کاروباری سیاسی طبقہ اور عوام کا مستقبل

معروف کالم نگار لطیف جمال نے بروز پیر 25 ستمبر 2023ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد میں اپنے زیرنظر کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

’’اب یہ ملک وہ قیمت مع سود ادا کرے گا جسے ہمارے ملک کے حکمرانوں نے اپنے دائمی ملکی مفادات کو دائو پر لگاکر اور دیگر ممالک کا دفاع کرکے وصول کی تھی۔ وطنِ عزیز میں صاف ستھرے معاشرے کے قیام کے بجائے کرپشن کے نت نئے طریقے اختیار کیے گئے۔ اہلِ وطن بھوک اور غربت میں بھی حکمرانوں کے ساتھ کھڑے رہے۔ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہمارے ملک کے حکمرانوں نے ایسے نعرے دیے اور وہ سبز باغ دکھائے جو کبھی پورے نہیں ہوسکے۔ بدلے میں عوام نے ان سے کچھ بھی طلب نہیں کیا، حالانکہ اس عرصے میں عوام کے ساتھ حکمران طبقے نے ہر طرح سے ظلم و زیادتی کا سلسلہ روا رکھا۔ سماجی استحصال اس سطح پر جاپہنچا کہ ملک کے سیاست دانوں کے لیے اخلاقی سرٹیفکیٹ بھی جاری ہونے لگے۔ ’’ٹین پرسنٹ‘‘ سے لے کر ’’پاناما پیپرز‘‘ اور ’’میموگیٹ اسکینڈل‘‘ جیسے تمغوں کا اجرا ہونے لگا۔ تاہم عوام صبر سے یہ سب تماشا ہوتے ہوئے دیکھا کیے۔ ہمارے ملک کے قیام کو لگ بھگ 76 برس ہوچکے ہیں لیکن ہم تاحال اپنے اختلافات کا خاتمہ کرسکے ہیں اور نہ ہی اپنی اصل منزل کا کوئی تعین۔ لگتا یہ ہے کہ ہماری کوئی ترجیحات ہی نہیں ہیں۔ ملک میں مختلف النوع تنازعات اور اختلافات کو دانستہ طور پر بھڑکایا اور ابھارا گیا ہے تاکہ عوام باہم دست و گریباں رہیں۔ ملک کو زوال اور انحطاط سے دوچار کرنے والی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے کبھی کسی سطح پر بھی سنجیدہ کوششیں ہوتی ہوئی نظر نہیں آئی ہیں۔ ملک کی املاک پر قبضہ کرنے کی ذہنیت آج بھی پورے طور سے عروج پر ہے۔ یہ سوچ تقسیم سے پہلے کی ہے لیکن اب تو یہ باتیں جدت اور ماڈرن شکل اختیار کرچکی ہیں۔ اسے سابق اور موجودہ تمام ہی حکمرانوں نے تقویت دی ہے۔ جو پالیسیاں اس ملک کی حکمران اشرافیہ نے اختیار کیں ان پالیسیوں کے شکنجے میں ہم آج خود بری طرح سے جکڑے جاچکے ہیں اور نوبت بہ ایں جارسید کہ ہم آج اپنے ملک کے اندرونی معاملات کو بھی ٹھیک کرنے کی صلاحیت سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔

ملکی معیشت کی بحالی اور اسے اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا سفر بہت زیادہ طویل ہے اور بے حد کٹھن بھی۔ منزل تک پہنچنے میں بہت زیادہ وقت درکار ہے۔ ہم اپنا موازنہ اُن ممالک سے کریں بھی تو کیسے اور کیوں کر، جن ملکوں میں خوش قسمتی سے وہ سیاسی قیادت بھی کبھی نہیں رہی جس نے محض عوام کو آسروں اور دلاسوں کے لالی پاپ ہی کھلائے اور اپنے معاشی مفادات کے حصول میں ہی لگی رہی۔ نئے پاکستان کا نعرہ اُن سادہ لوح اہلِ وطن کے لیے ایک امید بن گیا تھا جو صرف نعروں سے ہی انقلاب کے حامی تھے۔ نعرے اہم ہوا کرتے ہیں، وہ انقلابی عمل کے لیے ایک سیڑھی کا کردار ادا کرتے ہیں، لیکن جن نعروں کے پسِ پردہ سیاسی جدوجہد کی طویل تاریخ نہیں ہوتی وہ نعرے ناکامی سے دوچار ہوجاتے ہیں، بعینہٖ بھٹو کا نعرہ ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ اپنے جوہر میں عوامی جدوجہد کا ایک انقلابی اظہار تھا، اس نعرے کے سیاسی سحر نے عوام کو جکڑلیا تھا اور ان کے دل بھی جیت لیے تھے، لیکن عملاً یہ نعرہ بھی عوام کی زندگیوں کو تبدیل کرنے کا محرک ثابت نہیں ہوسکا۔ جب کہ دنیا میں جتنے بھی انقلاب برپا ہوئے، اُن میں لگائے گئے نعروں اور پسِ پردہ ہونے والی جدوجہد کے باعث معاشروں کی قسمت ہی تبدیل ہوگئی۔ مثلاً بیسویں صدی میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی تقریر “I have a Dream” جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کا ایک اہم نعرہ اور سہارا بن گئی جس نے نسل پرستی کا خاتمہ کیا۔ لیکن جب عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو نیا پاکستان اور ریاست مدینہ کے سہانے خواب دکھائے تو ہم اُسی وقت ان نعروں کے پسِ پردہ سیاسی حقائق کو جان گئے تھے اور بہ خوبی سمجھ گئے تھے کہ یہ نعرے سیاسی انتقام کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ ہم نے یہ نتائج بھی اخذ کرلیے تھے کہ اب ہمارے ملک کے اندر ایک بڑے سیاسی انتشار کی بنیادیں رکھی جارہی ہیں، اور بعد میں پھر یہی کچھ ہوا بھی۔

آج جب نئے پاکستان کا بانی اور ریاست مدینہ کا تصوراتی خاکہ پیش کرنے والا سیاست دان اٹک جیل کے زندان میں اپنے ایام اسیری گزار رہا ہے تو اُسے وہ دن بھی یاد ہوں گے جب وہ اس ملک کے معصوم عوام کو اپنی بدترین حکمرانی کے تندور میں جھونک کر کہا کرتا تھا ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘، لیکن جب اُسے اپنے گھر رخصت کرکے اور اقتدار سے محروم کرنے کے بعد وہی اقتدار اُس کے سخت مخالفین کے حوالے کردیا گیا تب اُسے شدت کے ساتھ وہ گھڑیاں بھی یاد آئی ہوں گی کہ کس طرح سے اُسے استعمال کرنے کے بعد Dead Wood گردانتے ہوئے وہ ہائوس بھی خالی کرالیا گیا جس ہائوس کو وہ کبھی یونیورسٹی بنانے کی باتیں کیا کرتا تھا اور کبھی اس ہائوس کو عوام کے لیے ایک تفریح گاہ بنانے کا اعلان کرتا تھا۔ نیا پاکستان اور ریاست مدینہ کے قیام کے خواب تو بھلے سے اُن نوجوانوں کے دلوں کی دیوانگی کا باعث ثابت ہوئے ہوں جو سیاست میں مہم جوئی کے حامی ہوا کرتے تھے، جو ہر سیاسی تماشے کو تماشے کی آنکھ سے دیکھا کرتے تھے، لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ سارا عرصہ سیاسی انتقام کے بدترین حوالے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ سیاست میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتیں لیکن جب عمران خان نے اپنے دورِ اقتدار میں دشمنیوں کے سارے محاذ کھول کر یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ سارے چوروں سے ملک کے لوٹے گئے خزانے کا حساب کتاب لے گا تب اُس کی پیٹھ پر تھپکی دینے والے اُس کے ساتھ تھے، لیکن کیا اس ملک کے کمزور سسٹم میں یہ ممکن تھا؟ یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ان سیاسی مافیائوں سے گزشتہ کئی دہائیوں کا حساب لے سکتا؟ یہی وجہ ہے کہ وہ جو کل اقتدار پر براجمان رہنے والوں سے حساب لینے کی باتیں کیا کرتا تھا اور انہیں چور کے لقب سے نوازا کرتا تھا، خود ہی توشہ خانہ کیس میں قیدی بن گیا اور ضمانت ہونے کے باوجود سائفر والی سازش میں گرفتار اور پھنسا ہوا ہے۔ سائفر میں اسے ضمانت کب ملے گی؟ کسی کو بھی کچھ پتا نہیں ہے، لیکن سائفر کے بعد بھی کئی دوسرے اور کیس اس کا تعاقب کرتے رہیں گے۔

الیکشن کمیشن نے آئندہ برس جنوری کے آخر میں الیکشن کرانے کا اعلان تو کیا ہے لیکن اس حوالے سے کوئی واضح شیڈول جاری نہیں کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر الیکشن کی تاریخ کا پتا پڑ سکے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اقتدار کے حصول کے لیے چھوٹی جماعتوں سے روابط کا سلسلہ تیزتر ہوگیا ہے۔ لاہور میں چودھری شجاعت اور پی پی پی کی مرکزی قیادت کی ملاقات کو بھی بے حد اہم قرار دیا جارہا ہے، جو گزشتہ ہفتے لاہور میں کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ پی پی پی کی مرکزی قیادت کا سارا زور پنجاب پر ہے اور پنجاب کی سیاسی صورتِ حال مسلم لیگ (ن) کے لیے تاحال کوئی واضح صورت اختیار نہیں کرسکی ہے، جس سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے پی پی پی کی سپریم قیادت سرگرم ہے۔ پی ٹی آئی اگرچہ سیاسی سختیوں کے سبب الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مبہم اعلان کے بعد بھی سیاسی اسکرین پر سرگرم نہیں ہے، حالانکہ الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخر میں اس ملک میں باقاعدہ الیکشن کا شیڈول بھی جاری کیا (جس کا کوئی بھی امکان دکھائی نہیں دیتا)، تو کیا پی ٹی آئی اپنے موجودہ سیاسی اسٹیٹس میں ملک کے تمام حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے اور الیکشن مہم چلانے کی طاقت رکھتی ہے؟ کیوں کہ پی ٹی آئی ملک کی دیگر دو بڑی پارٹیوں کی طرح اس ملک میں تیسری بڑی طاقت کے طور پر موجود ہے۔ اگر اس پارٹی کو ملک کے عام انتخابات میں حصہ لینے کا حق نہ ملا تو اس سے الیکشن پر جو سوالات کھڑے ہوں گے تو کیا پھر ان سوالات کے جوابات ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے سپریموز کے ہاں بھی ہوگا؟ جو اس وقت تک بھی ملکی سیاست کے اہم کردار بنے بیٹھے ہیں۔

سب سے سستی منڈی سیاست کی ہے، جہاں کچھ اصولوں پر مبنی روایات بھی اب باقی نہیں رہی ہیں، جس کی وجہ سے سیاسی اداروں کی تباہی اور تنزل کے راستے اس سارے معاشرے کو کسی الائو کی جانب دھکیلنے میں مصروف ہیں جہاں سماجی اور معاشی ترقی کے امکانات ہی دکھائی نہیں دیتے۔ اداروں کی لگاتار تباہی اور تنزل کو دیکھتے ہوئے عوام نے اب ان حکمرانوں سے نئے سماج کی تشکیل اور تعمیر کی امیدیں وابستہ کرنا ترک کر ڈالا ہے۔ جہاں سیاست کاروباری معاشی مفادات کی ایک منڈی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اقتداری حلقے آئے دن مخصوص سیاسی طبقات کے مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر عوام پر مہنگائی کے بوجھ کو بڑھانے کے لیے نت نئے فارمولے ایجاد کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ کیا ایسی طرزِ حکمرانی سے یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ پاور، پیسے اور پروٹوکول کے نشے میں دھت یہ حکمران عوام کو ایک بہتر مستقبل دے پائیں گے؟ اگر ملک کے عام انتخابات آئندہ سال کے پہلے مہینے کے آخری ایام میں منعقد ہوتے ہیں یا ابھی انہیں مزید کچھ عرصہ التوا میں رکھا جاتا ہے تو اس سے عوام کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا… وہ عوام جو پیٹرول، بجلی اور گیس سمیت عام روزمرہ استعمال کی اشیا بھی خریدنے کی اب استطاعت نہیں رکھتے، جن کے پاس اب سوائے مزاحمت کے اور کوئی بھی راستہ نہیں بچا ہے۔ لیکن کیا اس ملک کے عوام آئندہ ہونے والے انتخابات میں ملک کے کاروباری سیاسی طبقے کے خلاف مزاحمت کی بنیاد رکھ پائیں گے؟ کیوں کہ مزاحمت کے لیے چھوٹے اور معمولی سبب کا ہونا ہی ضروری ہوا کرتا ہے۔ اس ملک کے عوام کے ہاں تو مزاحمت کے لیے مضبوط بنیادیں بھی موجود ہیں۔ کیوں کہ یہ امر مزید واضح ہوچکا ہے کہ جب تک کاروباری سیاسی طبقے کو زوال نہیں آجاتا اُس وقت تک عوام کا خوش حال مستقبل بھی ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس لیے عوام کو اپنے خوش حال مستقبل کے قیام کے لیے کاروباری سیاسی طبقے سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔‘‘

(نوٹ:کالم نگار کے تمام خیالات اور آرا سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔)