حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
”حیاء ایمان کا ایک ٹکڑا ہے اور ایمان کا انجام جنت ہے اوربے حیائی ظلم ہے اور ظلم کا انجام دوزخ ہے“۔
(جامع ترمذی ،جلد اول باب البرو الصلہ)
اہلِ اسلام کے اخلاقی نظام کی بنیاد حیا پر ہے ۔یعنی ایک فرد وہ مرد ہو یا عورت، وہ تمام ایسے مواقع سے اپنے آپ کو بچا کر رکھے، جن میں بے حیائی کا امکان پایا جاتا ہو ۔ اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فقط نظر ی (تھیوریٹی کل)بات نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے ہر اخلاقی حکم کے ساتھ اس کی عملی شکل اور ماپنے کا پیمانہ بھی فراہم کرتا ہے، تاکہ فلسفے کی جگہ عملیت غالب آجائے۔
حیا کے ماپنے کا پہلا پیمانہ اور معیار ایک فرد کا اپنی بینائی یا بصارت کا استعمال بھی ہے۔ ایک آنکھ قدرت کے وہ بے شمار مناظر (مثلاً دریا کا پُرسکون کنارہ ، کسی آبشارکے بلندی سے گرنے کا منظر ، کسی ندی کے پانی کے پتھروں سے ٹکرا کر فضا میں ارتعاش بکھیرنےکی آواز ، پرندوں کی چہچہاہٹ ، طلوعِ آفتاب اور غروب آفتاب کے مسحور کن مناظر) دیکھتی ہے، تو انسان کے ذہن میں مسرت، لذت اور سکون کے جو احساسات جنم لیتے ہیں اور لطف ملتا ہے، وہ شاید بہت سے مادی لذت کے مواقع سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ا س کے مقابلے میں اگر وہی آنکھ ٹی وی کی سکرین پر ایک نیم عریاں حوا کی بیٹی کو بچوں کے لیے چاکلیٹ، بسکٹ کی پیش کش کرتی نظر آتی ہےتو وہ چاکلیٹ سے زیادہ اپنے جسم کوایک پُرکشش اور گناہ کی طرف راغب کرنے والی شے بنا کر پیش کرتی ہے، جو نہ صرف اسلام بلکہ کسی بھی مہذب اخلاقی ضابطے سے میل نہیں کھاتی۔
’ حیا‘ کے احیا کا مطلب یہ ہے کہ ہماری درسی کتب ہوں یا کلاس روم میں معلم اور معلمہ کا تدریسی کام، یا گھر میں ماں باپ اور بچوں کا لباس ہو ، حیا پیش نظررہنا چاہیے۔ ایک کم اثاثے والے فرد کا کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں بھی اس کی تلقین ہے:
لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ۰ۡيَحْسَبُھُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ۰ۚ تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ۰ۚ لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا۰ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۲۷۳ۧ (البقرہ۲:۲۷۳)خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھِر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسبِ معاش کے لیے زمین میں کوئی دَوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ان کی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم اُن کے چہروں سے اُن کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو۔ مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑکر کچھ مانگیں۔ اُن کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کروگےوہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہےگا۔
گویا حیا محض جسم کے بعض اعضا کا چھپانا ہی نہیں بلکہ یہ ایک طرزِ عمل ہے۔ اظہار زینت اور جسمانی خوب صورتی کو چھپانے کی شکل میں حیا کے حکم پر عمل کرنے کو ایک عقل کا اندھا بھی محسوس کرسکتا ہے۔ انسان کا عمل ہی اجر کا پیمانہ ہے۔جب تک حیا کا احیا گھر ، مدرسے، تعلیم گاہ، معاشرے کے کاروبار اور ریاستی ایوانوں میں نہیں ہو گا،ہوس کی خوف ناکی اور ابلیسیت کی جارحیت میں کمی نہیں ہو سکتی ۔اس کے لیے اگر ریاست نااہل ہو تو پھر معاشرہ خود بہت سے اقدامات کر سکتا ہے ۔
جب کسی معاشرے میں برائی ، فحاشی ، عریانیت ، جنسیت پرستی اور خصوصاً خواتین کے جسم کو معاشی مفاد کے لیے استعمال کرنے کا عمل ( Sex-Exploitation) معمول بن جائے، تو پھر معاشرے کا اجتماعی ضمیر بھی غفلت کا شکا ر ہو جاتا ہے ۔ لیکن اگر اسے بروقت جھنجھوڑ کر جگا دیا جائے تو پھر وہ فحاشی اور عریانیت کے خلاف نہ صرف کمر بستہ ہوتا ہے بلکہ وہ اسے جڑ سے اُکھاڑ کر چھوڑتا ہے۔ اب یہ کام معاشرے کے افراد کا ہے ۔ اساتذہ ، تاجر، وکیل ، طبیب،انجینیر اور وہ لوگ جو معاشرے میں ایک قابلِ لحاظ مقام رکھتے ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھ کر برائی کے خاتمے کے لیے، اپنے سیاسی اور مسلکی اختلاف سے بلند ہو کر اپنی اولاد اور بیٹیوں کی عزت کے تحفظ کے لیے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر فحاشی ، عریانی کے خلاف ایک زنجیر بن جائیں اور پوری قوت سے برائی کو پسپا کر دیں ۔اس میں ابلاغ عامہ کے شعبوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ باشعور شہری اجتماعی طور پر فحاشی و عریانی کے خلاف اپنے عزم کے اظہار کے لیے ملک گیر پیمانے پر صرف تین دن کے لیے اپنے گھروں اور دفاتر میں جہاں کہیں بھی ہوں، ٹی وی اور انٹر نیٹ کے پروگراموں کو مکمل طور پر دیکھنا بند کر دیں تو تین دنوں ہی میں ابلاغ عامہ کے سوداگروں کو معلوم ہو جائے گا کہ عوام کیا چاہتے ہیں ۔ یہ کوئی نظری بات نہیں، یہ ایک قابلِ عمل چیز ہے ۔لیکن اس طرح کی ’پُرامن مزاحمت‘ صرف اس وقت ممکن ہے، جب ملک کے نوجوان کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اپنے تعمیری اثرات کا جو دعویٰ پیش کرتے ہیں، اس کا عملی ثبوت دیں۔ وہ میدان میں نکل کر، گلی گلی یہ پیغام دیں اور مساجد سے اعلان کروا کر یہ پیغام ہر فرد تک پہنچا دیں، خواہ شہروں میں رہتا ہو یا دیہات میں، اور نیکی کے سفیر بن کر بغیر کسی توڑ پھوڑ یا مطالبات کی سیاست کے، خود لوگوں تک پہنچ کر ان سے بھلائی ، نرمی ، محبت سے بات کریں، اور انھیں سمجھائیں کہ ہم ایسا کیوںکر رہے ہیں ؟
اس مہم میں اس بات کی شدت سے ضرورت ہے کہ قومی سطح پر ملک کے تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں طلبہ و طالبات ایک دن فحاشی، عریانی اور جنسیت کے خلاف یومِ احتجاج منائیں۔ طلبہ و طالبات خود الگ الگ مختلف سرگرمیاں ترتیب دیں۔ یہ خطبات بھی ہو سکتے ہیں ، تقریری مقابلے اور پوسٹرز کے مقابلے بھی۔ غرض وہ تمام ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں، جن کے ذریعے ملک ِ عزیز میں اس احتجاج کا وزن محسوس ہو۔
نوجوان نسل نفسیاتی طور پر اس احساسِ کمتری میں مبتلا کر دی گئی ہے جس کا مظہر مغربی جنسیت زدہ طرزِ تہذیب ہے۔ اس میں لباس اتنا چست ہوتا ہے کہ اٹھنے بیٹھنے میں بھی دِقت کا باعث بنتا ہے ۔ قمیص کا چاک بڑھتے بڑھتے کمر تک پہنچنے کے بعد غائب ہوتا نظر آتا ہے یا قمیص بنیان کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ یہ سب تقلید اس وقت کی جاتی ہے جب کوئی مغربی رقاصہ یا مغرب کا کوئی پیشہ ور میراثی اور گویّا سٹیج پر اپنے مخصوص لباس میں نظر آتا ہے ۔یہ نفسیاتی اور ذہنی غلامی ہے، جسے دُور کرنے کے لیے یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کے مابین سنجیدہ مکالمے کرنے کی ضرورت ہے۔ مکالموں کے ساتھ مضامین بھی لکھے جائیں، تاکہ آیندہ نسل کو یہ احساس ہو کہ وہ کس طرح غیر شعوری طور پر بھونڈی نقالی میں مبتلا ہو کر اپنی اقدار کو ترک کررہی ہے اور جنسیت کا شکار ہو رہی ہے۔