گلشن اقبال میں سفاری پارک کے قرب و جوار کے علاقوں کے لوگ 1980ء کے عشرے میں سفاری پارک واکرز کلب کے نام، اس کی افادیت اور لسانی اور علاقائی نفرتوں کو محبت اور اخوت میں بدلنے میں اس کے کردار سے اچھی طرح واقف ہوں گے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے نہایت شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں ایک دور میں اس واکرز کلب کو قائم کرنے اور کراچی جیسے روشنیوں اور امن کے شہر میں نفرت کی دیواروں کو ڈھانے اور ہر قومیت اور زبان بولنے والے لوگوں کے درمیان ایم کیو ایم اور جیے سندھ کی پیدا کردہ غلط فہمیوں اور آپس کی نفرتوں کو ختم کرکے ایک دوسرے کے درمیان محبت اور اخوت کے جذبات پیدا کرنے کا موقع دیا۔ یہ کام کیسے شروع ہوا؟ اس کا ایک پس منظر ہے جس کو بیان کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہوں گے کہ ہم ایک ایسے علاقے اور دور میں پیدا ہوئے جو دو بڑے پہاڑوں کے درمیان پہاڑی نما وادی میں تھا جہاں غربت تھی اور ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت موجود نہیں تھی، اس لیے ہر کام کے لیے ہر جگہ جانے اور آنے کے لیے پیدل چلنا ہوتا تھا۔ یہ دوسرے لوگوں کی طرح ہماری بھی مجبوری تھی۔ اس لیے ہم بچپن ہی سے پیدل سفر کرتے آئے ہیں، اور اگر یہ کہیں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ ہم بچپن ہی سے واکر ہیں اور واک کرنا یا پیدل چلنا ہمارا پسندیدہ شوق اور مشغلہ رہا۔ یہ آج سے کوئی 67/68 برس پہلے کی بات ہے کہ آزاد کشمیر میں ہمارے شہر کھوئی رٹہ سے ایک بس کوٹلی اور میرپور کے درمیان چلتی تھی لیکن اس کے لیے کرایہ کم ہی لوگ دے سکتے تھے۔ یہی حال ہمارا بھی تھا۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانا گویا روز کا معمول تھا۔ اسکول بھی ہمارے گھر سے چار ساڑھے چار کلومیٹر دور تھا، جہاں روزانہ جانا اور پھر گھر واپس آنا پڑتا تھا۔ اُس دور میں کھوئی رٹہ سے میرپور کے لیے ایک بس روزانہ رات کو 3 بجے روانہ ہوتی تھی جس میں صاحبِ ثروت لوگ ہی سفر کرتے۔ زیادہ تر لوگ قافلوں کی شکل میں دوردراز کے علاقوں اور شہروں کا سفر پیدل ہی کرتے جس میں میرپور بھی شامل ہوتا۔ کھوئی رٹہ سے میرپور کا کوٹلی کے راستے سڑک کا فاصلہ تقریباً 90 کلومیٹر ہے اور چڑہوئی کے راستے میرپور کا فاصلہ 80 کلومیٹر ہوگا جو آج کل بس کے ذریعے 4 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم نے درجنوں بار کھوئی رٹہ سے میرپور، اور میرپور سے واپس کھوئی رٹہ تک پیدل سفر طے کیا ہوگا۔ آج ہم سوچتے ہیں تو یقین نہیں آتا اور کوئی بھی یقین نہیں کرے گا مگر یہ حقیقت ہے۔ کئی بار والدِ محترم بھی ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ یہ سفر ہم اپنے بڑے بھائی غلام حسین سے ملنے کی خاطر کرتے تھے جو بسلسلہ روزگار سرگودھا میں تھے اور والد صاحب ہمیں ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے بھیجا کرتے تھے۔
پیدل سفر کی یہ عادت اتنی پختہ ہوچکی تھی کہ ہم نے کراچی آکر بھی اس کو جاری رکھا اور جہاں بھی رہے، صبح نماز کے بعد اپنے دوسرے ساتھی نمازیوں کے ساتھ لازماً واک کرتے۔ اس طرح واکنگ ایک طرح سے ہمارا روز کا معمول بن گئی۔ ہم جب صحافی سوسائٹی گلشن اقبال کراچی اپنے مکان کی تعمیر کے بعد منتقل ہوئے تو یہاں بھی صبح کی سیر کا یہ سلسلہ جاری رکھا اور اپنے پڑوسی دوستوں اور نمازیوں کے ساتھ واک کرتے، جو پہلے قریبی پارکس سے شروع ہوا اور پھر اس کا سلسلہ صحافی سوسائٹی سے سفاری پارک تک دراز ہوگیا، جس کا فاصلہ گھر سے تقریباً ڈھائی کلومیٹر تھا۔ اس طرح آنے جانے میں 5 کلومیٹر تک فاصلہ ہوجاتا تھا، اور اگر سفاری پارک میں مزید آٹھ دس چکر لگالیتے تو سیر کا دورانیہ 10کلومیٹر طویل ہوجاتا۔
یہ 1985ء اور1986 کی بات ہے، ہمیں صحافی سوسائٹی میں رہتے ہوئے چند برس ہوچکے تھے جہاں سے روزانہ صبح سویرے سفاری پارک جاتے۔ وہاں سیکڑوں کی تعداد میں لوگ واک کے لیے آتے تھے، لیکن کوئی ایک دوسرے کو نام سے جانتا نہیں تھا۔ اُس وقت ایم کیو ایم قائم ہوچکی تھی اور اس نے کراچی میں اپنی برتری اور رعب جمانے کے لیے غنڈہ گردی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کررکھا تھا۔ اس نے لوگوں کو لسانی اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کردیا تھا۔ دوسری طرف جیے سندھ والوں نے بھی کراچی اور سندھ آنے والوں کے خلاف نفرت کی مہم شروع کررکھی تھی، جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور تعصب اپنے عروج پر تھا۔ حالات اس قدر خراب ہوگئے تھے کہ ہر شہری دوسرے سے خوف زدہ رہنے لگا تھا۔ وہ سیر کے دوران ایک دوسرے کے پاس سے کوئی سلام دعا کیے بغیر گزر جاتے، جیسے ایک دوسرے کو جانتے ہی نہ ہوں، حالانکہ روزانہ سفاری پارک میں واک کے دوران ایک دوسرے کو دیکھتے اور پہچانتے تھے۔ یہ صورتِ حال اس لیے تھی کہ لسانی اور صوبائی نفرتیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھیں۔ مہاجر، پنجابی، پٹھان، بلوچ اور کشمیری ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف صف آراء بلکہ خون کے پیاسے ہوچکے تھے۔ آئے دن لسانی تعصب کی بنا پر فسادات ہوتے جن میں قیمتی جانیں ضائع ہوتیں۔ باہمی نفرتوں کا یہ سلسلہ تھمنے کے بجائے روز بروز بڑھتا ہی جارہا تھا۔
ہم اس صورتِ حال سے بڑے پریشان تھے اور اسی سوچ بچار میں تھے کہ کم از کم سفاری پارک میں ان نفرتوں کو ختم کیا جائے اور بھائی چارے کی فضا پیدا کی جائے۔ اس سلسلے میں اپنے بعض دوستوں سے مشورہ بھی کیا اور مشورے کے بعد طے کیا کہ سیر کرنے والے سب لوگوں کو منظم کیا جائے اور ان واکرز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ یہ فیصلہ ہوتے ہی ہم نے دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ ان واکرز میں سے جن کو ہم جانتے تھے اُن سے اس بارے میں بات چیت کا سلسلہ شروع کردیا اور ان کی اکثریت کو آمادہ کرلیا کہ سفاری پارک کے واکرز کو ایک تنظیم کی شکل میں منظم کیا جائے اور روزانہ کی سیر کے ساتھ دیگر تفریحی اور تعمیری سرگرمیاں بھی شروع کی جائیں۔ ہم نے اس مقصد کے لیے دستخطی مہم بھی چلائی جس پر ایک سو کے قریب واکرز نے دستخط کردیے جو ہماری تجویز سے متفق تھے۔ ہم نے ایک دن صبح سفاری پارک میں سیر کے خاتمے پر ان کا اجلاس بلا لیا اور سب کے سامنے اس کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔ شرکاء نے ان سے اتفاق کیا اور ہماری تجویز پر ”سفاری پارک واکرز کلب“ کا قیام عمل میں آیا اور عہدیداروں کا انتخاب کیا گیا۔ چودھری محمد شبیر کو صدر اور ہمیں سیکرٹری جنرل منتخب کرلیا گیا۔ اس طرح سفاری پارک واکرز کلب کے تحت مختلف پروگرام ہونے لگے۔ کلب کی رکنیت بڑھتے بڑھتے تین سے چار سو تک پہنچ گئی جس میں عام مزدور سے لے کر تاجر، سرکاری ملازمین، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ایگزیکٹوز، وکلاء، ججز، اساتذہ، پروفیسرز، خواتین اور بزرگ بھی شامل تھے۔ کلب کے اجلاسوں میں باہمی مشورے سے پروگرام طے کیے گئے جن میں ہر ہفتے سفاری پارک کے کسی ایک سبزہ زار پر درسِ قرآن، مشاعرہ یا مذاکرہ کا اہتمام شامل تھے۔ ہر پروگرام کے بعد اجتماعی ناشتا ہوتا۔ اراکینِ کلب کے لیے باقاعدہ شناختی کارڈ جاری کیے گئے جو خوبصورت ڈیزائن اور پرنٹنگ کا شاندار نمونہ تھے جس کی ڈیزائننگ ہم نے خود کی تھی، جسے سینے پر آویزاں کرکے سفاری پارک کلب کے ارکان فخر محسوس کرتے۔
اس کلب کے قیام سے جہاں پارک میں ہر صبح سیر کو آنے والے لوگ ایک تنظیم کی شکل میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے وہیں مختلف علاقوں کے رہنے والوں اور مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان بھائی چارے اور اخوت کا ماحول پیدا ہوا، آپس کی دوریاں اور نفرتیں دور ہونے لگیں جو صوبائی تعصب، لسانی اور فرقہ وارانہ تفرقات کی وجہ سے پیدا ہوگئی تھیں۔ اب ہم پکنک اور دیگر علمی پروگرام بھی ترتیب دینے لگے، چنانچہ متعدد بار کلب کے ارکان نے مختلف تفریحی مقامات پر پکنک منائیں۔ درجنوں مشاعرے منعقد ہوئے۔ ہمدرد فاؤنڈیشن کے ادارے مدینتہ الحکمت اور ساحلِ سمندر پر پکنک اور مشاعرے ہمیشہ یاد رہیں گے۔ ان مشاعروں میں عموماً جو شعراء کرام شرکت کرتے تھے ان میں ضیاء الحق قاسمی، اعجاز رحمانی، اطہر شاہ خان جیدی، امیرالاسلام ہاشمی، انور شعور، پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، سحر انصاری، فرحت ندیم ہمایوں، راغب مراد آبادی، پروفیسر عنایت علی خان، سعید آغا، ساجد علی ساجد، حسنین جلیسی اور نجمہ خان شامل ہیں۔ ایٹمی دھماکے کی پہلی سالگرہ پر ایک بڑا مشاعرہ 28 مئی 1999ء کو ہمارے بنگلے ڈی۔56 کے سبزہ زار پر منعقد ہوا جو ایٹمی پروگرام کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ہونے والا پہلا مشاعرہ تھا، اس کے پہلے سیشن کی صدارت پیرزادہ قاسم رضا صدیقی اور دوسرے کی پروفیسر سحر انصاری نے کی۔ پروگرام کے تحت اس کی صدارت گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر کو کرنا تھی لیکن وہ کسی اور مصروفیت کی وجہ سے نہ آسکے تو ان کی نمائندگی وزیر اور ہمارے ساتھی دوست محمد فیضی نے کی۔ مدینتہ الحکمت میں پکنک اور مشاعرے کے لیے تعاون حکیم محمد سعید اور تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر عبدالوہاب صدیقی نے کیا تھا۔ وہاب صدیقی مرحوم پیپلز پارٹی کی معروف لیڈر فوزیہ وہاب کے شوہر تھے۔ یہ دونوں اصحاب ہم پر مہربان تھے اور انہوں نے فوری طور پر ہماری درخواست کو قبول کرتے ہوئے ہمارے لیے اعلیٰ انتظامات اور لنچ کا اہتمام کیا تھا۔ اسی طرح سمندر پر پکنک اور مشاعرے کے لیے اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کموڈور چودھری محمد یونس نے تعاون کیا تھا جو بڑے مہربان اور علم دوست تھے۔ سفاری پارک میں ہمارے مختلف پروگراموں میں جن اہم شخصیتوں نے وقتاً فوقتاً شرکت کی ان میں جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد، مسلم لیگ کے اعجاز شفیع مرحوم ایم این اے، ابوبکر شیخانی مرحوم ایم این اے، مولانا عنایت اللہ گجراتی مرحوم اور ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر اور اُس وقت کے میئر ڈاکٹر فاروق ستار خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ مشاعرے زیادہ تر مزاحیہ ہوتے اور ان کے اہتمام کی ذمہ داری مشہور مزاح نگار اور مزاحیہ شاعر ضیاء الحق قاسمی نے اپنے ذمے لے رکھی تھی جو اُس زمانے میں بہت سرگرم تھے اور حیدرآباد سے کراچی منتقل ہوکر انہوں نے کراچی کی ادبی سرگرمیوں کو ایک نئی سمت دے دی تھی۔ انہوں نے کراچی کے مختلف علاقوں میں ادب نواز دوستوں کے تعاون سے مزاحیہ مشاعروں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیا تھا جس کی وجہ سے کراچی میں رہنے والی مختلف قومیتوں میں باہمی قربت اور محبت پیدا ہوئی۔
سفاری پارک واکرز کلب کے تحت مقبوضہ کشمیر سے آئے ہوئے لٹے پٹے کشمیریوں کی مالی مدد کے لیے ایک موقع پر فنڈ ریزنگ کے لیے اجلاس بھی کیا گیا جس میں تقریباً دو لاکھ روپے جمع ہوئے۔ یہ اور اس طرح کی درجنوں سماجی، مذہبی اور تفریحی تقریبات ہیں جو اس دور میں منعقد کی گئیں۔ کلب کا پہلا سال اس کی ہمہ جہت سرگرمیوں کی وجہ سے بڑا بھرپور رہا اور انتظامی کمیٹی نے ایک سالانہ اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے تجویز کیا گیا کہ میئر کراچی ڈاکٹر فاروق ستار کو مہمانِ خصوصی کے طور پر بلایا جائے۔ چنانچہ انہیں مدعو کیا گیا اور یہ سالانہ تقریب بڑی شان سے منعقد ہوئی جس میں کلب کی سرگرمیوں کی سالانہ رپورٹ پیش کی گئی۔ سفاری پارک میں بعض سہولتوں کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے ہماری سرگرمیوں اور واکرز کلب بنانے کے عمل کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا اور سفاری پارک کی حالت کو بہتر بنانے کا وعدہ اور متعدد سہولتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ اس تقریب کے انعقاد سے اراکینِ کلب کی بڑی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے کلب کی سرگرمیوں میں مزید دلچسپی لینا شروع کردی۔
کلب کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے ہمیں اپنی اہلیہ کا بھرپور تعاون حاصل رہا، اور جب بھی سفاری پارک کلب کے لیے ناشتے یا کھانے کی ضرورت محسوس ہوئی اور ان کے علم میں لائے تو ہمیشہ تعاون پر آمادہ پایا۔ ہمیں یاد نہیں کہ کبھی سوائے دو چار بار کے کلب کی کسی تقریب کے ناشتے کے لیے ان کے ہاتھ کا پکا ہوا بھنا قیمہ، چکن کڑاہی یا کوئی اور ڈش تیار کرکے نہ بھجوائی ہو۔ ان کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر ذائقہ رکھا تھا کہ جو بھی ان کے پکے ہوئے کھانے کھاتا، تعریف کیے بغیر نہ رہتا۔ ہمارے اراکین کو تو یہ ناشتا اس قدر مزیدار لگتا کہ وہ ہمیشہ اس کی تعریف کرتے اور پوچھتے کہ کس باورچی سے پکوایا ہے؟ ہم ہنس کر بات کو یا تو ٹال دیتے یا صرف اتنا کہتے کہ بھئی باورچی نے نام بتانے سے منع کررکھا ہے۔
جب ہم صحافی سوسائٹی سے 2001ء میں کراچی پریس کلب کے نزدیک سدکو سینٹر منتقل ہوئے تو بھی ہم نے روز تو نہیں البتہ ہر اتوار کو سفاری پارک جانے اور دوستوں سے ملنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ لیکن ہم اس کو زیادہ عرصہ جاری نہ رکھ سکے۔ روز کی سیر کی عادت کے پیش نظر ہم نے اپنی روزانہ سیر کے معمول کو سدکو سینٹر میں بھی جاری رکھا۔ ہم نے گورنر ہاؤس کے نزدیک واقع باغِ جناح (سابق پولو گراؤنڈ) میں واک شروع کردی جو ہمارے فلیٹ سے5 منٹ کے فاصلے پر تھا۔ ہم صبح فجر کی نماز کے بعد اپنے ایک دو ساتھیوں کے ساتھ نکلتے اور پولو گراؤنڈ کے دو چار چکر لگاکر ہوٹل پرل کانٹی نینٹل کے راستے ہوٹل میٹروپول سے ہوتے ہوئے واپس سدکو سینٹر آجاتے۔ اس طرح ایک دو ماہ کے بعد یہاں بھی تمام واکرز کو اپنے گرد جمع کرلیا اور واکرز کلب باغِ جناح اور باغِ قائداعظم قائم کرلیا جس کے تحت بھی متعدد تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ یہ سلسلہ بھی بہت عرصے تک جاری رہا۔
اس موقع پر ہمیں سفاری پارک میں پیش آنے والا ایک بڑا ہی دلچسپ واقعہ یاد آیا ہے جو قارئین کی دلچسپی کے لیے بیان کرنا ضروری ہے۔ واکرز کلب کے قیام کے بعد باہمی دوستیوں میں بڑا اضافہ ہوگیا تھا، اور دوستوں کا ایک گروپ سیر کے بعد ایک کونے کی مخصوص جگہ جمع ہوجاتا جہاں بیٹھنے کے لیے سیمنٹ کی پختہ بینچ بھی تھی، سارے دوست خیر خیریت کے بعد روزمرہ کے واقعات اور سیاسی صورتِ حال پر تبادلہ خیالات کرتے۔ حالاتِ حاضرہ پر بحث و مباحثہ کے دوران اختلافِ رائے بھی ہوتا، تاہم یہ سلسلہ روزانہ جاری ہی رہتا۔ ہمارے اس گروپ میں ہمارے کلب کے خزانچی فاروقی صاحب بھی تھے جو ایک فلیٹ میں تنہا رہتے تھے، انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔ ان کا ایک بھتیجا امریکہ میں تھا، وہی ان کا خیال رکھتا تھا۔ ان کے فلیٹ کے کرائے اور دوسرے اخراجات کے لیے وہ ہر ماہ 5 سو ڈالر بڑی پاپندی سے بھیجتا تھا۔ فاروقی صاحب اس کا اکثر ذکر اور اس سے محبت کا اظہار کرتے۔ ہم نے ایک دفعہ سفاری پارک کی اسی محفل میں ان سے پوچھا کہ کیا آپ کے بھتیجے نے آپ کو کبھی امریکہ آنے کی دعوت دی؟ اور کیا آپ کا دل نہیں چاہتا کہ امریکہ کی سیر کر آئیں؟ فاروقی صاحب نے کہا کہ ایک بار اُس نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا اور ہم اُس کی محبت میں تیار بھی ہوگئے تھے لیکن اللہ کو شاید منظور نہیں تھا۔ ان کی اس بات میں حسرت کا پہلو نمایاں تھا۔ ہم نے پوچھا: پھر کیوں نہیں گئے، ہوا کیا؟ انہوں نے بڑے معصومانہ انداز میں کہنا شروع کیا: جی کوشش کی تھی۔ ویزا لینے امریکی قونصل خانے بھی گئے تھے لیکن ہمیں ویزا نہیں ملا وہ بتاتے ہوئے کچھ شرما سے رہے تھے۔ جب سب نے اصرار کیا تو بتانے پر تیار ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بھتیجے نے ہمیں سختی سے کہا تھا کہ ویزے کے لیے جب آپ قونصل خانے جائیں تو انٹرویو کے دوران ہر بات سچ سچ بتانا ہے، اس لیے کہ امریکی جس چیز سے سب سے زیادہ نفرت کرتے ہیں وہ جھوٹ ہے، اس لیے آپ کو ہر سوال کے جواب میں سچ کہنا ہے۔ میں نے اس بات کا خیال رکھا۔ جب میں ویزے کے انٹرویو کے لیے گیا اور گورے امریکی نے مترجم کے ذریعے پوچھا آپ امریکہ کیوں جانا چاہتے ہیں؟ میں نے جواب دیا ”جی میرا بھتیجا وہاں رہتا ہے، میں اّس سے ملنے کےلیے جانا چاہتا ہوں“۔ ”وہ وہاں کیا کرتا ہے ؟“ ”جی وہ وہاں کاروبار کرتا ہے“۔ یہاں تک تو خیریت رہی۔ پھر آخری سوال ہوا اور اسی کے جواب نے ویزے کی قسمت کا فیصلہ بھی کردیا۔امریکی نے سوال کیا”آپ کے بھتیجے کا اسٹیٹس کیا ہے ؟ “ میں نے بھتیجے کی سچ کہنے کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے سچی بات بتائی کہ جناب وہ گیا تو تھا غیر قانونی طریقے سے لیکن اب وہ قانونی بننے کی کوشش کررہا ہے“۔ اس پر پاکستانی مترجم کی بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی۔ جب اس نے امریکی کو فاروقی صاحب کے جواب سے آگاہ کیا تو وہ بھی کھلکھلا کر ہنسا اور ہنستے ہوئے کہا کہ ان کو کہو کہ جب وہ لیگل ہو جائے تو آپ پھر ویزے کے لیے آنا۔ اس واقعے کو فاروقی صاحب کی زبانی سن کر پوری محفل کا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا۔ فاروقی صاحب نے یہ سچ بول کر اپنے امریکہ جانے کا امکان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔