آدمی کے ’’تخیل‘‘ کے بارے میں افلاطون کی رائے مکمل طور پر حالتِ انکار میں نہیں ہے۔ آدمی کی نقالی پر سخت تنقید کے باوصف بین السطور کچھ اور زاویے بھی سامنے آتے ہیں کہ جو ’’مکالماتِ افلاطون‘‘ کے کئی متون میں سطح پر ابھرتے محسوس ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ کتاب ’ریاست‘ میں وہ ’سچ‘ تک پہنچانے والی شبیہیں، علامتیں، اور تصویریں بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ کتاب ششم میں افلاطون تسلیم کرتا ہے کہ ’’علم‘‘ بہ یک وقت ایسے حالات سے گزرتا ہے کہ جب ’فکر انگیز تصویروں یا تصورات‘ سے سامنا ہوجاتا ہے، اور ہمارے نظریات کو معاون صورتیں میسر آجاتی ہیں، یہ صورتیں ہمارے درک اور اظہار میں مددگار بن جاتی ہیں۔ ایسی تصویریں مثبت مقاصد میں استعمال کی جاسکتی ہیں، کہ جو ظاہر نہ ہونے والے خیالات کی صورت گری کرسکیں۔ ایسے علوم اور تصورات کہ جنہیں واضح کرنا صرف صورتوں سے ہی ممکن ہو۔ افلاطون ایک مثال دیتا ہے کہ جیسے ایک ریاضی داں اعداد و شمار سے خاکے کھینچتا ہے، اور سمجھاتا ہے کہ اس حساب کی کیا مادی صورت بن سکتی ہے۔ شاگردوں کو اسکوئر سمجھاتا ہے۔ وہ اصول کہ جو فلسفی جیسے سقراط یا وہ خود مماثلتوں، تشبیہات، اور قصوں سے سمجھا سکتا ہے۔ مگر یہ مثبت استعمالات استثنیٰ ہیں، آدمی کے ’تخیل‘ کا عام اصول وہی ہے جو افلاطون اس بارے میں ظاہر کرچکا ہے: ”آدمی ناقل ہے اور خدائی تخلیقات سے عدم مطابقت میں اُس کی ہر صناعی ’سچ‘ کی صورت بگاڑ دیتی ہے۔ آدمی صرف حسیاتی تجربات کو بصیرتوں سے بیان کرنے کے لیے تخلیق کاری کا سہارا لے سکتے ہیں۔ وہ صرف فکرانگیز خیال کی صورت گری کے لیے ثالث یا معاون کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ انہیں ادنیٰ سے اعلیٰ بصیرت تک بلندی عطا کرتے ہیں، اس طرح وہ مادی دنیا سے عالم ماورا تک سفر کرتے ہیں۔ یہی فن اور ہنرمندی کا صحیح استعمال ہے۔ اس طرح نقل اور دوسرے درجے کی تخلیقات کی حقیقت اور قدر و قیمت بھی واضح ہوجاتی ہے۔ یوں تصویریں اور شبیہیں اپنے منفی امکانات خود زائل کردیتی ہیں۔“
اسے وٹگینسٹین کی سیڑھی کے طور پر بھی سمجھ سکتے ہیں، کہ جیسے جیسے چڑھتے جاتے ہیں ایک ایک زینہ ہٹتا چلا جاتا ہے، اور یوں ہم خطاؤں کے غار سے نکل کر ’سچ‘ کی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں۔ افلاطون واضح کرتا ہے کہ دانشور فلسفی اشیا کی اصل کا درست تصور پیش کرتے ہیں، اور ظاہر کی دنیا سمجھنے میں تمثیلات اور اشکالات سے مدد لیتے ہیں۔ وہ محض خیالات اور تصورات پر دلیل قائم نہیں کرتے بلکہ اُن کی بنیاد پر اصل صورت حال کا بصیرت افروز اثبات کرتے ہیں۔ جو نقشہ وہ کھینچتے ہیں یا جو صورت گری وہ کرتے ہیں صرف مثال کے لیے ہوتی ہیں، اصل تحقیقی مواد صرف بصیرت میں موجود ہوتا ہے۔ فلسفی کا اصل مقصد ہمیشہ عقل کے ذریعے سچ کی جستجو ہوتا ہے۔ اسی طرح روحانی معرفت تصویروں سے کام نہیں لیتی بلکہ ہیئتوں اورعلامتوں سے حق محقق کرتی ہے۔ اس طرح افلاطون قوت ’تصور‘ میں خیر اور شر دونوں کے امکانات قبول کرتا ہے۔ علم کی خدمت میں، تصویریں ہمیں ’بننے‘ سے ’ہونے‘ کی جانب رہنما ہوسکتی ہیں، مگر صرف اس شرط پر کہ ہم اس باریکی سے باخبر رہیں کہ یہ علامتوں سے زیادہ کچھ نہیں، اور سچ کے معاملے میں آزاد اور خودمختار نہیں۔ خیالی اور قیاسی ترجمان تصویریں یا صورتیں حقیقت کی نقلوں کو حقیقت ہی سے الجھادیتی ہیں، اور یوں ہماری توجہ بلند خیالات سے کج روی اختیار کرلیتی ہے۔ تخیل کی پرواز کا سب سے خطرناک پہلو وہ ہے کہ جو کھل کر اسے ’تخیلِ‘ محض نہیں سمجھتا، اوراسے حقیقت باور کرنے لگتا ہے۔ آدمی کے ذہن کو ’عالمِ وجود‘ اور ’عالمِ اختراع‘ کے درمیان ثالثی کے لیے استعاری اظہار کی ضرورت پڑتی ہے، تاکہ ہم حسیات کی نچلی سطح سے بلند ہوکر سچ پر غور و فکر کے قابل ہوسکیں۔ اس طرح افلاطون اصل کو نقل سے الگ کرنے کی اہلیت پر دلائل کا دائرہ کار مستحکم کرتا ہے۔ ایک بار ہم پھردیکھتے ہیں کہ کس طرح افلاطون ’تصویر‘ کے نظریہ علم کا سوال وجود کے ماورا الطبیعاتی سوال سے ممیز کرتا ہے۔ افلاطون یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ اظہار کی تصوراتی صورتیں کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ’وجود مطلق‘ سے متعلق ہوتی ہیں، گوکہ یہ بہت چھوٹا اور ترمیم شدہ حصہ ہوتا ہے، اگر ایسا نہ ہو تو سچ اور جھوٹ کے دائرہ کار کا تعین ناممکن ہوجائے۔ تقریر کی تصویری صورت خواہ استعاری ہو، قصہ گوئی ہو، یا علامتی ہو… وجود اور عدم وجود دونوں سے متصف ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ہم تخیلاتی بیانیے میں خیر و شر الگ نہ کرسکیں گے، عالمِ حسیات اور عالمِ ماورا میں فرق نہیں سمجھ سکیں گے۔
افلاطون دو کام کرتا ہے۔ پہلا، وہ کہتا ہے تصویر کا ’وجود مطلق‘ نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ تصویریں محض شبیہات، فن پارے، مجسمے، اور دیگر فنی نمونے نہیں ہیں بلکہ فکر اور اظہار میں موجود کئی تمثیلاتی صورتیں اور علامتیں بھی ہیں۔ بہرکیف، یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ انسانی فکر اور تحریر و تقریر میں تخیل کی نفسیات پر افلاطون کا تجزیہ سرسری سا ہے، اس معاملے میں جامع تجزیہ نہیں ملتا۔ یہ کام ارسطو نے کیا ہے۔ افلاطون کا اس ضمن میں اہم ترین کام یہ مشاہدہ ہے کہ شبیہ یا تصور ایک طرز کی ’وجودیاتی الجھن‘ پیدا کردیتا ہے۔ وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اشیا کو نقل در نقل شکلوں کے نام دینے سے اُن اشیا کی حقیقت کا یقینی علم حاصل نہیں ہوتا۔ یقینی علم معقول ہوتا ہے: خالص فکر کہ جو روح سے مکالمہ کرتی ہے، لفظوں اور شکلوں کی کثافت سے پاک خاموش، مطمئن، اور پُریقین ہوتی ہے۔ تاہم افلاطونی ماورا الطبیعات میں آدمی کے ’تصور‘ کے بارے میں ’مخمصہ‘ ایک الگ جہت ہے۔ اظہار میں ثالثی کے کردار سے قطع نظر، تصویر ایک الہامی کردار ادا کرسکتی ہے۔ افلاطون تسلیم کرتا ہے کہ آدمی کے ’تخیل‘ کا ایک موزوں فعل یہ ہوسکتا ہے کہ فنی خودمختاری کا دعویٰ ترک کرکے ماوراالطبیعاتی رہنما اصولوں پر کاربند ہو۔ مگر کتاب ”ریاست“ میں افلاطون ’تخیل‘ کا یہ رتبہ استثنائی صورت میں پیش کرتا ہے۔ وہ ایسا صرف خاص موقعوں پر الوہی طریقہ ’تصور‘ کے لیے کرتا ہے۔ وہ ان موقعوں کو تصورِ جمالیات کی اہلیت سے مخصوص قرار دیتا ہے۔ یہ کسی روح کے لیے دن کی عام روشنی میں ممکن نہیں۔ بہرکیف افلاطون اس گہرے مخمصے سے آگاہ ہے۔ ان وجدانی لمحات میں، آدمی کا ’تصور‘ ایک آسمانی ’بصیرت‘ بن جاتا ہے۔ یہاں افلاطون تیزی سے اس اضافی قدر کی وضاحت یوں کرتا ہے کہ درحقیقت وجدان کے ’خالص‘ الہامات خدا کی دین ہوتے ہیں، آدمی انہیں خود متصور نہیں کرسکتا۔ یہ فیض خدا کے خاص بندوں کے لیے اعجاز ہے۔ یہ بندے خدائی سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ یہ فنکار یا سوفسطائی کی شعبدہ بازی اور ہنرمندی سے مکمل طور پر ممیز ہے۔ افلاطون کا مشاہدہ ہے کہ درحقیقت خدا کے قرابت دار خود بھی اُن الہامات کے فہم سے مکمل آشنا نہیں ہوتے جو اُن پر القا کیے جاتے ہیں۔ یہ بصیرتیں شارحین بتدریج واضح کرتے ہیں۔ افلاطون کہتا ہے کہ ان الہامات کا سیاق آدمی کی ’خطرناک شبیہیں‘ نہیں ہیں۔ یہ الہامات وہ نقلیں نہیں ہیں جو آدمی کے ’تخیل‘ کی تخلیقات ہیں۔ یہ سراسر خدا کا انعام ہیں۔ آدمی اپنی تراشیدہ یا منقش صورتیں، کہ جنہیں وہ آسمانی شبیہیں باورکرتا ہے، دراصل ’بت برستی‘ کی بدترین قسم ہے۔ آدمی کا تخلیقی ’تصور‘ فطرتاً نقل اور اخذ شدہ ہوتا ہے۔ یہ کبھی بھی ’آسمانی سچ‘ نہیں ہوتا۔ لہٰذا پرومیتھیئس ہمیشہ نقل کا پابند ہے، اور زیوس ہمیشہ خالقِ اول اور قادرِ مطلق ہے۔