حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد یاد ہے” شک و شبہ والی چیزوں کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو اختیار کرو جن میں شک و شبہ نہ ہو، بلاشبہ سچائی باعثِ اطمینان ہے اور جھوٹ بے چینی پیدا کرتا ہے“۔
(ترمذی، نسائی )
رزقِ الٰہی سے کیا مراد ہے؟: رزق سے لوگوں کے نزدیک بظاہر مال مراد ہے جو ان کی ضروریات میں کام آئے اور اس سے وہ ضرورت کا سازوسامان خرید سکیں۔ لیکن دراصل اس سے مراد مال و متاع کے علاوہ تمام اسبابِ رزق اور اس کے مخفی ذرائع بھی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو ایسے مناسب اجزا سے بنایا، ان کی طبیعت کی ایسی تقسیم فرمائی، ان کے مواد میں ایسا تناسب رکھا، جس سے یہ سب رزق کی پیدائش، نباتات کے اگنے اور اس کی افزائش کا سبب بن گئے، اور پھر اللہ تعالیٰ نے نباتات، حیوانات اور انسان میں یہ طاقت رکھی کہ وہ ان عناصر سے فائدہ حاصل کریں۔
حقیقتِ رزق کے بعض اطراف: طبیعات اور ہیئت کے مشہور عالم محمود صالح نے اپنی مشہور کتاب ’’سائنس ایمان کی دعوت دیتی ہے‘‘ کے صفحات 71/70 پر لکھا ہے کہ: ’’ہر نبات کی زندگی کا مدار، جیسا کہ علما جانتے ہیں اُن مقداروں پر ہے جو کاربن آکسائیڈ نمبر2سے بھی چھوٹی ہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ یہ عنصر جو ہوا میں موجود ہے، نباتات اس کو چوستی ہیں۔ اس مرکب کیمیاوی عمل کو جو روشنی کی ترکیب کے ساتھ خاص ہے ہم ممکن بسیط طریقے کے ساتھ یوں کہہ سکتے ہیں کہ: درختوں کے پتّے پھیپھڑے ہیں اور ان میں یہ طاقت ہے کہ کاربن آکسائیڈ جیسی سخت چیز کا تجربہ کرکے اسے کاربائن اور آکسیجن بنائیں۔ باَلفاظِ دیگر یہ آکسیجن کو تو پرے پھینک دیتے ہیں اور کاربن کو جو ہائیڈروجن کے ساتھ متحد ہوتی ہے، محفوظ کرلیتے ہیں۔ یہ ہائیڈروجن وہ پانی ہے جس کو نباتات اپنی جڑوں کے ذریعے سے حاصل کرتی ہے اور یہ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم ہوجاتا ہے اور ایک حیرت انگیز کیمیاوی عمل کے ساتھ طبیعت ان عناصر سے شکر اور متعدد دیگر کیمیاوی مادے تیار کرتی ہے، اور پھر یہ مادے پھل اور پھول کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ نباتات اس طرح اپنے آپ کو بھی غذا بہم پہنچاتی ہے اور بہت سے فالتو پھل پھول پیدا کرتی ہے جو زمین کے اوپر ہر زندہ چیز کی غذا کا کام دیتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ نباتات آکسیجن کو باہر پھینکتی رہتی ہے جس کو اس نے چوسا ہوتا ہے، اور جو اگر نہ رہے تو پانچ منٹ کے بعد حیات ناپید ہوجائے‘‘۔
’’اور اسی طرح ہم یہ بھی پاتے ہیں کہ ساری نباتات، جنگل، گھاس اور پانی کے اوپر کائی کا ہر ٹکڑا اور ہر وہ چیز جو کھیتی کے پانی سے چھٹی رہتی ہے اس کی تکوین کاربائن پر اور بالخصوص پانی پر مبنی ہے۔ حیوانات کاربن آکسائیڈ نمبر2 پھینکتے ہیں جبکہ نباتات آکسیجن اگلتی ہے۔ اگر لین دین کا یہ عمل قائم نہ ہوتا تو حیوانی اور نباتی حیات آخرکار ساری آکسیجن کو ختم کردیتی، یا تقریباً کاربائن آکسائیڈ نمبر2 کو۔ اور جب یہ توازن پوری طرح ختم ہوجائے تو یا نباتات سڑ جائے گی یا انسان مر جائے گا، اور ایک کی موت کے بعد دوسرا بھی اس سے جاملے گا، اور آخر تحقیق یہ ہے کہ کاربن آکسائیڈ ثانی کا وجود بھی چھوٹی مقداروں میں حیوانی زندگی کے لیے ضروری ہے، جس طرح کہ یہ بھی تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ نباتات بھی آکسیجن کا کچھ حصہ کام میں لاتی ہے اور اس پر ہائیڈروجن کا اضافہ بھی ضروری ہے، اگرچہ ہم اسے سانس میں استعمال نہیں کرتے مگر پانی کے وجود کے لیے اس کا ہونا ضروری ہے اور پانی کی نسبت مادہ انیہ یا نباتیہ کے ساتھ اتنی بڑی ہے جو دہشت انگیز ہے اور اس کے بغیر بالکل کام نہیں چل سکتا‘‘۔