سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (1903ء۔ 1979ء) عالمِ دین، مفسرِ قرآن ، جماعت اسلامی کے بانی اور بیسویں صدی کے مؤثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکات پرگہرا اثر ڈالا اور عہدِ جدید میں اسلامی بیداری کی موجودہ لہر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور شیخ حسن البناؒ (بانی اخوان المسلمون) کی فکر اور جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے جنہوں نے خلافت ِعثمانیہ کے بعد اسلام کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اسے خانقاہوں سے نکال کر عوامی پذیرائی بخشی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا پاکستانی سیاست میں بڑا کردار تھا۔ حکومت ِپاکستان نے انہیں ’’قادیانی مسئلہ‘‘ کتاب لکھنے پر پھانسی کی سزا سنادی جس پر عالمی دبائو کے باعث عمل درآمد نہ ہوسکا۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ان کی دینی خدمات کے پیش نظر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ کی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن اس دور کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ 1903ء میں اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباو اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گزرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودیؒ کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر مودودی کہلاتا ہے۔
آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ سید مودودیؒ ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی، بعدازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہ راست داخل کیا گیا۔ 1914ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اورنگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہوگئے جہاں سید مودودیؒ کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔ اس زمانے میں دارالعلوم کے صدر مولانا حمید الدین فراہیؒ تھے جو مولانا امین احسن اصلاحی کے بھی استاد تھے۔ تاہم والد کے انتقال کے باعث وہ دارالعلوم میں صرف چھے ماہ ہی تعلیم حاصل کرسکے۔ کیوں کہ سید مودودیؒ لکھنے کی خداداد قابلیت کے حامل تھے اس لیے انہوں نے قلم کے ذریعے اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچانے اور اسی کو ذریعہ معاش بنانے کا ارادہ کرلیا، چنانچہ ایک صحافی کی حیثیت سے انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور متعدد اخبارات میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا جن میں اخبار ’’مدینہ‘‘ بجنور (اترپردیش)، ’’تاج‘‘ جبل پور اور جمعیت علمائے ہند کا روزنامہ ’’الجمعیتہ‘‘ دہلی خصوصی طور پر شامل ہیں۔ جس زمانے میں سید مودودیؒ الجمعیتہ کے مدیر تھے ایک ہندو سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کوہندو بنایا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی اور اس نے اپنی کتاب میں حضرت محمدؐ کی شان میں گستاخی کی تھی جس پر ایک مسلمان نوجوان غازی علم الدین نے غیرتِ ایمانی سے لبریز ہوکرسوامی شردھانند کو قتل کردیا۔ اس پر پورے ہندوستان میں ایک شورو غوغا برپا ہوگیا اور ہندو دینِ اسلام پر حملے کرنے لگے اور اعلانیہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔
انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی نوجوان اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ اس پر سید مودودیؒ نے الجہاد فی الاسلام کے نام سے کتاب لکھی۔ اُس وقت سید مودودیؒ کی عمر صرف چوبیس برس تھی۔
اس کتاب کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
’’اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے‘‘۔
’’الجمعیتہ‘‘ کی ادارت اور اخبار نویسی چھوڑ کر سید مودودیؒ حیدرآباد دکن چلے گئے جہاں ادھر اپنے قیام کے زمانے میں انہوں نے مختلف کتابیں لکھیں اور 1932ء میں حیدرآباد سے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ جاری کیا۔ 1935ء میں آپ نے ’’پردہ‘‘ کے نام سے اسلامی نظام معاشرت کی حمایت میں ایک کتاب تحریر کی جس کا مقصد یورپ سے مرعوب ہوکر اسلامی پردے پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینا تھا۔ اس کے علاوہ ’’تنقیحات‘‘ اور ’’تفہیمات‘‘ کے مضامین لکھے جن کے ذریعے انہوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں فرنگی تہذیب کی مرعوبیت ختم کردی۔
سید مودودیؒ نے ترجمان القرآن کے ذریعے ایک پابندِ اسلام جماعت کے قیام کی تجویز پیش کی اور اس سلسلے میں ترجمان القرآن میں مضامین بھی لکھنے شروع کیے۔ جولوگ اس تجویز سے اتفاق رکھتے تھے وہ 26 اگست 1941ء کو لاہور میں جمع ہوئے اور جماعت اسلامی قائم ہوئی۔ جس وقت جماعت اسلامی قائم ہوئی تھی اس میں پورے ہندوستان سے صرف 75 آدمی شامل ہوئے تھے۔ اس اجتماع میں سید مودودیؒ کو جماعت کا امیر منتخب کیا گیا۔
تقسیم ہند کے بعد سید مودودیؒ پاکستان آگئے۔ پاکستان میں قائداعظم کے انتقال کے اگلے ہی ماہ اکتوبر 1948ء میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے پر آپ کو گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتاری سے قبل جماعت کے اخبار کوثر، جہانِ نو اور روزنامہ تسنیم بھی بند کردیئے گئے۔
سید مودودیؒ کو اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن الزام یہ دھرا گیا کہ وہ جہادِ کشمیر کے مخالف ہیں۔ قراردادِ مقاصد کی منظوری سے قبل اس کا متن بھی مولانا مودودیؒ کو ملتان جیل میں دکھایا گیا تھا۔ بیس ماہ بعد 1950ء میں ان کو رہائی ملی۔ اپنی پہلی قیدوبند کے دوران میں انہوں نے ’’مسئلہ ملکیت ِزمین‘‘ مرتب کی، تفہیم القرآن کا مقدمہ لکھا، حدیث کی کتاب ابودائود کا انڈیکس تیار کیا، کتاب ’’سود‘‘ اور ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ مکمل کیں۔
1958ء میں مارشل لا کے نفاذ کی سخت مخالفت کرنے پراُس وقت کے صدر ایوب خان نے سید مودودیؒ کی کتاب ’’ضبط ولادت‘‘ کو ضبط کرلیا اور ایوبی دور میں ہی فتنہ انکار حدیث نے سر اٹھایا اور حکومتی سرپرستی میں ایسا طبقہ سامنے آیا جس کا کہنا تھا کہ اسلام میں حدیث کی کوئی حیثیت نہیں۔ حتیٰ کہ مغربی پاکستان کی عدالت کے ایک جج نے حدیث کے بارے میں شک ظاہر کرتے ہوئے اسے سند ماننے سے انکار کردیا۔ اس موقع پر سید مودودیؒ نے اسلام میں حدیث کی بنیادی حیثیت کو دلائل سے ثابت کرتے ہوئے قرآن اور حدیث دونوں کو اسلامی قانون کا سرچشمہ قرار دیا۔
انہوں نے فتنہ انکارِ حدیث کے خلاف اپنے رسالے ’’ترجمان القرآن‘‘ کا ’’منصبِ رسالت نمبر‘‘ بھی شائع کیا جو اب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ کے نام شائع ہورہا ہے۔
مارشل لا اٹھنے کے بعد اکتوبر 1963ء میں سید مودودیؒ نے جماعت اسلامی کا سالانہ جلسہ عام لاہور میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایوب خان کی حکومت نے اس کو روکنے کی پوری پوری کوشش کی اور منٹو پارک کے بجائے بھاٹی دروازے کے باہر تنگ جگہ میں جلسہ کرنے کی اجازت دی۔ بعدازاں لائوڈ اسپیکر استعمال کرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کردیا۔ 25 اکتوبر کو جلسہ شروع ہوا۔ سید مودودیؒ نے تقریر شروع ہی کی تھی کہ کرائے پر لائے ہوئے غنڈوں نے فائرنگ شروع کردی جس سے جماعت کا ایک کارکن اللہ بخش شہید ہوگیا۔ اس موقع پر لوگوں نے مولانا کو کہاکہ آپ بیٹھ جائیں تو اُس وقت مولانا نے یہ تاریخی جملہ کہاکہ ’’میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا‘‘۔
مولانا مودودیؒ پر لکھنے اور بولنے کا کام مسلسل جاری ہے۔ الگ الگ زاویہ نگاہ سے لوگ مولانا مودودیؒ کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں اور علم و فکر کی روشنی میں اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک بات عرض کرنا ضروری ہے۔
مولانا مودودیؒ کی زندگی ایک انسان کو جو سبق دیتی ہے وہ یہ ہے کہ کام کرنے کے سلسلے میں انسان آخری حد تک قربانی دینے کے لیے تیار رہے۔ وہ جس مقصد کو لے کر اٹھا ہو، اس کو حاصل کرنے کے لیے اپنی حد تک آخری کوشش کرے۔
درمیان میں بہت سی مشکلیں پیش آئیں مگر وہ ان کی پروا نہ کرے بلکہ تمام رکاوٹوں سے درگزر کرتا ہوا آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ علم و تحقیق کا جوکام انہوں نے کیا تھا اس میں مزید انکشافات ہونے چاہیے تھے، مزید دریافتیں ہونی چاہیے تھیں، مزید تحقیقات سامنے آنی چاہیے تھیں۔
مولانا مودودیؒ کے تذکرے کا اصل پیغام یہ ہے کہ اس علمی و تحقیقی تحریک کو فروغ دیا جائے، جس کی ابتدا مولانا مودودیؒ نے کی تھی، وہ توقع رکھتے تھے کہ ان کے احباب ان کے کام کی تکمیل کریں گے، ہم سب کو اس توقع پر پورا اترنا چاہیے۔