مہنگائی کا طوفان

گورنر ہائوس کوئٹہ پر جماعت اسلامی کا دھرنا سراج الحق کا دھرنے کے شرکا سے خطاب

مہنگائی کے طوفان کے خلاف جماعت اسلامی پاکستان کے ملک گیر احتجاج کی عوام ستائش کررہے ہیں۔ اگرچہ کسی بھی سیاسی جماعت کے احتجاج اور سیاسی پروگرامات میں عام لوگ شرکت نہیں کرتے، مگر جماعت اسلامی کی شروع کردہ تحریک سے عوام امیدیں باندھ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے حقوق کے دفاع میں یہی بے غرض آواز اور تحریک ہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے خلاف جماعت اسلامی کی ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی اپیل پر بلوچستان میں بھی تاجروں نے ساتھ دے کر کاروبار بند کیا۔ کوئٹہ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں ہڑتال مؤثر رہی۔ اب چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں گورنروں کی رہائش گاہوں کے سامنے بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے اور مجموعی گرانی کے خلاف دھرنوں نے سمت اور رخ قائم کرلیا ہے۔ اب عوام کے پاس کوئی چارہ نہیں، اگر انہوں نے اس تحریک میں حصہ نہ ڈالا تو پھر آئندہ شاید کوئی آواز بلند نہ ہوسکے۔24ستمبر کو گورنر ہاؤس کوئٹہ کے قریب دھرنا عوام کا ترجمان احتجاج تھا۔ امیر جماعت اسلامی اس احتجاج میں شریک ہوئے، انہوں نے اپنی تقریر میں عوام کی بات کی، مہنگائی اور نظام کی پستی کے اسباب بیان کیے۔ سراج الحق کی آواز گورنر ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاوس میں گونجتی رہی۔ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت میں مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی۔ اب پی ڈی ایم اگر احتجاج کرے بھی تو کس منہ سے کرے، کہ عوام پر مسلط کردہ مہنگائی کا عذاب اسی کا مسلط کردہ ہے۔

نگراں وفاقی حکومت نے سرحدی تجارت کے آگے مشکلات کھڑی کردیں تو اس سے وابستہ ہزاروں افراد یک زبان ہوگئے۔ نیشنل پارٹی نے ایران سے جڑے سرحدی کاروبار پر قدغن لگانے کی کوششوں اور ارادوں کے خلاف آواز اٹھائی اور احتجاج کا آغاز کردیا۔ خود ایرانی تیل، ڈیزل، خوراک و دوسری اشیاء کا کاروبار کرنے والے لوگوں نے قومی شاہراہوں کو بند کیا۔ نگران یا اس کے بعد بننے والی کسی حکومت نے ایسی کسی بندش کی ٹھانی تو اس کے خلاف ردعمل انتہائی شدید ہوگا۔ بہرحال پی ڈی ایم سے جڑی نیشنل پارٹی کا احتجاج پاک ایران سرحدی کاروبار سے وابستہ افراد کے مفادات کے دفاع کے لیے ہونا چاہیے۔ گرانی کے آسیب کے خلاف لڑائی لڑی جائے تاکہ ملک کے عوام کے معاشی استحصال کا در بند ہو۔

محمود خان اچکزئی کی جماعت پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی جو پی ڈی ایم کی اتحادی ہے، اس نے بھی مہنگائی کے خلاف تحریک چلانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ یہ بات محمود خان اچکزئی نے 23ستمبر کو پشتون کلچر ڈے کی تقریبات کے موقع پر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ پیش ازیں محمود خان اچکزئی کی جماعت نے کوئٹہ ائرپورٹ روڈ پر تاجر تنظیم کے ساتھ مل کر کسٹم کے دفتر کے سامنے مظاہرہ کیا۔ یہ مظاہرہ گوداموں پر چھاپوں کے خلاف تھا۔ یعنی یہ احتجاج مخصوص تناظر میں ہوا جہاں تاجروں کے مفادات کی پاسبانی کی کوشش ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت اُن تاجروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے جو چینی کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث ہیں اور جو چینی بڑے بڑے گوداموں میں چھپاکر آہستہ آہستہ افغانستان اسمگل کرتے ہیں۔ ملک کے عوام غربت اور گرانی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔ محمود خان اچکزئی کی جماعت کی اگرچہ پی ڈی ایم حکومت میں نمائندگی نہیں تھی لیکن یہ اتحاد کی اہم جماعت تھی۔ محمود خان اچکزئی اور ان کی جماعت اس عرصہ مہنگائی کے مسئلے پر خاموش رہے۔ وہ چاہتے تو عوامی مسائل و مشکلات پر گرفت کرسکتے تھے۔سرِدست بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کو پی ڈی ایم سے راہیں جدا کرنی ہوں گی اور قوم سے خطاؤں کی معافی مانگنا ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) نے خصوصاً شعوری و ارادتاً اسٹیبلشمنٹ سے یارانہ قائم کیا ہے۔ پیپلز پارٹی بھی شعوری بغل گیر ہوئی۔ اب پیپلز پارٹی نے جو وتیرہ اپنایا ہے اس کی بنیاد اصول نہیں ہے۔ دراصل پیپلز پارٹی پرے ہٹاکر مسلم لیگ (ن) زیادہ محبوب ٹھیرائی گئی ہے۔ جمعیت علماء اسلام اس کے پلو سے بندھی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی زیست و بقا سندھ سے وابستہ ہے۔ انتخابات میں تاخیر پیپلز پارٹی کے لیے نقصان پیدا کرے گی۔ اس بنا پر پیپلز پارٹی نے ٹکراؤ کا ماحول بنانے کی کوشش کی ہے جہاں زد پر مسلم لیگ (ن) بھی ہے۔ محمود خان اچکزئی نے23ستمبر کی گفتگو میں میاں شہبازشریف پر بھی تنقید کی ہے۔ بقول محمود خان اچکزئی:

”پی ڈی ایم کا پروگرام جمہوری قوتوں کو پسند تھا جس کی وجہ سے میاں شہبازشریف ایک جمہوری لیڈر کی حیثیت سے سامنے آئے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سابق وزیراعظم میڈیا کے سامنے آکر بولے کہ وہ گزشتہ تیس سال سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہیں، اس قسم کی باتیں کم از کم ہمیں قبول نہیں۔ ہماری آنکھوں کا تارا ایک اچھا، ایک ایسا پاکستان ہے جس میں آئین کی بالادستی ہو، ہر ادارہ آئین میں طے کیے گئے اپنے فریم ورک میں رہ کر کام کرے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہوں۔“

بہرحال محمود خان اچکزئی پی ڈی ایم کے گناہ میں شامل رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ اور پی ڈی ایم اے کی حیثیت اے اور بی ٹیم کی رہی، جبکہ موجودہ نگراں حکومتیں ٹیم اے اور بی کی کارستانی ہیں۔ احتساب اور شفافیت کا نعرہ کھلا دھوکا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وفاقی نگراں حکومت کی یہ شکل و صورت نہ ہوتی۔ نگراں کی توجہ پاک ایران سرحدی کاروبار پر ہے جس کے لیے مہرے اِدھر اُدھر کیے جارہے ہیں۔ ممکن ہے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھی سرمایہ دار بن جائیں۔ نامور اسمگلروں سے ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کی تعیناتیاں ہی اس شرط پر ہوں کہ انہیں کما کر دیا جائے تو ایسے میں اسمگلنگ کی روک تھام کیسے ہوگی؟ سرفراز بگٹی جب 2013ء سے 2018ء تک بلوچستان کے وزیر داخلہ اور پی ڈی ایم اے میں تھے تو اس ادارے میں منظور نظر افراد کو تعینات کردیا۔ خوب فوائد سمیٹے گئے۔ اب تو ان کے اختیار میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) بھی آچکی ہے۔ پی ڈی ایم اے میں بٹھائے گئے لوگ آج کل اسلام آباد میں اُن کے دائیں بائیں دکھائی دے رہے ہیں۔ ذرا نیب آزاد ہو تو محض کھنگالنے سے ہی اربوں روپے زمین پر آکر گریں گے۔ بلوچستان کے نگراں سیٹ اَپ میں فٹ دانش لانگو، میر خالد لانگو کے کزن ہیں۔ خالد لانگو کی انوارالحق کاکڑ سے قریبی دوستی ہے۔ یہ مہربانی دوستی کے ناتے ہوئی۔ خالد لانگو وہ شخص ہیں جو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثناءاللہ زہری کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے۔ اتنا مال لُوٹا کہ گننے کے لیے اسٹیٹ بینک سے رقم گننے والی مشین منگوائی گئی۔ یہ بدعنوانی کا مشہورِ زمانہ مشتاق رئیسانی کیس تھا۔ مشتاق رئیسانی تب سیکریٹری خزانہ تھے۔ یہ لوٹ مار ملی بھگت سے ہوئی تھی۔ تاہم ”بَلی کا بکرا“ مشتاق رئیسانی بنائے گئے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی شفافیت اور میرٹ کے دعوے کی محض ایک مثال ہے۔ گویا ہر سو لوٹ مار اور بدعنوانی کا بازار گرم ہے۔ ایسے میں جماعت اسلامی پر یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نظام کی اصلاح کا بیڑا منزل تک پہنچائے۔ گندے نظام کو زمیں بوس کردے۔ اِس کے لیے مسلط اداروں اور حلقوں کو للکارنا ہوگا۔ سراج الحق نے کوئٹہ دھرنے میں کہا کہ اُن جرنیلوں کی عزت کرتے ہیں جو آئین کو مانیں۔ سیاست دان اپنا راستہ سیدھا کریں، ان کی بھی عزت کرتا ہوں۔ جماعت اسلامی کی پارلیمنٹ میں موجودگی بہت اہم ہے۔ تحریک انصاف سے انتخابی اتحاد ہوتا ہے تو اچھے نتائج کے آثار بہت قوی دکھائی دیتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ کیسکو نے بجلی چوری کے خلاف مہم میں نا دہندہ بااثر افرادپر ہاتھ ڈالنے کے بجائے غریب اور مزدور طبقے کے لوگوں کو پکڑنا شروع کیا ہے۔ پکڑ دھکڑ کے دوران معمولی مزاحمت کرنے پر شہریوں کو زدوکوب کرنےاور تشدد کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔