پاکستانی فٹ با لر ٹیلنٹ کے باوجود دنیا سے پیچھے کیوں؟

اس وقت ایک اندازے کے مطابق تیس لاکھ لوگ فٹ بال کھیلتے ہیں

پاکستان میں کرکٹ کے بعد جو کھیل سب سے زیادہ دیکھا اور پسند کیا جاتا ہے وہ فٹ بال کا کھیل ہے۔ پاکستان کی شہری اور دیہی سطح پر ہر جگہ آپ کو فٹ بال کھیلتے ہوئے نوجوان نظر آئیں گے۔ یہ کھیل محض لڑکوں تک محدود نہیں بلکہ لڑکیوں میں بھی یہ کھیل کھیلا اور پسند کیا جاتا ہے، اور اس کے شائقین بھی بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ایسا نہیں کہ فٹ بال کے کھیل میں ہمارے پاس کوئی ٹیلنٹ نہیں، یا یہاں نوجوانوں میں اس کھیل کا کوئی شوق نہیں۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق تیس لاکھ لوگ فٹ بال کھیلتے ہیں، اور اتنی ہی بڑی تعداد میں لوگ جرمنی میں بھی فٹ بال کھیلتے ہیں جو کہ فٹ بال کا چار بار عالمی چیمپئن رہا ہے، لیکن پاکستان آج تک فٹ بال عالمی ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہیں کرسکا۔ پاکستان میں فٹ بال کے معاملات ہمیشہ سے سیاست کی نذر رہے ہیں، یا یہ کھیل ہماری قومی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں بن سکا۔ فٹ بال سے جڑی مینجمنٹ، فیڈریشن اور کھیل کی وزارت سبھی اس کھیل میں پیچھے رہ جانے کے ذمہ دار ہیں۔

مارچ 2021ء میں اشفاق حسین گروپ کی وجہ سے فیفا نے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی رکنیت معطل کردی تھی اور معاملات ٹھیک نہ ہونے پر پاکستان کی فٹ بال ٹیم پر پابندی لگادی تھی۔ اس پابندی کی وجہ سے نہ صرف ہماری بدنامی ہوئی بلکہ پاکستان کو فٹ بال کی سطح پر بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان نے اُس وقت تک عالمی سطح کا کوئی میچ نہیں کھیلا جب تک کہ معاملات درست نہیں ہوگئے۔ 30 جون 2022ء کو فیفا کی جانب سے پابندی ختم کی گئی اور پاکستان کو فیفا کی طرف سے نوٹس دیا گیا کہ اگر دوبارہ فیفا نارملائزیشن کمیٹی کے معاملات میںکسی بھی تیسری پارٹی نے دخل اندازی کرنے کی کوشش کی تو فیفا دوبارہ پاکستان کی فٹ بال ٹیم پر پابندی لگا سکتا ہے، جس کے بعد فیفا نارملائزیشن کمیٹی کے سربراہ نے ہارون ملک کو ایک بار پھر موقع دیا، جس کے بعد حالات یہ ہیں کہ پاکستان کی قومی فٹ بال ٹیم نے ساڑھے تین سال بعد کوئی عالمی میچ کھیلا اورویمن فٹ بال ٹیم آٹھ برس کے بعد میدان میں نظر آئی۔

ویسے تو پاکستان میں فٹ بال کا کوئی ڈومیسٹک اسٹرکچر نہیں ہے، لیکن گزشتہ سال پاکستان کی ویمنز ٹیم نے کم سے کم دس عالمی میچ کھیلے ہیں جن میں ان کی کارکردگی متاثر کن نہیں تھی۔ لیکن ان میں سے ایک چار ملکی ٹورنامنٹ بھی تھا جس کا میزبان سعودی عرب تھا، اس میں پاکستان کی دوسری پوزیشن تھی۔ اس میں ایک میچ پاکستان اور سعودی عرب کا بھی تھا جس میں پاکستان کی ماریہ خان نے فری کک پر شاندار گول کرکے میچ ایک ایک سے برابر کردیا۔ ابھی آخری ہفتے میں پاکستان فٹ بال ٹیم کی کپتان ماریہ خان کا سعودی کلب ایسٹرز فلیمنز کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے، وہ پاکستان کی واحد کھلاڑی ہیں جو سعودی لیگ کے لیے کھیلیں گی۔ پاکستان ویمنز فٹ بال ٹیم کے لیے ایک اور اعزاز کی بات ہے کہ اسی برس ستمبر میں سعودی عرب نے پاکستان کو چھ ملکی ٹورنامنٹ میں کھیلنے کی دعوت دی ہے۔ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ پاکستان چھ ملکی ٹورنامنٹ کے لیے سعودی عرب جائے گا۔ اس ٹورنامنٹ میں میزبان سعودی عرب، لائوس، ملائشیا، بھوٹان ، لبنان اور پاکستان شامل ہیں۔ یہ ایونٹ 18 سے 30ستمبر تک کھیلا جائے گا۔

اس کے علاوہ اگر مردوں کی فٹ بال ٹیم کی بات کی جائے تو اسی برس پاکستان نے 17 اکتوبر کو کمبوڈیا کے خلاف فیفا کوالیفائی کے لیے کھیلنا ہے۔ یہ ورلڈ کپ 2026ء میں امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو میں ہوگا۔ پاکستان نے آج تک اپنا پہلا کوالیفائی میچ نہیں جیتا، اگر پاکستان یہ میچ جیت لے تو پہلی بار ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ رائونڈ میں جاسکتا ہے۔ اس بار پاکستان کے پاس کمبوڈیا کو شکست دینے کا اچھا موقع ہے، کیونکہ یہ میچ پاکستان ہی میں ہونے کا امکان ہے۔ اگرچہ پاکستان میں فٹ بال کا کوئی ایسا اسٹیڈیم نہیں جو عالمی معیارپر پورا اترسکے، لیکن پاکستان فٹ بال فیڈریشن نے اسلام آباد کے جناح اسٹیڈیم کو اس قابل سمجھا ہے کہ وہ شاید فیفا کے معیار پر پورا اترسکے۔ ذرائع کے مطابق اسٹیڈیم کی مرمت کا آغاز کردیا گیا ہے اورنئی کرسیاں بھی لگادی گئی ہیں۔ اگر اس میچ کی میزبانی پاکستان کرتا ہے تو یہ 2011ء کے بعد فیفا کا پہلا میچ ہوگا جس کا میزبان پاکستان ہوگا۔

اسی طرح پاکستان کو ملک سے باہر اے ایف سی انڈر23کپ میں 43 ٹیمز کوالیفائنگ رائونڈ میچز بھی کھیلنے ہیں جس کی میزبانی بحرین کرے گا۔ پاکستان کے گروپ میں بحرین، جاپان اور فلسطین شامل ہیں۔ اے ایف سی انڈر 23 کپ سے 43 ٹیمیں کوالیفائنگ رائونڈ سے گزریں گی جن میں سے 16ٹیمیں فائنل کے لیے کوالیفائی کرسکتی ہیں۔ اس کے بعد 2024ء میں قطرمیں 16ٹیمیں اپریل اورمئی میں اے ایف سی کپ کے لیے جنگ کریں گی۔ ابھی ناروے کپ کے فائنل میں قومی اسٹریٹ چائلڈ ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جس نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سولہ ایف کے خلاف مقررہ وقت میں مقابلہ ایک ایک گول سے برابر کیا، مگر پنالٹی شوٹ میں اسے نو کے مقابلے میں دس گول سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے 2018ء میں روس میں اور گزشتہ برس قطر میں ہونے والے اسٹریٹ چائلڈ کپ میں پاکستان کی ٹیم رنرز اپ رہی تھی جو اس بات کی تصدیق ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ کمی ہے توایک شفاف نظام کی، جس میں کوئی سیاسی دخل اندازی نہ ہو اور پاکستان فٹ بال فیڈریشن کو کام کرنے کی آزادی ہو۔ پاکستان میں اگر پی ایس ایل کی طرز پر فٹ بال لیگ بنادی جائے تو پاکستان کی فٹ بال بہتر ہوسکتی ہے۔ فیفا ہر برس ترقی پذیر ممالک کو گرانٹ بھی دیتا ہے، اگر اس فنڈ میں کسی بھی قسم کی کرپشن نہ کی جائے اور اس کو درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو پاکستان کی فٹ بال میں ترقی کے بہت امکانات ہیں۔ پاکستان سے ہر برس کئی لڑکے باہر کے کلبوں میں منتخب ہوتے ہیں۔ گزشتہ ماہ لاہور کا ایک فٹ بالر انگلش پریمیر لیگ کے لیے لیور پول کلب کی اکیڈمی کی ٹریننگ کے لیے منتخب ہوا ہے جس کا نام امن شاہ ہے۔ ایسے اور بھی بہت سے کھلاڑی ہیں جو ملک سے باہر کے کلبوں سے منسلک ہیں مثلاً ناروے اور ڈنمارک میں پاکستانی نجات حسین بشیر، یوسف بٹ، عادل نبی اور اعتزاز حسین۔ پاکستان میں ابھی کسی قسم کی کوئی لیگ اور کسی قسم کا ڈومیسٹک انفرااسٹرکچر موجود نہیں۔ اگر پاکستان فٹ بال میں ترقی کرنا چاہتا ہے تو اسے ایک بڑی فٹ بال لیگ اور عالمی معیار کے اسٹیڈیم کی ضرورت ہے۔