اختر حجازی:بے پناہ خوبیوں کی حامل باغ و بہار شخصیت

جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی

جب کبھی منصورہ جانا ہوتا اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے اسلامی تحقیق و تالیف کی خاطر قائم کردہ ’’ادارہ معارفِ اسلامی‘‘ کا چکر بھی لگتا تو ادارے کی راہداری میں اکثر ٹھیٹھ پنجابی دیہاتی طرز کا سفید پٹکہ سر پر لپیٹے، سفید شلوار قمیص میں ملبوس شخصیت سے ملاقات ہوتی، جو ہر بار مسکراتے ہوئے اپنا تعارف ان الفاظ میں کرانا فرض سمجھتے تھے:

’’السلام علیکم…! میرا نام اختر حجازی ہے، میں تحریکِ اسلامی کا کارکن ہوں۔‘‘ پھر اس کے بعد ہم ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے، اور وہ اپنی بھاگ دوڑ میں سرگرداں ہوجاتے اور میں احباب سے سلام دعا اور میل ملاقات کے بعد واپس آجاتا۔ اختر حجازی کا نام والدین نے اکرام الحق رکھا تھا، سلسلۂ صوفیہ سے خاندانی تعلق کی بنا پر صوفی اکرام الحق ہوئے، علم و ادب میں دلچسپی کے سبب صوفی اکرام الحق اختر بن گئے، اور پھر محسنِ انسانیت والی حجاز سے عقیدت و محبت نے ’صوفی اکرام الحق اختر حجازی‘ بنا دیا، تاہم علمی و ادبی اور تحریکی حلقوں میں عموماً اختر حجازی کے نام ہی سے پہچانے جاتے تھے۔ یہ نہایت باغ و بہار، ہنس مکھ، کھلکھلاتی، مسکراتی اور لہلہاتی ہستی 2ستمبر 2023ء کو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئی۔ اب ان کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں…!

صوفی اکرام الحق 1932ء میں گوجرہ کے گائوں چک نمبر 309 ج۔ ب۔ بکھی میں میاں چراغ دین کے گھر پیدا ہوئے۔ دیہاتی ماحول میں پرورش پائی اور 1947ء میں قیامِ پاکستان کے تمام تر حالات اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ خاندانی لحاظ سے بریلوی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے اور سلسلہ نقشبندیہ کے صوفی سلسلے سے منسلک تھے۔ مطالعے کا بچپن ہی سے شوق تھا، چنانچہ اوائل عمری ہی میں مولانا مودودیؒ کی کتب کا مطالعہ کیا اور ان کی فکر سے متاثر ہوگئے۔ اسی عمر کا ایک دلچسپ واقعہ مرحوم کے فرزندِ ارجمند حافظ انعام الحق نے یوں بتایا کہ قیام پاکستان کے فوری بعد مولانا مودودیؒ کی ایک کتاب کے مطالعے کے بعد انہیں خط لکھا کہ مجھے مزید کتب بھجوائی جائیں، ادھر بانیِ پاکستان کی وفات کے بعد 1948ء میں مولانا مودودیؒ کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا، انہی دنوں اکرام الحق کا یہ خط مولانا کے دفتر سے کہیں سی آئی ڈی والوں کے ہاتھ لگ گیا اور وہ اس میں درج پتے پر اس ’’خطرناک‘‘ شخص کی تلاش میں اس کے گائوں پہنچ گئے اور نمبردار سے مودودیئے اکرام الحق کے بارے میں دریافت کیا۔ نمبردار نے لاعلمی اور حیرت کا اظہار کیا کہ ایسا خطرناک شخص گائوں میں موجود ہے اور اسے علم ہی نہیں! آخر بہت تحقیق و تفتیش کے بعد یہ راز کھلا کہ وہ جو نوعمر بچہ گائوں کے چھپڑ (تالاب) میں بھینس نہلا رہا ہے، یہ وہ خطرناک اکرام الحق ہے جس کی گرفتاری کے لیے خفیہ والے طویل سفر طے کرکے گائوں پہنچے تھے۔ بچے اور اس کے حالات دیکھ کر خفیہ والے خود شرمندہ ہوگئے اور اسے ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ نصیحت کی کہ آئندہ اس طرح کا کام نہیں کرنا۔ وہ تو نصیحت کرکے چلے گئے مگر اقامتِ دین کی جو فکر اکرام الحق کے دل و دماغ میں سما چکی تھی اس کا معاملہ ہی کچھ اور تھا کہ ’چھٹتی نہیں ہے یہ ظالم دل کو لگی ہوئی‘۔ 1951ء میں لاہور منتقل ہوگئے، دن کو محنت مزدوری کرتے اور شام کو مولانا مودودیؒ کی عصری مجالس اور مبارک مسجد میں ہونے والے ہفتہ وار درس سے مستفید ہوتے، تاہم سلسلۂ نقشبندیہ سے اپنا تعلق بھی استوار رکھا۔ وہاں بھی استواری کا عالم یہ تھا کہ پیر صاحب نے اپنی بہن کا نکاح اکرام الحق سے کردیا۔ یوں درگاہ کا نظام بھی بڑی حد تک ان کی دسترس میں آگیا۔ صوفی اکرام الحق نے اسے بھی اقامتِ دین کی فکر کے فروغ کے لیے استعمال کیا اور بہت سے مشائخ اور گدی نشینوں کو تحریکِ اسلامی کی دعوت کے قریب کردیا۔

لاہور میں جب روزگار کا سلسلہ چل پڑا تو مستقل طور پر شمالی لاہور میں رہائش اختیار کرلی۔ اس علاقے نے تحریکِ اسلامی کو بہت سے مثالی کارکن دیئے جن میں سے ایک اختر حجازی بھی تھے۔ 1970ء کے انتخابات کے موقع پر جماعت نے نوجوانوں کی تنظیم ’’ڈیموکریٹک یوتھ فورس‘‘ (ڈی وائی ایف) منظم کی تو اختر حجازی شمالی لاہور میں اس کے سرپرست مقرر کیے گئے۔ 1977ء کے انتخابات میں بھٹو کی اندھا دھند دھاندلی کے خلاف ’’تحریک نظام مصطفی‘‘ برپا ہوئی تو اختر حجازی نے اس میں بہت متحرک اور فعال کردار ادا کیا، اور اپنے سلسلۂ تقشبندیہ کے بہت سے علماء و مشائخ کو اس تحریک کا حصہ بننے پر آمادہ کیا۔ آپ بہت اچھے نعت خواں بھی تھے، اکثر تقریبات میں مولانا ماہرالقادریؒ مرحوم کا مشہور سلام اور ان کی نظم ’قرآن کی فریاد‘ سناتے اور سامعین کو مسحور کرتے۔ ان کی نظم ’’بھولا پنچھی‘‘ بھی لوگ بہت شوق سے سنتے اور داد دیتے تھے۔ مولانا حسرت موہانی مرحوم نے کہا تھا:

ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

اختر حجازی مطالعے کے شوق کے سبب گہرا علمی و ادبی شغف بھی رکھتے تھے۔ روزگار کے سلسلے میں ’اورینٹ ہوٹل‘ میں ملازم اور بعد ازاں اپنی عمدہ کارکردگی اور امانت و دیانت کے سبب منیجر کے منصب تک پہنچے تو قریب ہی واقع ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کے دفتر آنا جانا شروع کردیا، جہاں آغا شورش کاشمیری اور ’’م ش‘‘ سے دوستانہ مراسم قائم ہوگئے۔ فکرِ معاش میں ٹھکانے بدلتے رہے، کبھی این ایم اسٹور تو کبھی کبانہ ریسٹورنٹ انارکلی… لیکن علم و ادب اور فکر و دانش سے رابطہ منقطع نہیں ہونے دیا۔ آپ نے سید اسعد گیلانی مرحوم کے ساتھ مل کر بہت سی کتب مرتب کیں، اس کے علاوہ مولانا مودودیؒ کی کتب کے مطالعے کے بعد ان میں سے نئی کتب کی ترتیب و تدوین بھی ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ تحریکِ اسلامی کے پہلے مرکز دارالاسلام، وہاں کی سرگرمیوں، مصروفیات اور اُس زمانے کے تحریکی تعلیمی اداروں سے متعلق نہایت عرق ریزی اور محنت سے ایک شاندار تحقیقی دستاویز مرتب کرکے شائع کی، جس کی ازسرنو اشاعت ان کی شدید خواہش تھی، مگر زندگی نے وفا نہ کی۔ اس کے علاوہ ’’تصوف اور مولانا مودویؒ‘‘، ’’انسانیت کی موجودہ مشکلات اور سیرتِ رسولؐ‘‘، ’’خطباتِ یورپ‘‘، ’’استفسارات اور قرآنی دعائیں‘‘ ان کی مرتب کردہ کتب میں نمایاں ہیں
ادارہ ترجمان القرآن اور ادارہ معارفِ اسلامی کے تعاون سے بھی انہوں نے خاصا تحقیقی کام کیا جس سے استفادہ کرکے کئی طلبہ و طالبات ایم فل اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرچکے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے دیگر صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اختر حجازی کو بلا کا حافظہ بھی عطا فرمایا تھا۔ ساٹھ، ستّر برس پہلے کے واقعات انہیں ازبر تھے اور ان کا تذکرہ یوں کرتے تھے جیسے کل کی بات ہو۔ بہت سے علماء و مشائخ کے علاوہ جماعت اسلامی کے مرکزی قائدین سے بے تکلفی کے تعلقات تھے۔ نہایت خوشگوار طبیعت کے مالک، اور شگفتہ گفتگو کا ملکہ رکھتے تھے۔ جو ان کی گفتگو کچھ دیر سنتا، گرویدہ ہوجاتا۔ اپنی اولاد کی تربیت بھی پوری توجہ اور یکسوئی سے کی۔ اس تربیت کا نتیجہ ہے کہ ان کے تمام بچے تحریکِ اسلامی کے انتھک کارکن ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے صحت بھی بہت اچھی عطا فرمائی تھی۔ مطب اور اسپتالوں سے عمر بھر دور ہی رہے، آخری عمر میں جب ان کی اہلیہ محترمہ یکم اپریل 2015ء کو وفات پا گئیں تو ان کی کمی کو شدت سے محسوس کرتے رہے۔ زندگی کے آخری چند ماہ صاحبِ فراش رہے، ورنہ تمام عمر ’حرکت میں برکت‘ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے نہایت فعال زندگی بسر کی۔ صبح کہیں تو شام کہیں… حق مغفرت کرے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔