صحت مند معاشرے کی تشکیل کا بنیادی تقاضا
بڑے اور بھاری بھرکم موضوعات پر لکھنا ہماری ہابی ہے۔ مگر اس ہابی کی ایک وجہ ہے، اور وہ یہ کہ اگر کامیابی سے ہم کنار ہوجائیں تو خوب، لیکن اگر ناکامی کا سامنا ہو تو بھی نقصان نہیں ہوتا۔ کیوں کہ بڑی ناکامی بھی انسان کو بہت کچھ سکھا جاتی ہے، اور کچھ نہیں تو انسان کو اپنی محدودات کا علم تو ہو ہی جاتا ہے، اور اپنی محدودات کا علم ہوجائے تو انسان اپنی ناکامی کا الزام حالات یا دوسروں کے سر ڈالنے کے بجائے اس کے بوجھ کو خود اٹھانا سیکھ جاتا ہے۔ چھوٹی ناکامی تو انسان کو اپنے بارے میں مزید خوش گمانیوں میں مبتلا کردیتی ہے، اور یوں انسان اپنی ناکامیوں کا بوجھ دوسروں کے سروں پر منتقل کرکے خود آگہی کی منزل سے دور تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
کالم کی سرخی دیکھ کر ہی آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ آج پھر ہم نے ایک بڑے اور بھاری بھرکم موضوع کا انتخاب کرلیا ہے۔ میں جب بھی ایسے کسی موضوع کا انتخاب کرتا ہوں تو ایک بے نام سی مسرت کے ساتھ مجھے کچھ شرمندگی سی بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس شرمندگی کی کچھ ذاتی وجوہات بھی ہیں، مگر اس کی ایک وجہ قارئین کرام بھی ہیں۔ دراصل اردو اخبارات کے قارئین اتنے نازک مزاج ہوگئے ہیں کہ سیاسی موضوعات کی ہلکی پھلکی چادر کے سوا ان کے سر پر کچھ اور ڈالنے کی کوشش کی جائے تو بے چارے اس کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ بہت سے قارئین تو اتنے نازک مزاج ہوگئے ہیں کہ سنجیدہ کالم کا عنوان پڑھتے ہی اپنے سر پر بوجھ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ لکھنے والا یہ سمجھے کہ اس نے قارئین کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا ہے، اور قارئین یہ سمجھیں کہ اس نے ان کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال دیا ہے تو لکھنے والے کو شرمندگی تو ہوگی ہی۔ تاہم ہمارے چند قارئین ایسے بھی ہیں جو پھولوں کے ہار کو پھولوں کا ہار ہی سمجھتے ہیں۔ اور صرف سمجھتے ہی نہیں، ہمیں بتا بھی دیتے ہیں۔ ایسے ہی قارئین کی ہمت افزائی کا نتیجہ ہے کہ ہم شرمندگی کے بار کو اٹھانے کے قابل ہیں۔
آیئے اب ذرا موضوع کے حال چال پوچھ لیں۔
اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات ہیں، ان صفات میں ایک صفت وہ ہے جس کے باعث ہم وجود میں آئے اور اسے پہچاننے کے قابل ہوئے۔ یہ خلق کرنے کی صفت ہے۔ وہ سب سے بڑا تخلیق کرنے والا یعنی خلّاقِ اعظم ہے۔ حدیثِ قدسی ہے کہ:
’’میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میں پہچانا جائوں، سو میں نے کائنات کو تخلیق کیا۔‘‘
ہم اس کائنات کا حصہ بلکہ اس کا مرکز ہیں۔ یہ کائنات ہمارے لیے خلق کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ اس نے انسان کو اپنی صورت پر خلق کیا۔ اس اعتبار سے انسان کی بھی سب صفات میں جو صفت سب سے زبردست کہلانے کی مستحق ہے وہ اس کی تخلیق کرنے کی صلاحیت ہے جو انسانی زندگی کا اہم ترین عنصر ہے۔
تاہم یہاں ایک اہم ترین سوال پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ انسان کو صرف عبادت کے لیے پیدا کیا گیا۔ اس اعتبار سے اس کی سب سے نمایاں صفت عبادت کرنا کہلائے گی۔ یہ سوال ہم نے کچھ خاص قسم کے اذہان کی مخصوص ماہیت کے پیش نظر خود ہی اٹھایا ہے، چنانچہ عرض یہ ہے کہ عبادت انسانی زندگی کا مقصد ہے انسان کی صفت نہیں۔ پھر اگر ہم یہ مان بھی لیں تو کہا جا سکتا ہے کہ سچی عبادت بھی اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک انسان کے اندر اس کا تخلیقی جوہر متحرک حالت میں نہ ہو۔ یہ کس طرح؟ اس کی وضاحت آگے آتی ہے۔
تخلیق کے لفظ سے ہمارا ذہن فوراً شعر و ادب، مصوری اور دیگر فنونِِ لطیفہ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے، اور وہ یہ کہ ہم انہی چیزوں کو تخلیق کا درجہ دیتے ہیں اور ان سے متعلق سرگرمیوں کو تخلیقی سرگرمیاں تصور کرتے ہیں۔ تاہم ہمارے نزدیک یہ تمام چیزیں انسانی زندگی کے تخلیقی عنصر کا سب سے بڑا حصہ ہونے کے باوجود اس کے کُل کا احاطہ نہیں کرتیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسانی زندگی کے تخلیقی عنصر کا کچھ حصہ ان چیزوں سے متعلق سرگرمیوں کے باہر وجود رکھتا ہے۔ جی ہاں ہمارا یہی خیال ہے۔
ہماری حقیر رائے میں انسانی زندگی کے عام معاملات میں بھی انسانی زندگی کا یہ تخلیقی عنصر موجود ہوتا ہے۔ اس میں انسانی تعلقات اور عام معاملات بھی شامل ہیں۔
اب ہم گفتگو کی اس منزل پر آگئے ہیں جہاں پہنچ کر یہ لازم ہوگیا ہے کہ ہم تخلیقی عنصر کی وضاحت کریں، یعنی یہ بتائیں کہ یہ ہے کیا؟ اور اس کی کارفرمائی کہاں کہاں نظر آتی ہے؟ مگر اس سے قبل یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ہم یہ پوری بحث مذہبی پس منظر میں کررہے ہیں۔
تخلیق کا عمل ایک بہت ہی پراسرار عمل ہے۔ دنیا کے بے شمار بڑے دماغوں نے اس کی وضاحت کی کوشش کی ہے، تاہم اس بات پر تمام پڑھے لکھے لوگوں کا اتفاق ہے کہ کوئی بھی اس کی وضاحت کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوا ہے۔
ہم تخلیقی عنصر کی وضاحت میں کئی باتیں کہہ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر تخلیق انسانی روح اور نفس کے اسرار کے ٹھوس اور معلوم شکلوں میں اظہار کا نام ہے۔ تخلیق انسانی وجود کی داخلی جہت کی توسیع کا خارجی اظہار ہے۔ تخلیق انسانی زندگی کے امکانات کی تشکیل کے عمل کا نام ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح کی اور بہت سی باتیں۔
اب ہم اسے ذرا زیادہ ٹھوس شکل میں بیان کرنے کے لیے ایک دوسری وضاحت کا رخ کرتے ہیں جس کے ذریعے ہم اس کی ماہیت اور محرک کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔
ہمیں اعتراف ہے کہ ہم نے اردو ادب کے معیاری محدود سے ذخیرے کا آدھے سے بھی بہت کم ہی پڑھ رکھا ہے، دوسری زبانوں کے ادب کا مطالعہ تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم ہم نے جو کچھ بھی پڑھا ہے اس سے پیدا ہونے والی ایک خاص کیفیت ہمیں اس بات پر یقین کرنے پر اکساتی ہے کہ دنیا کے ادب کے بڑے حصے کی تخلیق کے پسِِ پشت یہ احساس کام کررہا ہے کہ ہم کسی خاص کیفیت یا کسی خاص شکل و صورت یا کسی خاص صورتِ حال سے دور ہیں اور کیوں ہیں؟
اس کے برعکس جس ادب میں نشاطیہ رنگ و آہنگ پایا جاتا ہے اُس کی بنیاد میں یہ احساس کام کرتا نظر آتا ہے کہ ہم کسی خاص وجود، کسی خاص کیفیت، کسی خاص شکل و صورت یا کسی خاص صورتِ حال سے قریب ہیں۔ گویا تمام تر معاملہ صرف دو الفاظ کے درمیان موجود ہے، یعنی ہجر اور وصال اور ان کی بے شمار مثبت و منفی کیفیات۔ لیکن یہاں ہم نے ہجر و وصال کو ان کے وسیع ترین معنوں میں استعمال کیا ہے۔ تو گویا اپنے سے خارج میں موجود کسی دوسرے وجود سے رابطے کی خواہش ہی دراصل انسانی زندگی کا تخلیقی عنصر ہے۔ یہی وہ عنصر ہے جو انسان کے وجود کے تمام حصوں کو زندہ، متحرک اور ہم آہنگ رکھتا ہے۔ یہی وہ عنصر ہے جو انسانی وجود میں توسیع کے امکانات پیدا کرتا ہے۔
اب ہم اس تصور کی مزید وضاحت سے پہلے دوسرے وجود سے رابطے کی خواہش کے بارے میں دوچار باتیں عرض کردیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دوسرے وجود سے رابطے کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے علاوہ اپنے سے باہر کسی دوسرے کے وجود کا قائل ہے۔ دوسرے کے وجود کا یہ احساس بجائے خود ایک بہت بڑا انسانی احساس یا انسانی عمل ہے۔ یہ عمل یا یہ احساس انسان کے اندر ایک خاص قسم کی نرمی پیدا کرتا ہے۔ اس احساس کے نتیجے میں انسان کی اَنا کا دائرہ لامحدود نہیں رہتا بلکہ اس کی ایک حد بندی ہوجاتی ہے، کیوں کہ انسان دوسرے وجود کی اَنا کا احترام کرنے لگتا ہے۔ اس عمل سے انسانی روح میں ایک علو پیدا ہوجاتا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ دوسرے وجود سے رابطے کا مفہوم کیا ہے؟ رابطے سے مراد یہ نہیں ہے کہ آپ کسی سے مل لیں۔ گو یہ بھی رابطے کی ایک ادنیٰ سی شکل ضرور ہے، تاہم رابطے سے دراصل ہماری مراد یہ ہے کہ آپ دوسرے وجود کا حصہ بن جائیں اور وہ آپ کے وجود کا حصہ بن جائے۔ یعنی وہ آپ کو اپنے اندر آنے کی اجازت دے اور آپ اُسے اپنے اندر آنے کی اجازت دیں۔ اس کے نتیجے میں انسانی نفس اور روح پر پڑے ہوئے وہ حجابات اٹھ جاتے ہیں جو انسانی وجود کے ارتقاء میں مزاحم ہوتے ہیں۔ یہ حجابات ہماری معاشرتی زندگی کے چھوٹے بڑے تعصبات سے تشکیل پاتے ہیں۔
ان حجابات کے اٹھ جانے کے نتیجے میں انسانی وجود کی قبولیت یا Acceptence بہت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ہر طرح کے تجربوں، خیالات اور تصورات کو قبول کرنے لگتا ہے۔ یوں ایک رابطے کی استواری کے نتیجے میں ہزاروں رابطوں کی راہ ہموار ہوجاتی ہے اور یہ پوری کائنات اس کے لیے مانوس وجود کی حیثیت اختیار کرجاتی ہے۔
ہم نے ابتدا میں تخلیقی عنصر کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ سچی عبادت بھی اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک انسان کے اندر اس کا تخلیقی عنصر متحرک حالت میں نہ ہو۔ ضروری ہے کہ اس بات کی وضاحت کردی جائے۔
عبادت کا مفہوم جہاں اپنے خالق کی حمد و ثنا بیان کرنا اور اس کی شکر گزاری کا مقدس فریضہ ادا کرنا ہے وہیں اس کا ایک مفہوم بلکہ مقصد اپنے خالق سے رابطہ استوار کرنا بھی ہے، بلکہ نماز کے بارے میں تو کہا ہی یہ گیا ہے کہ یہ خدا سے شرفِ ملاقات مہیا کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر کسی انسان میں ویسے رابطے کی خواہش نہیں ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے تو پھر اس عبادت کی کیا معنویت ہوسکتی ہے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ اگر خدا یا خدا کی موجودگی کا احساس ہمارے وجود کا حصہ نہیں ہے تو پھر اس سے ہمارا تعلق بھلا تعلق کہلانے کا مستحق کیوں کر ہوسکتا ہے!
ہمارے مذہب نے حقوق العباد پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ خون کے قریبی رشتوں کے علاوہ دوسرے انسانوں خاص طور پر پڑوسیوں کے جو حقوق بیان ہوئے ہیں ان سے آپ مجھ سے زیادہ اچھی طرح واقف ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ ان حقوق پر اتنا زور کیوں دیا گیا؟ ایک جواب تو یہ ہے کہ ایک صحت مند معاشرے کے قیام کے سلسلے میں ان حقوق کو اتارا گیا ہے، مگر ذرا سوچیے کہ آپ اپنے پڑوسی کا خیال تو رکھتے ہیں، طوعاً و کرہاً اس کے کام بھی آتے ہیں مگر آپ کا اپنے پڑوسی سے حقیقی رابطہ نہیں ہے یعنی وہ کسی بھی درجے پر آپ کے وجود کا حصہ نہیں ہے تو پھر ان حقوق کی ادائیگی کتنی بے معنی ہوجاتی ہے! ایسی صورت میں حقوق کی ادائیگی بھی آپ کے اندر وہ کیفیات پیدا کرنے میں ناکام رہے گی جن کا تذکرہ ہم نے کیا ہے، اور جو انسان اپنے جیسے انسانوں کو اپنے وجود کا حصہ نہیں بنا سکتا وہ بھلا خدا کو اپنے وجود کا حصہ کیسے بنائے گا؟
رابطے کی ایک اور خصوصیت کا تذکرہ ضروری ہے، اور وہ یہ کہ دوسرے وجود سے رابطے کی صورت میں آپ اُس کے اور وہ آپ کے وجود کے مختلف معلوم اور نامعلوم گوشوں کے انکشاف اور ان کے درمیان زیادہ ہم آہنگ تعلق کا سبب بنتا ہے اور وہ اس طرح کہ جب آپ کسی سے رابطہ استوار کرتے ہیں تو اس رابطے کی استواری کو مزید مستحکم بنانے کے لیے کچھ تقاضے پیدا ہوجاتے ہیں، یہ تقاضے آپ کو اپنے وجود کے اندر زیادہ گہرائی میں اترنے پر مجبور کرتے ہیں کیونکہ آپ کی خواہش ہوتی ہے کہ آپ ان تقاضوں کو ہر صورت میں پورا کریں۔ یوں یہ رابطہ فریقین کے لیے انکشافِ ذات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
انسانی زندگی میں شعر و ادب کی اہمیت بھی اسی لیے ہے کہ یہ انسان اور انسان، انسان اور خدا، انسان اور فطرت کے درمیان موجود پراسرار اور نامعلوم رابطوں کی تلاش اور معلوم رابطوں کے استحکام اور بحالی کا کام انجام دیتے ہیں اور نئے رابطوں کی تشکیل کرتے ہیں، اور اگر یہ ان رابطوں کے منقطع ہونے کی خبر بھی دیتے ہیں تب بھی ان کا تعلق رہتا رابطوں سے ہی ہے۔ اس اعتبار سے ان کا دائرہ دراصل رابطوں کا دائرہ ہے۔ ان کی اہمیت اس لیے بھی بہت ہے کہ ان کے اندر انسانی وجود کے تمام حصے ظاہر ہوتے ہیں، یا یہ کہ ان کے اندر انسانی وجود کے ہر حصے کے ظاہر ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔ دوسرے علوم یہ تمام فرائض انجام دینے سے قاصر ہیں۔
اب آپ ایمان داری کے ساتھ ایک سوال کا جواب دیجیے۔ کیا آپ کے اندر ایسے کسی رابطے کی استواری کی خواہش موجود ہے؟ ہمیں یقین ہے کہ اگر ہمارے قارئین ایمان داری سے کام لیں تو ان کی اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا۔ ہماری اس بدگمانی کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں انسانی زندگی کی جو عملی صورتِ حال ہے وہ اس بات کا ایک ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت اس طرح کی خواہش سے بے نیاز ہے۔ بلکہ ہم نے غلط کہا، دنیا بھر کے انسانوں کی اکثریت اس خواہش سے بے نیاز ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت کی زندگیاں اپنے تخلیقی عنصر سے محروم ہو چکی ہیں۔ ہمارے وجود کے دروازے کسی دوسرے وجود کے لیے بند ہوچکے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم خود اپنے لیے بھی اپنے وجود کے دروازے بند کرچکے ہیں۔ ہم گویا ایسے بند مکانات کی طرح ہیں جن میں برسوں سے تازہ ہوا کا کوئی جھونکا نہیں آیا، روشنی کی کوئی کرن نمودار نہیں ہوئی۔
اس رجحان نے مغرب میں تو باقاعدہ فلسفوں کی صورت اختیار کی ہے۔ فرانس کے ممتاز فلسفی اور بقول سلیم احمد کے، مغرب کی مادی تہذیب کے آخری صورت گر‘ ژاں پال سارتر کا مشہورِ زمانہ فقرہ ہے کہ Hell are the other Peoples (دوسرے لوگ ہمارا جہنم ہیں)۔ ظاہر ہے کہ اگر دوسرے لوگ ہمارا جہنم ہیں تو بھلا پھر ان سے رابطے کا کیا سوال؟ خدا کا تو خیر انہوں نے پہلے ہی انکار کردیا ہے۔ دوسرے انسان جہنم بن گئے تو پھر رابطے کے لیے ایک ہی چیز رہ گئی، اور وہ ہے مادہ… سو وہ مادے کے ساتھ ہر طرح کا رابطہ استوار کررہے ہیں۔
مگر ہم جو ایک مذہب کے پیروکار ہیں، مادے کی محبت میں کیوں مبتلا ہیں؟ دوسرے لوگ ہمارے لیے بھی کیوں جہنم بن گئے ہیں؟ آپ لاکھ اپنے معاشرے کے مذہبی ہونے کے دعوے کریں، مگر آپ کا معاشرہ اپنی روح میں سر سے پائوں تک ایک غیر مذہبی معاشرہ ہے، اس لیے کہ اس میں حقیقی رابطے کی خواہش دم توڑ چکی ہے۔
میر تقی میرؔ کو ان کے والد نے تلقین کی تھی کہ بیٹا عشق کرو۔ ہمارے معاشرے کے والدین اپنے بچوں کو تلقین کرتے ہیں کہ اچھا عہدہ، اچھا منصب اور اچھی تنخواہ حاصل کرو۔ ہمارا پورا نظامِ تعلیم، ہمارا پورا معاشرتی ڈھانچہ، ہماری زندگی کا ہر ہر گوشہ ہمیں پیسے کے عشق میں مبتلا ہونے کی تلقین کرتا ہوا بلکہ ہم پر شدید دبائو ڈالتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ تلقین ہمارے ہر مذہبی دعوے کی تکذیب کرتی ہے، اور نہ صرف یہ بلکہ ہمارے اندر رابطے کی حقیقی خواہش کو بھی معدوم سے معدوم تر کرتی ہے۔ پیسہ فی نفسہٖ بری چیز نہیں ہے کیوں کہ یہ بھی ہماری زندگی کے مختلف رابطوں کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے، مگر صرف اسی صورت میں جب پیسہ بجائے خود ہمارا مقصد نہ ہو بلکہ یہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا کام انجام دیتا ہو۔ تاہم جب پیسے کا حصول بجائے خود زندگی کا مقصد بن جائے تو پھر یہ رابطوں کو قائم کرنے کے بجائے انہیں توڑنے کا کام انجام دینے لگتا ہے۔
آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشادِ مبارک تو یاد ہوگا، جس میں آپؐ نے فرمایا تھا کہ ’’تمام امتوں کا ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔‘‘
کوئی ہے جو اس فتنے کی مذمت کرے؟ یعنی اپنی مذمت کرے! اور کوئی ہے جو انسانی زندگی کے تخلیقی عنصر کی بحالی کے کام کا آغاز کرے کہ اس کے بغیر کوئی سچا مذہبی احساس اور کوئی حقیقی انسانی تہذیب پیدا نہیں ہوسکتی۔