ہندو توا کی آگ کینیڈا تک : بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں سکھ رہنما کا قتل

مغرب کا دوغلا رویہ اور عالمی ضمیر کا امتحان

بھارت ابھی جی 20 کی سربراہی کے جشن سے مکمل لطف اندوز بھی نہ ہو پایا تھا کہ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا میں سکھ رہنما اور خالصتان تحریک کے سرکردہ کینیڈین لیڈر ہردیپ سنگھ کے قتل میں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کو ملوث قرار دے دیا۔ انہوں نے کینیڈا کی سرزمین پر ایک کینیڈین شہری کے قتل کو نہ صرف اپنے ملک میں دہشت گردی سے تعبیر کیا بلکہ اس میں ملوث ہونے پر بھارتی سفارتی اہلکاروں کو ملک بدر کرنے کا بھی اعلان کیا۔ سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کو 18 جون 2023ء کو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا، سرے میں واقع گوردوارے کے سامنے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس واقعے سے ایک سال قبل 2022ء میں ہردیپ سنگھ کو کینیڈا کی خفیہ ایجنسیوں نے ان کے قتل کی سازش سے آگاہ کیا تھا اور انہیں محتاط رہنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔

45 سالہ ہردیپ سنگھ بھارتی پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے اور 1997ء میں محض 20 سال کی عمر میں کینیڈا منتقل ہوگئے۔ ان کی ہجرت کی اصل وجہ بھارتی پنجاب میں سکھوں پر ہونے والا ریاستی کریک ڈاؤن تھا جوکہ خالصتان تحریک کو کچلنے کے لیے کیا گیا۔ انہوں نے کینیڈا میں سیاسی پناہ کی درخواست میں لکھا تھا کہ ان کے والد اور اہلِ خانہ کو بھارتی پولیس نے اغوا کیا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کے باعث وہ بھارت چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

ہردیپ سنگھ کا قتل بین الاقوامی طور پر ایک اہم ترین واقعہ ہے، اور اسے بھارت میں جاری ہندوتوا کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ بھارت میں موجودہ حکومت کا تعلق ہندوتوا کی پیروکار آر ایس ایس سے ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی دراصل اس کا سیاسی ونگ ہے۔ ہندوتوا کے مقاصد میں بنیادی طور پر ہندو ریاست کا قیام ہے کہ جہاں صرف ہندوؤں کو ہی رہنے کی آزادی ہو، اس مقصد کے لیے سیکولر بھارت کا انہدام ازحد ضروری ہے۔ بی جے پی کی حکومت کی جانب سے Citizen Amendment Bill اور زرعی اصلاحاتی بل اس کا محض ایک چہرہ ہیں کہ جہاں ایک جانب صدیوں سے آباد غیر ہندوؤں کو اپنی شہریت کو درست ثابت کرنا ہوگا وہیں دنیا میں کہیں بھی موجود ہندو بھارتی شہریت کی درخواست دے سکتے ہیں۔ یعنی سیکولر بھارت میں اب شہریت محض ہندو مذہب کی بنیاد پر دی جائے گی، یا کسی کا ہندو نہ ہونے کے جرم میں شہریت سے اخراج کردیا جائے گا۔ اس قانون پر احتجاج کرنے کی پاداش میں بھارتی یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات پر آر ایس ایس کے غنڈوں اور پولیس کے مشترکہ تشدد نے اسرائیلی فوج کے نہتے فلسطینی مسلمانوں پر روا تشدد کی یاد تازہ کردی اور اس کا ایک چہرہ بھارت میں بھی نظر آیا۔ اس کے علاؤہ بھارت میں حجاب پر پابندی کی کوششوں کے بعد دوسری اہم پیش رفت زرعی اصلاحاتی بل کے نام پر زراعت سے وابستہ طبقے کو براہِ راست غلام بنانا تھا جس کا اصل ہدف بھارتی پنجاب میں بسنے والی سکھ برادری تھی۔ اس پر شدید احتجاج کے بعد بھارتی حکومت نے اس میں ترامیم کی ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ سیکولر بھارت جو کل تک گجرات میں قتلِ عام کرنے والے اصل کردار نریندر مودی کو معاف کرنے کو تیار نہ تھا، جس کی مذمت دنیا بھر میں کی گئی، لیکن بتدریج دنیا میں نریندر مودی کو گجرات کے مسلمانوں کے قاتل کے بجائے وزیراعظم بھارت کے طور پر قبول تو کرلیا گیا لیکن اب اس قاتل صفت شخص کی حکومت کے اثرات پوری دنیا میں اپنے مخالفین کے قتل کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

کینیڈا میں سکھ برادری سیاست میں اہم مقام رکھتی ہے، اور وہاں مقیم بھارتی ہندوؤں کی بہ نسبت سکھ برادری کا سیاسی اثر رسوخ زیادہ ہے، جس کے تحت ہی حکومت نے آزادانہ تحقیقات کیں، اور اس کے بعد ایک بہت بڑا قدم اٹھاتے ہوئے خود وزیراعظم کینیڈا نے بھارت کو اس قتل کا براہِ راست ملزم قرار دیا۔

اس وقت دنیا میں بھارتی ہندوتوا کا راج ہے اور گجرات کے قاتل مودی نے اپنے عزائم کے مطابق اب اس قتل و غارت گری کا بازار نہ صرف بھارت، بلکہ بیرونی ممالک میں بھی گرم کردیا ہے۔ پاکستان میں کشمیر میں جاری تحریکِ مزاحمت کے پشتیبان دو کرداروں کو یکے بعد دیگرے قتل کردیا گیا اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی بی کی رپورٹ کے مطابق اس میں بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے سابق اہلکار شامل تھے۔

بھارت میں جاری ہر مزاحمتی تحریک کو بھارتی حکومت بیرونی مداخلت سے جوڑتی رہی ہے اور پاکستانی حکمرانوں کے سامنے بھارت سرحد پار دہشت گردی کا واویلا کرتا رہا ہے، لیکن وہ اس کو ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر ایک متنازع خطہ ہے اور اس میں رہنے بسنے والوں کو استصوابِ رائے سے اپنے الحاق کا اعلان کرنا ہے، اور جب تک یہ نہیں ہوجاتا کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ایک ریاست ہے کہ جس کی کوئی ملکی سرحد نہیں۔ اس لیے اگر ایک جانب کے رہائشی کشمیری دوسری جانب مقیم اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کو جاتے ہیں تو وہ اپنے ہی خطے میں جارہے ہیں، لہٰذا یہ کسی بین الاقوامی سرحد کی قطعی خلاف ورزی نہیں، لیکن اگر کوئی بھارتی ایجنٹ ہزاروں میل دور ایک سکھ رہنما کو قتل کرنے کے لیے آلہ کار بنتا ہے تو یہ اصل میں سرحد پار دہشت گردی ہے۔ اسی طرح پاکستان کی حدود میں پاکستانی باشندوں کا قتل بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔

بھارت کے ہندوتوا کے عزائم کسی بھی طور پر اسرائیل کے صہیونی عزائم سے الگ نہیں کہ جہاں شہریت، ملکیت اور زندہ رہنے کا حق صرف اور صرف مذہب کی بنیاد پر ہوگا۔ ہندوتوا اور صہیونیت میں دوسری قدرِ مشترک ہیکل سلیمانی اور رام مندر کی تعمیر ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ رام مندر کی اصل جگہ بابری مسجد تھی جس کو بی جے پی نے منہدم کردیا ہے، اور اب اسرائیل بیت المقدس کو ڈھاکر وہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔

ان تمام حالات میں مغرب کا رویہ سب سے زیادہ حیرت انگیز ہے، اور دراصل منافقت پر مبنی ہے۔ کینیڈین وزیراعظم کے بیان نے بین الاقوامی سیاست میں ایک بھونچال برپا کردیا ہے اور پوری دنیا میں اس کی بازگشت تاحال سنائی دے رہی ہے، لیکن ادھر برطانوی میڈیا پر اس خبر کو انتہائی بے دلی سے یا دباکر شائع و نشر کیا گیا۔ اس معاملے میں بلاشبہ برطانوی میڈیا نے تعصب کا مظاہرہ کیا اور اس خبر کو اس کی حقیقی جگہ نہ دی اور بہت سی جگہوں پر اس کا مکمل بلیک آئوٹ کیا گیا۔ اس سب کی اصل وجہ جو بھی ہو لیکن یہ اقدام دراصل برطانیہ میں بسنے والے سکھ باشندوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس قتل اور کینیڈین وزیراعظم کے بیان کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس معاملے کی سنگینی اور بھارت کے سابقہ اقدامات کے باعث اقوام متحدہ اس پر خصوصی توجہ دیتی اور اسے باقاعدہ طور پر جنرل اسمبلی میں موضوعِ بحث بنایا جاتا، لیکن کینیڈین وزیراعظم کے بیان کے باوجود بھی نہ صرف حکومتِ پاکستان بلکہ دنیا بھر میں رہنے بسنے والے پاکستانی بھی اس پر وہ ردعمل دینے میں ناکام رہے جس کا یہ متقاضی تھا۔ 22 ستمبر 2023ء کو نگراں وزیراعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران تو تحریکِ انصاف کے کارکنان نے مظاہرے کا اہتمام کیا لیکن اس بین الاقوامی دہشت گردی کو اجاگر کرنے کے حوالے سے بھارت کی مذمت میں کوئی ایک بینر بھی آویزاں نہ کیا جاسکا۔

دنیا اس وقت شدید قسم کے اخلاقی بحران کی زد میں ہے کہ جہاں ایک قتل کو تو بین الاقوامی سیاست کا مسئلہ بنادیا جائے اور دوسری جانب اسی طرح کے دوسرے قتل پر مکمل خاموشی اختیار کی جائے۔ اس ضمن میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل اور اس کے بعد سعودی عرب پر پڑنے والے بین الاقوامی دباؤ کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں ایک صحافی کو مبینہ طور پر کسی اور ملک میں قتل کیا گیا اور اس کا الزام کیونکہ ایک مسلم ریاست پر تھا تو اس کا ناطقہ بند کردیا گیا، اور دوسری جانب بین الاقوامی طاقتوں کا لاڈلا بھارت پوری دنیا میں سرحد پار دہشت گردی کررہا ہے تو اس پر عالمی ضمیر مکمل خاموش ہے۔ عالمی ضمیر تب ہی زندہ ہوتا ہے جب کسی مسلم ریاست میں کسی بھی تشدد کی اطلاع ملے خواہ وہ پاکستان میں ملالہ یوسف زئی ہو یا ایران میں حجاب کے معاملے پر قتل ہونے والی منشا امینی… لیکن اگر یہی قتل خود مغرب میں مغرب کے باشندے ڈاکٹر عمران فاروق کا ہو تو ریاست مکمل خاموش ہوکر سکتے میں چلی جاتی ہے۔ وہ اس بات کا اعلان تو کرتے ہیں کہ قاتل کس پرواز سے فرار ہوئے، لیکن قتل کس کے حکم پر ہوا؟ اس پر مکمل سکوت ہے۔ مغرب اور عالمی ضمیر کی دہشت گردی، سرحد پار دہشت گردی و قتل کی تعریف اب محض اسلام اور مغرب کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس میں اب ہر وہ اقلیت و اقلیتی گروہ آئے گا جو کہ مغرب اور اس کے دوستوں کے سامنے ذرا بھی مزاحمت کی سکت رکھتا ہے۔

مغرب کے ساتھ ساتھ اب بھارت کا سیکولرازم بھی بے نقاب ہوچکا ہے۔ دنیا کو اب ہندوتوا سے بھی وہی خطرات لاحق ہیں جو اس سے قبل صہیونی عزائم سے تھے۔ یہ سب عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگر اس معاملے پر درست رویہ اختیار نہ کیا گیا تو یہ آگ مشرق سے نکل کر مغرب تک پھیلے گی، اور اس کا آغاز کینیڈا سے ہوچکا ہے۔ کینیڈین وزیراعظم نے اپنے ملک کو اس آگ سے بچانے کی کوشش کی ہے جوکہ قابلِ تحسین ہے، لیکن اب یہ اہلِ مغرب کا امتحان ہے کہ وہ اس کو کس طرح روکتے ہیں۔