اقبال کا جہانِ نو

اقبال مجموعی طور پر ایک مینارۂ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے اکتسابِ فیض حاصل کرنے اور متاثر ہونے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ اقبال نے اپنی فکر و نظر سے برصغیر میں پورے ایک عہد کو متاثر کیا۔ چنانچہ انہیں بجاطور پر بیسویں صدی کا مجدد اور عہد آفریں شاعر تسلیم کیا گیا ہے۔ آپ نے گلشنِ شعر و ادب کی روش روش پر ایسے گل بوٹے کھلائے ہیں کہ جن کی بھینی بھینی خوشبو حضرتِ انسان کے قلوب و ذہن کو فرحت بخشتی رہے گی۔

’’اقبال کا جہانِ نو‘‘ تین حصوں پر مشتل ہے: (1) اقبال ایک آفاقی مفکر، (2) ہمارے آج کے مسائل اور ان کا حل، (2)اقبال اور اسلامی فکر کی تشکیلِ نو۔ یہ تینوں موضوعات صرف فکرِ اقبال کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ عالمی منظرنامے کے حوالے سے بھی نہایت اہم ہیں اور گہرے غور و خوض کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس کتاب کا پہلا حصہ دراصل پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا وہ لیکچر ہے جو انہوں نے پاکستانی وزارتِ خارجہ کے زیر تربیت افسران کو فارن سروسز اکیڈمی اسلام آباد میں خارجہ پالیسی کی تشکیل میں حضرت علامہ اقبال کے افکار سے راہ نمائی کے حوالے سے دیا تھا۔ یہ لیکچر حیران کن حد تک فکرِ اقبال کا ایک مکمل تعارف تھا جس سے خارجہ پالیسی کی تشکیل کے سلسلے میں بنیادی راہ نمائی دی گئی تھی کہ اقبال کے نزدیک بنی نوع انسانی ایک کنبے کی حیثیت رکھتی ہیں اور مختلف ملکوں اور خطوں کے افراد ایک گھرانے کی طرح ہیں، ان کے درمیان باہمی تعلق کو اسی تصور پر استوار ہونا چاہیے۔ یہ کتاب علامہ اقبال کی فکر اور فن پر بہت اہم راہ نمائی فراہم کرتی ہے اور اصحابِ فکر و دانش اور عام قارئین کے لیے سرمایۂ بصیرت کا درجہ رکھتی ہے۔ ’’اقبال کا جہانِ نو‘‘ اپنی طرز کی منفرد اور وقیع کاوش ہے جس سے طلبہ، اساتذہ اور محققین تادیر مستفید ہوتے رہیں گے۔

سفید گلیزڈ کاغذ پر کتاب بہت خوب صورت شائع کی گئی ہے اور مطالعے کے لائق ہے۔ اقبالیات کے موضوع پر عمدہ اور دلچسپ لوازمہ فراہم ہوا اور قیمت بھی زیادہ نہیں۔