رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نظام سیاست

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی یا ان کے نظامِ سیاست پر گفتگو کی جاتی ہے تو لوگوں کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک روحانی پیشوا اور رسولِؐ خدا تھے۔ عبادت اور تعلق باللہ کے داعی تھے۔ ان سے پہلے جو رسول دنیا میں تشریف لائے، وہ بھی روحانی پیشوا تھے۔ سیاست سے ان کا کیا تعلق ہے اور ان کی سیاسی زندگی کا مطلب کیا ہے؟یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ آج کے زمانے میں سیاست کی جو شکل و صورت ہمارے سامنے موجود ہے، وہ ظلم و زیادتی، جھوٹ، فریب، دھوکے اور وعدہ شکنی پر قائم ہے۔ اس میں بدعنوانی اور انسانوں کا استحصال بھی شامل ہے۔ اس سیاست میں جو لوگ شامل ہیں خواہ انتخابی سیاست ہو یا آمرانہ سیاست… ان کے بارے میں لوگوں کی رائے اچھی نہیں ہے۔ لہٰذا ایسی سیاست سے نبی اور رسول کا تعلق کیسے ہوسکتا ہے!

’سیاست‘ عربی زبان کی ایک اصطلاح ہے، جس کے معنی اصلاحِ ذات، اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ حکومت کے ہیں: اَلْقِیَامُ عَلَی الشَّیْ ءِ بِـمَا یَصْلُحُہٗ (الزبیدی، تاج العروس، ج۱۶،ص ۱۵۷)

سیاست کا مطلب ایسی تدبیر کرنا ہے جس سے کسی چیز کو استحکام مل جائے، اس کی اصلاح ہوجائے اور وہ اپنی اصلی حالت پر قائم ہوجائے۔ معروف معنی میں سیاست کا مفہوم ملک اور عوام کی اصلاح ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”بنی اسرائیل کی سیاست، یعنی قیادت انبیاء کرام فرماتے تھے۔ جب کوئی نبی انتقال کرجاتے تو ان کی جگہ دوسرے نبی آتے، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا البتہ خلفاء ہوں گے۔“(صحیح البخاری، کتاب الانبیاء: ۳۲۸۶)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دنیا میں دو طرح کے مذاہب اور نظریے تھے۔ ایک تو یہ تھا کہ اگر آپ روحانیت چاہتے ہیں تو ’رہبانیت‘ اختیار کریں، یعنی دنیا سے کنارہ کشی کریں۔ اور اگر آپ سیاست کو دیکھنا چاہتے ہیں تو ملوکیت کی طرف دیکھیں۔ چنانچہ حضرت عیسیٰؑ کی طرف یہ جملہ منسوب ہے کہ ”جو خدا کاہے وہ خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو‘‘۔ یعنی خدا کے حقوق الگ تھے اور قیصر کے حقوق الگ تھے۔ یہ تقسیم خدا اور قیصر کے حقوق کے درمیان تھی۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے، تو آپ ؐ نے اس تفریق کو مٹایا اور دنیا کو یہ نظریۂ حکومت دیا کہ انسان زمین کا ’مالک‘ نہیں بلکہ ’امین‘ ہے۔ کوئی چیز انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہے بلکہ ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے۔ انسان اس کا امانت دار ہے۔ اقتدارِ اعلیٰ اور حاکمیتِ مطلقہ صرف اللہ کے لیے ہے، باقی سارے انسان اس کے بندے اور غلام ہیں۔ آپ ؐ نے اللہ کا یہ پیغام انسانوں تک پہنچایا:

وَہُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰہٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰہٌ ۝۰ۭ وَہُوَالْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ۝۸۴ (الزخرف ۴۳ : ۸۴) ”وہی خدا جوآسمان میں معبود ہے وہی زمین میں بھی معبود ہے او روہ حکمت اور علم والا ہے۔“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو حکومت سازی کایہ نظریہ دیا:
اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۝۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۝۵۴ (الاعراف ۷: ۵۴)جس نے پیدا کیا ہے، اس کی مخلوق پر حکم اسی کا چلے گا۔بابرکت ہے اللہ تمام جہانوں کا ربّ۔

چوںکہ انسانوں کو پیدا اللہ تبارک وتعالیٰ نے کیاہے، اس لیے اس کی مخلوق پر کسی اورکا حکم نہیں چلے گا بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہی حکم چلے گا۔

مستشرقین کی غلط فہمی: بیسویں صدی میں مشہور برطانوی مستشرق منٹگمری واٹ نے دو کتابیں لکھیں: Mohammad at Mecca اور Mohammad at Madeena پھر ان دونوں کتب کو ایک مجموعے Mohammad Prophet and Statesman کے نام سے شائع کیا۔ موصوف نے یہ فتنہ پھیلایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نعوذباللہ مکہ مکرمہ میں تو ایک داعی، ایک روحانی پیشوا اور ایک پیغامبر تھے، لیکن جب وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں نعوذباللہ وہ ایک حکمران تھے، ایک آمر تھے(محمد پرافٹ اینڈ اسٹیٹسمین، ۲۰۱۰ء)۔یہ فتنہ انھوں نے اس لیے پھیلایا کہ ان کی تعلیم و تربیت میں مذہب اورسیاست کی دوئی شامل ہے۔ ان کے سامنے عیسائیت کی تاریخ ہے۔ وہاں خدا کا اقتدار اور اختیار الگ ہے اور قیصر کااقتدار واختیار الگ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت نہیںکرسکتے۔ اسی تناظر میں واٹ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کودیکھا۔

اسی طرح ٹائن بی (۱۸۸۹ء- ۱۹۷۵ء) معروف عیسائی تاریخ نویس نے ریاست مدینہ کے قیام کی تعبیر کرتے ہوئے لکھا:’’اس میں شک نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ میں حکومت قائم کرنے کی دعوت قبول کی تو انھوں نے اپنے ضمیر کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیا کہ وہ اللہ کی راہ میں پوری دلجمعی کے ساتھ گامزن ہیں…. [حالانکہ] وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے تھے۔‘‘ (A Study of History،ج۳، ص ۴۷۱، ۱۹۶۱ء)۔اس طرح ٹائن بی کم فہمی اور بدترین تعصب کا شکار ہوکر، رسولِ کریمؐ کی حیاتِ طیبہ اور قرآنِ عظیم کے پیغام کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے میں ٹھوکر کھاتا ہے۔

اس ڈگر میں استثناء مائیکل، ایچ ہارٹ کاہے کہ جب اس نے انسانی تاریخ کے سو عظیم رہنماؤں کے حالات لکھے، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سرفہرست رکھا اور وجہ یہ بیان کی کہ ’’وہ واحد انسان ہیں جو مذہب اور سیاست دونوں سطح پر یکساں طور پر کامیاب قائد ہیں‘‘۔(The 100 ص۳۳)

دین و دُنیا کی یکجائی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ میں اسلام کی دعوت دی تو پہلے دن سے یہ بات ظاہر کردی تھی: سجدہ بھی خدا ہی کو کیا جائے گا اور حکم بھی خدا ہی کا مانا جائے گا، اور اقتدار بھی اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کا تسلیم کیا جائے گا۔ جواب میں کفار نے آپ کی شدید مخالفت کی۔ پتھر برسائے، گالیاں دیں، جان لیوا حملے کیے، لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت جاری رکھی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت ان کفار نے حضرت ابوطالب سے کی جو آپ کے چچا تھے۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبلایا اور کہا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنی دعوت سے باز آجائیں ورنہ یہ آپ کو نقصان پہنچائیں گے۔ آپ ؐ نے ان لوگوں کو ایک جواب دیا اور فرمایا:

”میں تم سے ایک کلمہ کہلوانا چاہتا ہوں۔ اگر اس کو کہہ دوگے تو تم عرب کے اقتدار کے مالک ہوجاؤ گے اور تمھاری باج گزاری عجم کے لوگ بھی کریں گے۔“(سیرۃ النبی، ابن ہشام، ج۳، ص۲۷، دارالفکر)

یعنی جو کلمہ میں تم سے کہلوانا چاہتا ہوں اس کلمے میں یہ قوت ہے کہ اس کے ذریعے اقتدار عرب کا ہو یا عجم کا ہو وہ تمھارے قبضے میں آجائے گا۔ کفار کی نمائندگی ابوجہل کررہاتھا۔ اس نے کہا کہ اے بھتیجے! ایسا وہ کون سا کلمہ ہے جو تم ہم سے کہلوانا چاہتے ہو؟ ایسا ایک نہیں ہم دس کلمے کہنے کے لیے تیار ہیں۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو لاالٰہ الااللّٰہ اور اس کے علاوہ تمام بتوں کی پرستش چھوڑ دو۔ کفار یہ سنتے ہی مشتعل ہوگئے۔ ابوجہل نے کہا:

”اے محمدؐ! کیسی بات کرتے ہو، ہم لوگ متفرق بتوں کو پوجنے والے ہیں، کیا تم چاہتے ہو کہ ہم سارے دیوتاؤں کوچھوڑ کر ایک خدا کومان لیں؟ یہ بڑی عجیب بات ہے۔“ (ایضاً)

کفار مکہ کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دین کی دعوت دی وہ یہ تھی کہ اگر تم ایک خدا کو مان لوگے، تو صرف آخرت میں جنت ہی نہیں ملے گی بلکہ دنیا کا اقتدار بھی تمھارے ہاتھ میں ہوگا۔ دنیا کا اقتدار اُن لوگوں کے ہاتھ میں تھا جو ظالم تھے، اور کمزوروں کا استحصال کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جس دین کے ساتھ بھیجا اس میں نہ صرف آخرت کی کامیابی اور سعادت شامل تھی بلکہ انسانوں کی دنیاوی راحت اور سعادت بھی شامل تھی۔ مگر کفار نے اپنا عناد جاری رکھا۔ کفار کی مخالفت کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعوت پر قائم رہے یہاں تک کہ آپؐ کو مکہ چھوڑنا پڑا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت فرمائی تو کفارِ مکہ نے اعلان کیا کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرکے لائے گا، اس کے لیے سو اونٹوں کا انعام مقرر ہے۔ بہت سے لوگ آپؐ کے تعاقب میں دوڑے۔ دوڑنے والوں میں ایک شخص تھا جس کا نام سراقہ بن مالک تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا۔ اُس وقت آپ غارثور میں تھے۔ پتھریلی زمین میں اس کا گھوڑا دھنس گیا۔ اس نے محمدؐ سے دعا کی درخواست کی، آپؐ کی دعا سے اسے مصیبت سے نجات ملی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:”سراقہ وہ دن کیسا ہوگا جب کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے؟“ اس کویقین نہیں آیا۔ اس نے کہا کہ ”کیا کسریٰ بن ہرمز کا کنگن میرے ہاتھوں میں ہوگا؟“ آپ ؐ نے فرمایا کہ ”ہاں کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے۔“ (السیرۃ الحلبیہ، از علی بن الحلبی،ج۲، ص۴۵، بیروت)۔

حضرت عمر فاروقؓ کے زمانۂ خلافت میں ایران فتح ہوا۔ مالِ غنیمت خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ مالِ غنیمت میں کسریٰ کا کنگن بھی تھا۔ حضرت عمرؓ نے سراقہ بن مالک کو بلایا اور کسریٰ کا کنگن ان کے ہاتھ میں پہنایا اور ان سے فرمایا: کہو:

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ سَلَبَہُمَا مِنْ کِسْرٰی بْنِ ھُرْمُزَ الَّذِیْ کَانَ یَقُوْلُ اَنَـا رَبُّ النَّاسِ (السیرۃ الحلبیہ) تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے یہ کنگن کسریٰ سے چھین لیے جو یہ کہتا تھا کہ میں لوگوں کا پروردگار ہوں۔

عَصَیْبَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ یَفَتَتِحُوْنَ اَلْبَیْتَ الْاَبْیَضَ بَیْتَ کِسْریٰ (مسلم، کتاب الامارۃ: ۳۴۸۶) مسلمانوں کی ایک جماعت کسریٰ کے دارالحکومت کو فتح کرلے گی۔

کسریٰ کی حکومت مسلمانوں کی حکومت ہوگی اور رستم کی جگہ ایک مسلم حکمراں وہاں حکومت کرے گا۔ جس طرح لوگوں کو سورج کے نکلنے کا یقین ہوتا ہے، اسی طرح صحابہ کرامؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی پر یقین تھا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی کہ وہ کلمہ طیبہ جس کے لیے ہمیں مکہ مکرمہ سے نکالا جارہا ہے، ہمارے اصحاب کو گھروں سے نکالا جارہا ہے اور ہمیں ہماری سرزمین سے بے دخل کیا جارہا ہے، ایک وقت آئے گا کہ صرف مکہ ہی فتح نہیں ہوگا بلکہ دنیا کی سب سے بڑی شہنشاہیت ایران یا عجم یاکسریٰ مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوگی۔ ہجرت پر روانگی کے وقت آپ ؐ نے دعا فرمائی :

رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا۝۸۰ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) اے رب! اگر تُو داخل کرے تو سچائی کے ساتھ، اور اگر مکہ سے نکال رہا ہے تو سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت اور ہجرت سے واضح کردیا کہ اقتدار اللہ کا ہے اور اس کے صالح بندے اس اقتدار کے حق دار ہیں۔ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُہَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ۝۱۰۵ (الانبیاء۲۱:۱۰۵) ’’زمین کے اقتدار کے وارث نیک بندے ہوں گے‘‘۔ مکہ میں مومنوں کو ایک طرف بہت مارا گیا اور دوسری طرف مداہنت کی کوششیں بھی کی گئیں۔ کفار چاہتے تھے کہ کچھ آپؐ جھک جائیں اور کچھ ہم جھک جائیں، لیکن آپ ؐ نے شرک کی آمیزش کو قبول نہیں کیا۔

اس نظام کو قائم کرنے کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر جس ریاست کی بنا ڈالی اس کی بنیادی خصوصیات کے بارے میں پروفیسر یاسین مظہر صدیقی لکھتے ہیں:

’’۱۲؍ربیع الاول پہلی ہجری، ۱۴ستمبر ۶۳۳ء کو جس اسلامی ریاست کی داغ بیل پڑی تھی، وہ دوسری دنیاوی سلطنتوں اور حکومتوں اور ریاستوں کی مانند ایک اور دنیاوی ریاست یا حکومت نہ تھی، بلکہ وہ ایک ایسی مثالی ریاست اور قابلِ تقلید حکومت تھی، جس کی بنیادیں خدائے قادرِ مطلق کی حاکمیت ِاعلیٰ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابتِ خداوندی، امتِ مسلمہ کی اخوت و مساوات اور احترام ومحبت،بنی آدم کے عظیم اصولوں اور عملی نمونوں پر قائم کی گئی تھیں۔ یہی وہ بنیادی خصوصیات ہیں جو اسلامی ریاست وحکومت کو اپنی تمام تر پیش رو اور جانشین حکومتوں اور ریاستوں میں ممتاز کرتی ہیں‘‘(عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت، محمد یاسین مظہر صدیقی، ص ۲۱)۔

سیاسی حکمت عملی:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کے چار پہلو تھے:
پہلا یہ کہ مشرکوں کی مخالفت کے اس طوفان میں عفو و درگزر کیجیے، جتنی پریشانیاں آتی ہیں، جتنے طنز کے تیر چلتے ہیں ان کو نظرانداز کیجیے، ان کی دشنام طرازیوں کو نظرانداز کیجیے۔ کفار جو اذیتیں آپ کودیتے ہیں ان کو نظر انداز نہ کرسکیں تو پھر اس دعوت کے میدان میں قدم رکھنا اور اپنے آپ کو مومن کہناسود مند نہیں ہوگا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حکمت عملی کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ مشرکوںکے ظلم پر صبر کیجیے۔ پتھر کے جواب میں پتھر نہیں برسانابلکہ اولوالعزم رسولوںؑ کی طرح صبر کرناہے:

فَاصْبِرْ كَـمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ۝۰ۭ (الاحقاف۴۶: ۳۵) آپ صبر کیجیے جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا ہے اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کیجیے۔

چنانچہ آپ ؐ نے خود بھی صبر کیا اور صحابہ کرام ؓ کو بھی صبر کی تلقین فرمائی۔ حضرت عمار بن یاسرؓ اوران کی والدہ سمیہؓ کو ایذا دی جارہی تھی۔ آپؐ وہاں سے گزرے، آپؐ کی آنکھوں میں آنسو تھے، آپ ؐ نے ان مظلوموں کو دیکھااور فرمایا: آلِ یاسر صبر کرو، جنت کاوعدہ ہے (سیرۃ النبی، ابن ہشام، ج۱،ص ۳۴۲)۔کفارِ مکہ کے ہاتھ میں تلوار تھی، اور خون مسلمانوں کابہہ رہا تھا۔ آپ ؐ نے تلوار کامقابلہ صبرسے کیا۔

آپؐ کی سیاسی حکمت کا تیسرا پہلو یہ تھا کہ مکہ سے ہجرت کرو، اگر مکہ کی زمین تنگ ہوگئی ہے تو اللہ کی دوسری زمین کشادہ موجود ہے:

وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَۃً۝۰ۭ (النساء۴: ۱۰۰) جو شخص اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ منفعت اور وسعت پائے گا۔

چنانچہ صحابہ کرامؓ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور نجاشی کے ملک میں جاکر پناہ لی۔ پھر دوسری مرتبہ مسلمانوں نے مدینہ منورہ ہجرت کی اور وہاں جاکر زندگی بسر کی۔ اس کے بعد بھی جب کفار نے مسلمانوں کو نہیں بخشااور مدینہ میں چھاپہ مار کارروائیاں کیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم ہوا کہ اب مسلمانوں کو ہاتھ اُٹھانے کا حق مل گیا ہے اور ان کو اپنا دفاع کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکمت عملی کا چوتھا پہلو تھا:

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۝۰ۭ وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۝۳۹ (الحج ۲۲:۳۹)جن لوگوں پر ظلم کیا گیا، جن لوگوں کو ان کے گھروںسے نکالا گیا ہے، جن کو ماراپیٹا گیا ہے صرف اس لیے کہ وہ خدائے وحدہٗ لاشریک پر یقین رکھتے ہیں، ان کو آج اجازت دی جارہی ہے کہ وہ بھی ہتھیار اُٹھالیں اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلاب کے یہ چار پہلو تھے، جن کے ذریعے آپ ؐ نے دنیا کے اندر ایک ایسا نظام قائم کیا، جس میں اللہ کی حکومت، اللہ کی عبادت اور اس کی حاکمیت کو نافذ کیا گیا۔

قانون سازی کی بنیاد:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظریۂ حکومت دیا، اس میں قانون سازی کاحق صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہے۔ انسان اس کا اتباع کرنے کامجاز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۱۸ (الجاثیہ۴۵: ۱۸) ہم نے ایک ایسا نظامِ قانون، ایک ایسی شریعت اور ایک ایسا دستور آپ کو دیا ہے جس کا اتباع کرنا ہے اور نادانوں کے اتباع سے پرہیز کرنا ہے۔

قرآن کی شکل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے سامنے دستورِ حیات لے کرآئے اور اس کا اتباع کرنے کی دعوت دی۔ اس کے سوا دنیا میں جتنے قوانین ہیں وہ خواہشات، تجربات اور امیدوں پر مبنی ہیں۔ یہ غلطیوں کامجموعہ بھی ہوسکتے ہیں اور اچھائیاں بھی جزوی طور پر شامل ہوسکتی ہیں۔ لیکن قرآن کریم ایسا نظامِ قانون ہے جواللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور جس کا کوئی جز غلط نہیں ہوسکتا اور انسانوں کے لیے مضر نہیں ہوسکتا۔ قانون سازی کاحق اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو نہیں دیا بلکہ اپنے ہاتھ میں رکھا۔ یہ اس سیاست ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بنیاد تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کایہ پیغام بھی آپ ؐ نے لوگوں کو پہنچایا :

وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ۝۰ۭ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۝۰ۭ (الطلاق۶۵:۱) اللہ تعالیٰ نے کچھ حدود مقرر کی ہیں ان کی پابندی کرو۔ اگر پابندی نہیں کروگے تو تم اپنے آپ پر ظلم کروگے۔

اللہ کی شریعت اور اللہ کے قانون کو نظر انداز کرکے آج کا انسان ایک ظالمانہ نظامِ قانون کے اندر جکڑ گیاہے۔ جوقانون اللہ کے قانون سے ٹکراتا ہے وہ انسان کے لیے مفید نہیں ہوسکتا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” ہر مسلمان پر اپنے حاکم کی بات سننا اور ماننا لازم ہے بشرطیکہ وہ گناہ کا حکم نہ دے۔ اگر وہ گناہ کاحکم دیتا ہے تو سننا اور ماننا واجب نہیں۔“ (صحیح البخاری، کتاب الاحکام)

یعنی اللہ کی نافرمانی میں کسی انسان کی فرماں برداری نہیں کی جاسکتی۔ قانون سازی کا اختیار صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے مخصوص ہے، اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے بعد اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار دیا گیا۔ یہی اصل قانون ساز اور شارع ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا گیا:

وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ۝۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۷ (الحشر۵۹: ۷) اللہ کے رسول جو کچھ دیں اس کو لے لو اور جس چیز سے منع کردیں اس سے تم رُک جاؤ۔ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا انسان کو حکومت کرنے کا کوئی اختیار نہیں؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ انسان نائب ہے۔ حضرت آدم کے متعلق فرشتوں سے کہا: اِنِّیْ جِاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً (البقرہ ۲:۳۰) ’’میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔ خلیفہ وہ ہوتا ہے جو مالک کے قانون کو رد کرکے اپنا قانون نہ چلائے بلکہ اپنے مالک کے قانون کو دنیا کے اندر نافذ کرے۔ لہٰذا انسان کی ذمہ داری یہ ہے کہ جس اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، اس مالک کا حکم مانے اور اس کے حکم کو زمین میں نافذ کرے۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَــــوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۝۴۱ (الحج ۲۲: ۴۱) ”یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔“

یہ حکمران اور خلیفہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا حکم چلانے کے بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کو دنیا کے اندر نافذ کرے۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:

وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ۝۴۴ (المائدہ ۵: ۴۴) ”جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ کافر ہیں۔“

وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۴۵ (المائدہ ۵: ۴۵) ”جو لوگ اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ فاسق ہیں۔“

گویا، اللہ کے قانون کے برخلاف اپنا قانون چلانا، اللہ کے نظام کو چھوڑ کر اپنا نظام چلانا ظلم و زیادتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظام دیا اس کے اندر شخصی خواہشات اور شخصی حکم کی جگہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی مرضی کو نافذ کرنے کا بنیادی طور پر فلسفہ موجود ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ (النساء۴: ۵۹) ”اللہ کی اطاعت کرو، اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکمراں کی اطاعت کرو۔“

حکمراں کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس جگہ اللہ اور اس کے رسول کا کوئی حکم موجود نہ ہو، وہاں حکمراں کو قانون سازی کا اختیار دیا گیا ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا گورنر بنایا تو ان کو رخصت کرنے سے پہلے پوچھا کہ تم لوگوں کے معاملات میں فیصلہ کس طرح کروگے؟ انھوں نے جواب دیا کہ اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپؐ نے پوچھا کہ اگر وہاں نہ پاؤ تو کیا کرو گے؟ حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ ؐنے پوچھا کہ اگر وہاں بھی تم نہ پاؤ تو کیا کرو گے؟ حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ تب رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوتاہی نہیں کروں گا۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیہ)

مشاورت و شورائیت: اس نظام میں ’شورائیت‘ کو حکومت کرنے کا اصول قرار دیا گیا ہے۔ آمریت کی جگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شورائیت کو پسند فرمایا۔ مسلمانوں کا نظام حکومت آمریت پر مبنی نہیں ہوگا، شورائیت پر مبنی ہوگا۔ قرآن میں ہے وَاَمْرُھُمْ شُورٰی بَیْنَہُمْ (الشوریٰ۴۲:۳۸) ’’مسلمانوں کے معاملات شوریٰ سے طے ہوں گے، مشورے سے چلیں گے‘‘۔ یعنی حکومت سازی کے اندر اور کاروبارِ حکومت کوچلانے کے لیے تمام اہل الرائے کی شرکت ہوگی۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ایک شخص اپنی مرضی کے مطابق حکم چلائے، باقی سب لوگ سرجھکاکر اس کی اطاعت کرنے لگیں۔ دوسرا اصول آزادی پر مبنی ہے۔ اس نظام میں ایسا نہیں ہوگا کہ کچھ لوگ غلام ہوں گے اور کچھ لوگ آزاد ہوں گے، بلکہ تمام انسان مساوی ہیں، کسی کو کسی کے اوپر فضیلت نہیں ہے سوائے تقویٰ کے۔ اللہ نے تمام انسانوں سے فرمایا:

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝۰ۭ (الحجرات ۴۹: ۱۳) ”لوگو تم کو ہم نے ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، پھر تمھارے قبیلے بنائے، تمھاری برادریاں بنائیں تاکہ تم باہم متعارف ہوسکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں بہتر وہ ہیں جو خدا ترس ہیں۔“

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کچھ لوگ پیدائشی طور پر افضل ہیں اور کچھ لوگ پیدائشی طور پر ارذل۔ حقیقی عزت والے اللہ کی نظر میں وہ لوگ ہیں، جن کے اندر خداترسی، خشیت اور انابت ہے، جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ گویا فضیلت کا معیار تقویٰ ہے، ذات اور برادری نہیں۔ انسانوں کے مابین مساوات کا آخری مرتبہ اعلان آپ ؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:

”تم میں سے کسی عربی کو کسی عجمی کے اوپر فضیلت ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر، نہ کسی گورے کو کسی کالے پر سوائے تقویٰ کے۔“ (فتح المنعم بشرح صحیح المسلم)

جن لوگوں میں خداترسی زیادہ ہے، وہ اللہ کی نظر میں سب سے بلند ہیں، اور جن میں خداترسی نہیں ہے، جو خدا سے نہیں ڈرتے اُن سے انسانوں کوڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر سارے انسان برابر ہیں تو سب کو آزادی ملنی چاہیے۔ اظہار رائے کی آزادی، عمل کی آزادی، فکر کی آزادی ملنی چاہیے۔ ایک موقع تھا کہ مصر کے گورنر کی شکایت ایک بدو نے حضرت عمرؓ کے سامنے کی کہ انھوں نے ناحق ان کو مارا ہے۔ آپ نے انھیں بلایا اور بہت تاریخی جملہ فرمایا، آپ نے فرمایا:

”کب سے تم نے لوگوں کو غلام بنانا شروع کیا ہے؟ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد پیدا کیا تھا۔“(کنزالعمال، ج۱۲،ص ۶۶۱)

یہ آزادی انسان کابنیادی حق ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کو مجمع عام میں ایک شخص ٹوکتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ یہ بتادیں کہ سب کو مالِ غنیمت میں ایک ایک چادر ملی تھی۔ آپ کو دوچادریں کیوں ملیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے بیٹے عبداللہ کی چادر حاصل کی ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے گواہی دی (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرہ، ج۲،ص ۵۶، مصر)۔ یہ نظام قانون، یہ مساوات، یہ آزادی اور حریت دنیا کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کی۔

عدل و انصاف: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست کا تیسرا اصول یہ تھا کہ کسی انسان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ کی جائے، خواہ وہ دوست ہو یا دشمن۔ انصاف وہ قدر ہے جس کے اوپر آسمان و زمین قائم ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظام سیاست کا یہ آفاقی اصول دیا:

”کسی قوم کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو یہ تقویٰ سے قریب ہے۔“(المائدہ۵: ۸)

اسلام انسانوں کے درمیان منصفانہ نظام قائم کرنے اور ان کے ساتھ انصاف کا سلوک کرنے کے لیے آیا ہے۔ جو نظامِ حکومت اللہ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دیا، اس کی اساس مساوات، آزادی اور انصاف پر قائم ہے۔ جہاں بھی اسلامی حکومت ہوگی اس کا بنیادی فرض ہوگا کہ وہ انسانوں کو انصاف عطا کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں انصاف کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔

انسانی حقوق کا تحفظ: اللہ کے رسولؐ نے جو نظام سیاست دنیا کو دیا اس کا چوتھا اصول یہ تھا کہ انسانی حقوق کی پاسبانی کی جائے۔ انسانی حقوق کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ جس کا جو حق ہے وہ حق اس کو عطا کیا جائے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”تمھارا خون، تمھارا مال اور تمھاری عزت ایک دوسرے کے اوپر حرام ہے، اور ان کی حرمت کیسی ہے؟ جیسے آج کادن، آج کا شہر اور آج کا مہینہ۔ جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ حکم دوسروں تک پہنچادیں۔“ (صحیح البخاری، کتاب العلم:۶۷)

مکہ مکرمہ، ذی الحجہ کا مہینہ اور یوم النحر کا جو تقدس ہے، اسی طرح انسانی جانوں اور مالوں کا تقدس ہے، اور انسانی عزتوں کو تحفظ حاصل ہے۔ دنیا میں ناحق نہ کسی کا خون بہایا جاسکتا ہے، نہ ناحق کسی کا مال کھایا جاسکتا ہے، اور نہ ناحق کسی کی عزت لی جاسکتی ہے۔ یہ آفاقی پیغام ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظام حکومت دنیا کو دیا وہ ایک رفاہی نظام تھا۔ آمریت کا نظام نہیں تھا اور ظلم و استحصال سے پاک تھا۔ اس میں ہر شخص خواہ وہ عورت ہو، مرد ہو، غلام ہو، غریب ہو، نادار ہو.. ان کے حقوق کی رعایت کی جاتی تھی۔ آپ ؐ نے فرمایا:

”بیواؤں اور ناداروں کی خدمت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔“ (صحیح البخاری، کتاب النفقات: ۵۰۴۴)

یہ تو زندہ انسانوں کی خدمت و راحت کے بارے میں فرمایا۔ مُردہ انسان کے بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”جو شخص مرگیا اور وہ قرض دار تھا تو اس کا قرض میں ادا کروں گا، اور جو شخص مال چھوڑ کر مرا تو اس کا مال اس کے وارثوں کو ملے گا۔“ (صحیح البخاری، کتاب الفرائض: ۶۳۶۲)

کیا دنیا میں کوئی مثال اس حکومت کی ملے گی کہ مرنے والا اگر قرض دار ہو تو اس کے قرض کی ادائی حکومت کرے گی؟

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں رفاہی حکومت قائم کرنے کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے بادشاہوں سے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ ان کو اسلام لانے کی دعوت دی اور اسلامی حکومت کو تسلیم کرنے اور اس کی تابع داری کرنے کی نصیحت کی۔ کیوںکہ یہ ایک مثالی حکومت تھی اور دنیا کی تمام حکومتوں کے لیے قابلِ تقلید نمونہ تھی۔ چنانچہ حسب ذیل بادشاہوں کے پاس اپنے سفیروں کو بھیجا۔ قیصرروم ہرقل کے پاس حضرت دحیہ کلبیؓ کو بھیجا۔ ایرانی شہنشاہ کسریٰ کے پاس عبداللہ ابن حذافہ السہمیؓ کوبھیجا۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس عمر و بن امیۃ الضمریؓ کو بھیجا۔ غسان کے بادشاہ حارث بن شمر کے پاس شجاع بن وھب الاسلمیؓ کو بھیجا۔ یمامہ کے بادشاہ ہوذہ بن علی الحنفی کے پاس سلیط بن عمرو العامریؓ کو بھیجا۔ بحرین کے بادشاہ منذر بن ساوی کے پاس العلاء بن حضرمی ؓ کو بھیجا۔ عمان کے بادشاہ جیفر اور عبد (دونوں بھائی) کے پاس عمرو بن العاصؓ کو بھیجا۔ (سیرۃ النبیؐ، ابن ہشام، ج۴، ص ۲۷۸)

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سفیروں نے نہایت جرأت، حکمت اور بصیرت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ان بادشاہوں کے سامنے رکھا، اور ان کو دینِ اسلام اور اسلامی حکومت کی اطاعت کرنے کی دعوت دی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیروں کا یہ پیغام بین الاقوامی سفارت کاری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ ”رسولِ اکرمؐ کی سیاسی زندگی“ میں رقم طراز ہیں:

”جس ملک میں کبھی کوئی حکومت ہی قائم نہیں ہوئی تھی اس میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دستورِ مملکت مرتب کیا اور جو نظامِ حکمرانی قائم فرمایا، اس پر عمل دنیا کی عظیم الشان مملکت کے لیے نہ صرف ہر طرح کارآمد و کافی ثابت ہوا بلکہ جب تک اس پر عمل رہا وہ دنیا کی مہذب ترین حکومت بنی رہی“۔ (ص۱۵)

جواب دہی کا احساس: اس نظام حکومت کو قائم کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذمہ داری اور جواب دہی کا تصور پیدا کیا۔ آپ نے فرمایا:

”یاد رکھنا تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور ہر شخص کو اپنی زیر نگرانی رعیت کے بارے میں اللہ کے یہاں جواب دینا ہے۔“(صحیح البخاری،کتاب الاحکام)

امت مسلمہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ اعزاز دیا:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ (البقرہ۲:۱۴۳) ”اسی طرح ہم نے تم کو امتِ وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔“

جو لوگ صاحبِ اختیار اور صاحبِ اقتدار ہیں، وہ خود کو اس دنیا کا مالک نہ جانیں، بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ امانت دار ہیں اور اللہ کے حضور جواب دہ ہیں۔ اگر حکمرانوں میں جواب دہی کا احساس پیدا ہوجائے تو دنیا کے اندر امن قائم ہوجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کا جلوہ دنیا کو نظر آجائے۔

آج لوگ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داری کی بات نہیں کرتے۔ ہرشخص کو اس کا حق چاہیے لیکن اس پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے سے آدمی کتراتا ہے۔ اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں پر انسان نظر رکھے۔ یعنی حکمراں ہے تو وہ اپنی ذمہ داریوں پر نظر رکھے، اگر وہ رعایا ہے تو اپنی ذمہ داریوں پر نظر رکھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جنگیں بھی ہیں، معاہدے بھی ہیں، امن بھی ہے، بین الاقوامی تعلقات بھی ہیں… ان کو پڑھیے اور دیکھیے کہ آپ ؐ نے غیر مسلم دنیا کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا، کن اصولوں پر معاملہ کیا تھا؟ آج دنیا میں بے اصولی پائی جاتی ہے۔ نہ جنگ میں اصول ہے، نہ صلح میں اصول ہے، نہ امن میں اصول ہے اور نہ معاہدوں میں اصول ہے۔ کسی چیز میں اصول کی پابندی نہیں کی جاتی۔ پابندی جس چیز کی کی جاتی ہے وہ اپنا مفاد ہے۔ اگر مفاد ہو تو امن کی بات آدمی کرتا ہے، اور اگر مفاد نہ ہو تو جنگ کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ مفاد کی خاطر معاہدے توڑ دئیے جاتے ہیں، غداری کی جاتی ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو ایسا نظام دیا جس میں ذاتی مفاد کی جگہ عام انسانوں کا مفاد اور اس سے بڑھ کر اللہ کی مرضی کو سربلند کرنے کی کوشش کی گئی۔

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’سیاست کو مفاد اور اغراض کے بجائے اخلاق کے تابع کرنا اور اسے خداترسی و پرہیزگاری کے ساتھ چلانا اس ریاست کی اصل روح ہے۔ اس میں فضیلت کی بنیاد صرف اخلاقی فضیلت ہے۔ اس کے کارفرماؤں اور اہلِ حل و عقد کے انتخاب میں بھی ذہنی و جسمانی صلاحیت کے ساتھ اخلاقی پاکیزگی سب سے زیادہ قابلِ لحاظ ہے۔ اس کے داخلی نظام کا بھی ہر شعبہ دیانت و امانت اور بے لاگ عدل و انصاف پر چلنا چاہیے اور اس کی خارجی سیاست کو بھی پوری راست بازی، قول وقرار کی پابندی، امن پسندی اور بین الاقوامی عدل اور حسنِ سلوک پر قائم ہونا چاہیے‘‘۔(خلافت و ملوکیت، ص۵۴)

اگر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنالیں، ان کے حکمران رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں اور ان کے علما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں، ان کے تجار رسولؐ کی سیرت کو اپنائیں اور ان کے طلبہ اور عوام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں اور ان کے پیغام کو دنیا تک پھیلانے کی کوشش کریں، تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا سے بدامنی کم ہوگی، جہالت کی تاریکی دور ہوگی اور ظلم کے اندھیرے چھٹ جائیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو حکمرانِ مطلق نہیں بنایا بلکہ اس کو امین بنایا، اس کو قانون کا پابند بنایا۔ اللہ کی خشیت اور ذمہ داری اور جواب دہی سے جوڑا۔ اگر انسان جواب دہی اور اس ذمہ داری کو محسوس کرلے اور اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت شامل ہوجاتی ہے۔ اور جو شخص خواہش کی بنیاد پر حکومت طلب کرے تو وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوجاتا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن سمرۃؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ’’کبھی حکومت کی تمنا نہ کرنا، اگر تمنا کرنے سے یا خواہش کرنے سے تم کو اقتدار ملے گا تو تم اس کے حوالے کردیے جاؤگے، اور اگر تمھاری خواہش کے علی الرغم تم کو دی جائے تو اللہ کی مدد تمھارے اوپر آتی ہے(صحیح البخاری)۔ چنانچہ جولوگ اللہ کے حکم کے مطابق حکومت کرتے ہیں، اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنے کے لیے، اللہ کے حقوق پہنچانے کے لیے، انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے حکمرانی کرتے ہیں وہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و شریعت کی پابندی کرتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنا حکم چلاتے ہیں، اپنی خواہشات کا اتباع کرواتے ہیں، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے کوسوں دُور ہیں۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں روحانیت بھی ہے اور اخلاق بھی، عبادت بھی ہے اور سیاست بھی، معاشرت بھی ہے اور معیشت بھی، اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کو دنیا میں نافذ کرنے کی جدوجہد بھی ہے۔ یعنی اللہ کے حکم کے مطابق انفرادی اور اجتماعی نظام زندگی گزارنے کا اسوہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دعا سکھائی ہے :
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِـمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۶ (اٰل عمرٰن۳: ۲۶) ”اے اللہ، حکومت کے مالک! تُو جسے چاہے حکومت عطا کرے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اورجسے چاہے ذلت دے، بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ بے شک تُو ہر چیز پر قادر ہے۔“