بجلی کی قیمتوں پر عوامی احتجاج

واپڈا کے ساتھ آزادکشمیر حکومت معاہدے کی منسوخی

آزاد کشمیر کابینہ نے گزشتہ حکومت کے واپڈا سے کیے گئے معاہدے کو آزادکشمیر کے عوام کے مجموعی مفاد کے خلاف قرار دیتے ہوئے منسوخ کردیا ہے۔ وزیراعظم چودھری انوارالحق کی صدارت میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں اس معاہدے کو منسوخ کردیا گیا۔

؎اس معاہدے کی منظوری کی کہانی بھی خاصی دلچسپ ہے۔ سردار عبدالقیوم نیازی کے دورِ حکومت میں وفاق کی طرف سے ایسے معاہدے کے لیے دبائو ڈالا جانے لگا جس میں آزاد کشمیر کے عوام کے بجائے واپڈا کے مفادات کا خیال رکھا گیا تھا۔ وزیراعظم نے یہ دبائو کابینہ پر منتقل کرتے ہوئے معاہدے کی منظوری کا راستہ اپنایا، مگر کابینہ کے کئی ارکان نے اس معاہدے کی منظوری دینے سے انکار کردیا۔ جس کے بعد وزیراعظم نے خود ہی چیف ایگزیکٹو کے طور پر اس کی منظوری دی، جس پر صدر آزادکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چودھری کے دفتر سے بھی یہی اعتراض کرتے ہوئے معاملہ التوا میں ڈالنے کی حکمتِ عملی اختیار کی گئی، مگر وزیراعظم آزادکشمیر نے اس معاہدے کی منظوری دے ڈالی۔ یہ واپڈا کے ساتھ بجلی کے ٹیرف کا معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کے تحت واپڈا سے 31روپے 50 پیسے فی یونٹ بجلی خریدنا تھی اور آزادکشمیر کے انتظامی اخراجات ملا کر بجلی کے کُل اخراجات پچاس روپے فی یونٹ ہونا تھے۔ اس سارے عمل میں آزادکشمیر کو واٹر یوز چارجز کے نام پر ایک روپے پچھتر پیسے فی یونٹ ملنا تھے۔ اس معاہدے کا انکشاف اُس وقت ہوا جب وفاق نے آزادکشمیر کو 90 ارب روپے کے بجائے 70 ارب روپے دینے کی ہامی بھری اور 20 ارب روپے کی اسی معاہدے کی بنیاد پر کٹوتی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب آزادکشمیر کی کابینہ نے اس عوام مخالف معاہدے کو منسوخ کردیا ہے، اور اس معاملے پر واپڈا اور حکومتِ آزادکشمیر کے درمیان نئے سرے سے مذاکرات بھی ہوں گے اور معاملات بھی طے ہوں گے۔ امید ہے نئے مذاکرات اور معاملات میں دھونس کی بنیاد پر فیصلے منوانے اور ماننے کے بجائے آزادکشمیر کے عوام کے مجموعی مفادات کو سامنے رکھا جائے گا۔

آزادکشمیر پانیوں کا حامل خطہ ہے اور فطری طور پر بجلی پیدا کرنے والا علاقہ ہے۔ اس لیے آزادکشمیر کو وفاق سے جو کچھ ملتا ہے اس میں ایک فیصد بھی خیرات نہیں ہوتی۔ یہ سب آزادکشمیر کا جائز حصہ اور حق ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے حکمران خدا جانے وفاقی بیوروکریسی کے کن احسانات کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں کہ جن کی ’’کانپیں‘‘ اسلام آباد کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہی ”ٹانگنے“ لگتی ہیں۔ یہ خودساختہ مجبوری اور احساسِ کمتری آزادکشمیر کے حکمرانوں کی سرشت ہے جس کی وجہ سے وہ اسلام آباد کے حکمرانوں کے ساتھ برابری کی سطح پر نہ تو بات کرسکتے ہیں اور نہ ہی برابری کی سطح پر کوئی فیصلہ منوا سکتے ہیں۔ اس کمزوری کا وفاقی بیوروکریسی جم کر فائدہ اُٹھاتی ہے۔ واپڈا کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی اصل کہانی بھی یہی تھی… ایک ایسا معاہدہ جس کی منظوری فردِ واحد نے دی تھی، اور اس معاہدے کے روبہ عمل آنے میں آزاد کشمیر کا خسارہ ہی خسارہ تھا۔ آزادکشمیر کے حکمرانوں کو پہلی ترجیح اپنے عوام کے مفاد کو بنانا چاہیے تھا، مگر یہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ یہاں حکمران یا تو اپنا مفاد مقدم رکھتے ہیں یا میز کی دوسری سمت بیٹھے ہوئوں کے مفاد کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ اگر عمل درآمد کے مراحل تک پہنچتا تو آزادکشمیر کے مہنگائی سے ستائے ہوئے عوام تو بے موت ہی مارے جاتے۔

دوسری طرف بجلی کے نرخ بڑھنے کے بعد سے آزادکشمیر کے عوام مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔ سول سوسائٹی اور تاجر کمیونٹی اس رویّے پر مسلسل سراپا احتجاج ہے۔ اب یوں لگتا ہے کہ معاملات عوام کے بس سے باہر ہورہے ہیں۔ ابھی تک حکومت نے اس مسئلے کا کوئی قابلِ عمل حل نہیں نکالا، اگر کہیں مذاکرات ہو بھی رہے ہیں تو یوں لگتا ہے وقت گزاری کے لیے ہورہے ہیں۔ لوگ بجلی کے بل جلا کر اور واپڈا اہلکاروں پر حملے کرکے اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔ عوامی احتجاج اور اضطراب کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت قوانین اور گرفتاریوں کی منصوبہ بندی کی خبریں سامنے آرہی ہیں اور اس جرم کی پاداش میں لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا جائے گا۔ اگر اپروچ یہی رہی تو پھر ملک کی جیلیں تنگ پڑ جائیں گی کیونکہ جو بل عوام کو تھمائے گئے ہیں 90 فیصد عوام ان کو ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ گویا کہ دس پندرہ کروڑ سربراہانِ کنبہ کو جن کے نام پر بجلی کے بل جاری ہوتے ہیں، گرفتار کرکے تاریخ کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا جائے گا۔ ان حالات میں آزاد کشمیر کے عوام کا احتجاج بھی ان کا حق ہے اور یہ فطری ردعمل ہے۔ لوگ اپنے مقدر کا رونا رونے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ آزادکشمیر بجلی پیدا کرنے والا خطہ ہے۔ اس خطے نے پہلے منگلا ڈیم کی صورت میں اپنی گزر جانے والی نسلوں کی قبروں، کتبوں اور یادوں کی… اور اب نیلم جہلم کے ذریعے آنے والی نسلوں کے مستقبل اور ماحولیات کی قربانی دی ہے۔ منگلا ڈیم کے کناروں پر ابھی بھی مسجد کے شکستہ مینار اور ٹوٹی ہوئی قبروں کے کتبے ایک نسل کی قربانی اور تعاون کی زندہ مثال ہیں تو آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کو دو صدیوں سے بانٹتا ہوا گزرنے والا شفاف اور نیلگوں دریائے نیلم جسے تاریخ کشن گنگا کے نام سے یاد کرتی ہے ایک جوہڑ کا منظر پیش کرکے ایثار، اطاعت اور قربانی کی زندہ مثال بن کر رہ گیا ہے۔ وفاق کے حکمرانوں کو آزادکشمیر کی حکومت کو احتجاجی لہروں کے مقابل کھڑا کرنے کے بجائے عوام کے مطالبات کو اپنے ایجنڈے میں جگہ دے کر آزاد کشمیر حکومت کی بھی مدد کرنی چاہیے۔ اس خطے کا عدم استحکام کس کی خواہش ہے یہ بات اب راز نہیں رہی۔ اُس کے ٹی وی چینلز اس وقت ناگ کی طرح پھن پھیلائے آزاد کشمیر کے حالات کو دیکھ رہے ہیں کہ کوئی حادثہ ہوجائے اور وہ آزاد کشمیر کے عوام کے ہمدرد بن کر اپنا پروپیگنڈا شروع کریں۔