئی ایم ایف کے کارپردازوں سے گزارشات بھی کی گئیں، مگر اُن کی طرف سے اجازت نہ ملنے پر ایک پیسے کی بھی رعایت ایک بھی دن کے لیے پاکستانی عوام کو نہ مل سکی، بلکہ ڈھٹائی کی انتہا یہ ہے کہ حکومت نے ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی 3.28 روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کا فیصلہ سنا دیا ہے جس کا نوٹیفکیشن بھی فوری طور پر جاری کر دیا گیا ہے، یہ اضافہ اکتوبر سے مارچ تک کے بلوں کے ساتھ وصول کیا جائے گا اور اس طرح صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ لاد دیا گیا ہے یہ دیکھے اور سوچے سمجھے بغیر کہ لوگوں میں اس قدر بوجھ برداشت کرنے کی سکت ہے بھی یا نہیں… اسی طرح کے الیکٹرک کے صارفین کے لیے بھی 27 ستمبر کو 4.78 روپے سے 7.73 روپے تک فی یونٹ اضافہ کیا جا چکا ہے، جس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وطنِ عزیز کس حد تک عالمی ساہوکاروں کے شکنجے میں جکڑا جا چکا ہے اور اُن کے حکم پر ہمارے حکمران کس طرح اپنے اہلِ وطن کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کے در پے ہیں۔
عوام کو تحفظ فراہم کرنا کسی بھی حکومت کے بنیادی فرائض میں شامل ہے مگر اسے اربابِ اقتدار کی نااہلی کے سوا اور کیا نام دیا جائے کہ مملکتِ خداداد میں دہشت گردی عروج پر ہے، شہریوں کی جانیں محفوظ ہیں نہ مال، کچے کے علاقے میں مہینوں کی کارروائیوں کے باوجود امن و امان کے قیام کے ذمہ دار ادارے حکومتی رٹ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کے علاوہ بھی شہر شہر اور گائوں گائوں ڈاکو راج ہے، وہ جب، جہاں اور جس کو چاہیں دن دہاڑے لوٹ لیتے ہیں، کوئی مزاحمت کر بیٹھے تو اس کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ اربوں روپے ’سیف سٹی‘ منصوبوں پر خرچ کیے جانے اور سرِ عام ڈکیتی کی وارداتوں کی تصاویر ذرائع ابلاغ پر بار بار دکھائے جانے کے باوجود ڈاکوئوں کی گرفتاری عمل میں آتی ہے نہ عوام کو اُن سے نجات کی کوئی صورت دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح حکومت امن و امان کے قیام اور عوام کو جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ فراہم کرنے میں بھی مکمل طور پر ناکام ہے۔ لوگ سراپا احتجاج ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، وہ عوام کے مسائل سے آنکھیں بند کیے اقتدار کے مزے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ انہیں سرکاری خرچ پر بے مقصد بیرونی دوروں سے فرصت نہیں۔ انہیں عام انتخابات کو غیر جانب دارانہ اور منصفانہ بنانے کے لیے 90 دن کی آئینی مدت کے لیے اقتدار سونپا گیا ہے، مگر وہ اس طرح عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں اور اعلانات کررہے ہیں گویا تاحیات بادشاہت انہیں بخش دی گئی ہو۔
پاکستان کے مسائل گمبھیر ضرور ہیں مگر لاینحل نہیں، مرض کا مداوا ممکن ہے تاہم اس کے لیے سنجیدہ اور پُرخلوص کوششیں شرطِ اوّل ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارا حکمران طبقہ اس جانب توجہ دینے پر تیار نہیں۔ اب تو آئی ایم ایف کے حکام بھی ایک سے زائد بار یہ بات دہرا چکے ہیں کہ ہم پاکستانی حکمرانوں کو اشرافیہ کی مراعات ختم کرنے، اہلِ ثروت پر ٹیکس بڑھانے اور غربت کے مارے کم آمدنی والے لوگوں کو رعایات دینے کے لیے کہتے ہیں مگر وہ اس کے برعکس عمل کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی صوبائی دارالحکومتوں اور اہم شہروں میں دھرنوں کے دوران حکمرانوں کو بار بار اس جانب متوجہ کررہے ہیں کہ قبل اس کے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے اور وہ ’تنگ آمد بجنگ آمد‘ پر مجبور ہو جائیں، اربابِ اقتدار ان کے مصائب کم کرنے اور مسائل کے حل پر توجہ دیں۔ مگر حکمران شاید اُس دن کے منتظر ہیں جب اہلِ پاکستان مصورِ پاکستان، شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ کی اس نصیحت پر عمل پیرا ہونے کے لیے سر پر کفن باندھ کر میدان میں نکل آئیں گے ؎
اٹھو، مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ کسریٰ کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
(حامد ریاض ڈوگر)