اخبارات صدیوں سے موجود ہیں اور پوری دنیا کے لوگوں کے لیے معلومات اور خبروں کا ایک اہم ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ ڈیجیٹل دور میں بھی اخبارات لوگوں کو باخبر رکھنے اور انہیں معاشرے سے منسلک رکھنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ لیکن ڈیجیٹل دور نے ہمارے معلومات کے استعمال کے طریقے میں انقلاب برپا کردیا ہے، آن لائن پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا خبروں کے نمایاں ذرائع بن گئے ہیں۔
تاہم ڈیجیٹل میڈیا کی آمد کے باوجود اخبارات ہمارے معاشرے میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ اخبار پڑھنے کا قومی دن اخبارات کی لازوال تاریخی اہمیت کو تازہ کرتا ہے۔
یہ دن ہر سال 25 ستمبر کو منایا جاتا ہے جو ہماری زندگیوں میں اخبارات کی اہمیت کو تسلیم کرتا اور لوگوں کو روایتی پرنٹ میڈیا سے منسلک ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ معلومات کو پھیلانے، خواندگی اور ایک باخبر معاشرے کو فروغ دینے میں اخبارات کے اہم کردار کی یاددہانی کے طور پر منایا جاتا ہے۔
اخبارات کی تاریخ کئی صدیوں پرانی ہے۔ پہلا اخبار جسے ایکٹا ڈیورنا (acta durna)کہا جاتا ہے، جولیس سیزر کے دور میں 59 قبل مسیح میں قدیم روم میں شائع ہوا تھا۔ یہ ہاتھ سے لکھی ہوئی نیوز شیٹس پر مشتمل تھا جو شہریوں کے پڑھنے کے لیے عوامی مقامات پر چسپاں کی جاتی تھیں۔ چین میں پہلا اخبار ساتویں صدی عیسوی میں شائع ہوا۔ اسے ”پیکنگ گزٹ“ کہا جاتا تھا جو شاہی حکومت نے شائع کیا تھا۔ پیکنگ گزٹ میں حکومت کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی خبریں بھی شامل تھیں۔
تاہم 15 ویں صدی میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد تک اخبارات کی آمد شروع نہیں ہوئی تھی۔ انگلستان میں پہلا اخبار 1622ء میں جاری ہوا۔ پہلے اس کا نام ”ویکلی نیوز“ تھا جو 1785ء سے ”ٹائمز“ کا نام اختیار کرچکا ہے۔
17ویں صدی عیسوی میں امریکہ میں اخبارات آنا شروع ہوئے۔ پہلا امریکی اخبار بوسٹن، میساچوسٹس میں 1690ء میں شائع ہوا تھا۔ اس اخبار کا نام Publick Occurences both Foreign and Domestick تھا، اور اس میں حکومت اور مقامی واقعات کے بارے میں خبریں ہوتی تھیں۔
اردو کے پہلے اخبار کے حوالے سے بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ’’آگرہ اخبار‘‘ ہے جو اکبرآباد سے 1831ء میں جاری کیا گیا، لیکن مؤرخین لکھتے ہیں کہ اردو کا سب سے پہلے اخبار کا نام ”جام جہاں نما“ ہے،جو 1836ء میں منشی نبی بخش نے کلکتہ، ہندوستان میں شائع کیا۔ اس نے نوآبادیاتی دور میں اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ جام جہاں نما نے اردو صحافت کی ترقی کی راہ ہموار کی اور اس کے بعد متعدد بااثر اردو اخبارات کی منزلیں طے کیں۔
ڈیجیٹل دور میں معلومات آن لائن آسانی سے دستیاب ہیں، اس کے باوجود اخبارات بہت سے آن لائن ذرائع سے زیادہ قابلِ اعتماد ہیں۔ سوشل میڈیا کے مقابلے میں آج بھی اخبارات گہرائی سے تجزیہ اور تحقیقاتی صحافت پیش کرتے ہیں۔ اخبارات میں ایڈیٹرز اور حقائق کی جانچ کرنے والوں کی ایک ٹیم ہوتی ہے جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ جو معلومات شائع کریں وہ درست اور قابلِ اعتماد ہو۔ آن لائن ذرائع کے ساتھ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، اور کوئی بھی اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی شائع کر سکتا ہے۔
آن لائن خبروں کے مضامین اکثر سطحی ہوتے ہیں۔ دوسری طرف اخبارات عام طور پر طویل مضامین شائع کرتے ہیں جو زیادہ سیاق و سباق اور تجزیہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ اہم ہے، کیونکہ یہ قارئین کو خبروں اور ان کی تشکیل کرنے والی قوتوں کو بہتر طور پر سمجھنے کی اجازت دیتا ہے۔
یہ اخبار اسکرینوں سے منقطع ہونے اور پرنٹ شدہ لفظ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا موقع دیتے ہیں جو ذہنی صحت کے لیے بہت ضروری ہے، کیونکہ ڈیجیٹل دنیا نے جہاں معلومات کو وسیع کیا ہے وہاں ماضی کے مقابلے میںخبر اور معلومات کو مشکوک بنایا ہے۔ پڑھنےوالا اس گومگو میں ہی رہتا ہے کہ یہ خبر یا معلومات ٹھیک بھی ہے یا نہیں!اس لیے اخبار کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے جدید تقاضوں کو پورا کیا جائے۔
ہمارے یہاں تو اس قسم کے سروے ہوتے ہی نہیں ہیں لیکن ”پیو ریسرچ سینٹر“ کے 2021ء کے مطالعے میں صرف 23 فیصد امریکیوں نے کہا تھا کہ انہیں سوشل میڈیا پر ملنے والی معلومات کی درستی پر بہت حد تک اعتماد ہے۔ اس کے برعکس 77 فیصد امریکیوں نے کہا کہ انہیں اخبارات میں ملنے والی معلومات کی درستی پر کافی حد تک بھروسا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اخبار پڑھنا آن لائن خبروں کو پڑھنے سے زیادہ تجربہ اور اعتماددیتاہے، یہ معلومات کے بہتر فہم اور تخلیق کا سبب بن سکتا ہے۔
اس کے علاوہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اسکرین پر پڑھنے کے مقابلے میں کاغذ پر پڑھنا معلومات کو دیر تک ذہن میں رکھتا ہے۔2013ء میں Mangen et al کی طرف سے کیے گئے ایک مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ کاغذ پر متن پڑھنے والے شرکاء کو زیادہ تفصیلات یاد تھیں اور انہوں نے اسکرین پر اسی متن کو پڑھنے والوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر فہم کا مظاہرہ کیا۔ ہاتھ سے لکھنا تخلیقی صلاحیتوں اور خیال کی تخلیق کو تحریک دیتا ہے۔
میرین وولف ایک مشہور علمی اعصابی سائنس دان ہیں، وہ کاغذ پر ”سست پڑھنے“ کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، جو پڑھنے والے کو عمیق اور مرکوز پڑھنے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ اس قسم کا پڑھنا بہتر فہم، تنقیدی سوچ، اور خیالات کے درمیان تعلق قائم کرنے کی صلاحیت کو آسان بناتا ہے۔
اسکرین پر پڑھنا اکثر پڑھنے والے کو ڈیجیٹل خلفشار کا شکار کرتا ہے۔ اخبارات آپ کی دماغی صحت کے لیے موزوں ہیں، یہ بھی ہمیں مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اخبارات کا مطالعہ تناؤ کو کم اور علمی افعال کو بہتر بنا سکتا ہے۔ ایک اہم بات اور کہ اخبارات صحافت اور آزادیِ صحافت کو سپورٹ کرنے کا ایک اچھا ذریعہ ہیں لیکن آج کے دور میں اخبارات مالی طور پر مشکلات کا شکار ہیں، اداروں سے صحافیوں کو نکالا جارہاہے،اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ گو کہ دنیا میں آج اخبارات بند ہورہے ہیں لیکن وہ وقت لوٹ کر پھر آئےگا اور انسان اپنی فطرت ”کاغذ“ پرآنے کی طر ف پھر ضرور لوٹے گا۔لیکن اس امیدکے ساتھ ساتھ کاغذ پر پڑھنے اور لکھنے کی طاقت کے علمی فوائد کو تسلیم کرتے ہوئے ڈیجیٹل اور پرنٹ میڈیم کے درمیان توازن تلاش کرنا ضروری ہے۔