مجاہد عالم امام مودودیؒ کی یاد میں

اللہ کا اپنے بندوں پر فضل و کرم ہے کہ اس نے ایک ہی دین، یعنی اسلام کے ساتھ انبیا و رسل بھیجے۔ اس کی بے پایاں رحمت ہے کہ اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انبیا و رسل کی آمد کا سلسلہ بھی بند کردیا۔ قرآنِ عظیم اور سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پیغام الٰہی مکمل ہوا، پھر اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو اس دین کی طرف بلانے کی ذمہ داری امتِ مسلمہ پر عائد کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیا نے اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچایا۔ کیا آپؐ کی رحلت کے ساتھ ہی آپؐ کا پیغام ختم ہو گیا؟ نہیں، بلکہ جس امت کی تشکیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی، وہی اس پیغام کی امانت دار بنی، تاکہ وہ اسے پوری دنیا میں ہمیشہ عام کرتی رہے، اور یہ ذمہ داری ادا کرکے وہ ’’خیر امت‘‘ کی مصداق بنے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ نے اس عظیم ربانی مشن کی ذمہ داری سنبھالی۔ نسلاً بعد نسل یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس امت پر اللہ کا یہ فضل بھی رہا ہے کہ وہ کبھی سچے، مخلص، باعمل داعیوں، مبلغوں اور ائمہ اعلام سے خالی نہیں رہی۔ تاریخِ اسلام ان ہدایت یافتہ رہنماؤں سے جگمگا رہی ہے۔ اسی تسلسل میں سرزمینِ پاک و ہند سے عظیم عالم، داعی، مجاہد، استاذ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ابھرے۔

ہمارے لیے اپنے علما و ائمہ کی حیات و خدمات کا مطالعہ بہت مفید ہے، کیونکہ اس مطالعے سے دعوتِ اسلامی کے ہر مرحلے کے لیے ہمیں تجربات ملتے ہیں۔ بحیثیتِ مجموعی دعوتِ اسلامی کے تمام مراحل، افکار، جہاد، طریقِ کار جو مختلف علاقوں اور زمانوں میں اپنائے گئے ہیں، وہ ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔

مجھے اس بات کا تو ہرگز دعویٰ نہیں کہ میں نے مولانا مودودیؒ کی تمام کتابیں پڑھ لی ہیں، یا ان کی تمام نگارشات کا مطالعہ کررکھا ہے، تاہم اپنے مطالعے اور معلومات کی حد تک ذیل کی سطور میں مجاہد عالم ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی سیرت و فکر کی کچھ جھلکیاں پیش کرتا ہوں:

جب آپ نے ہوش سنبھالا اُس وقت ہندوستان، برطانوی استعمار کے شکنجے میں کسا ہوا تھا۔ برطانیہ کے وحشیانہ جرائم، جو برطانوی قبضے کے بعد کبھی کم نہیں ہوئے، اپنی انتہا کو پہنچ رہے تھے۔ مسلمانانِ ہند انگریزوں کو نکالنے کے لیے تگ و دو کررہے تھے۔

امام مودودی ؒنے اسلامی ماحول کے حامل ایک دین دار گھرانے میں جنم لیا جو صلاح و تقویٰ اور علم سے معروف تھا۔ خاندانی ماحول اور نسبی تعلق کا نتیجہ تھا کہ مولانا کا دل و دماغ نورِ ایمان سے منور اور حُبِّ علم سے مالامال تھا۔ آپ کے والدِ محترم درست تربیت، عمدہ عادات اور اخلاقِ حسنہ پر بہت زور دیتے تھے۔ یہ اسی تربیت کا اثر تھا کہ سید مودودیؒ شروع ہی سے پاک باز، پاک سیرت اور اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ وہ اپنے پاکیزہ کردار، سلامتیِ فطرت اور اجلی فکر کی وجہ سے ممتاز تھے۔ سخت مشکل حالات کے باوجود آپ نے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔

سید مودودیؒ نے جب اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیا تو انھیں ہندوستان اور اس سے باہر ہولناک حالات دکھائی دیے۔ ان کے والدِ محترم وفات پا چکے تھے۔ مولانا محمود حسن کو جزیرہ مالٹا میں نظربند کردیا گیا تھا۔ برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت عروج پر تھی۔ خود اقوامِ یورپ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھیں۔ پہلی عالمی جنگ اسی تصادم کا مظہر تھی۔ مولانا مودودیؒ نے ’ترک قومیت‘ اور ’عرب قومیت‘ کا ظہور اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ عالمی طاقتوں نے ’خلافتِ عثمانیہ‘ کے خلاف جو ریشہ دوانیاں کیں، مولانا نے اس کا بھی مشاہدہ کیا۔

ہندوستان میں انگریز کی مخالفت بھی جاری تھی اور مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کش مکش بھی۔ ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ وحدتِ وطن کی داعی تھی، مگر بحیثیتِ مجموعی اس کی پالیسیاں مسلمانوں کے خلاف تھیں۔ مسلم لیگ، کانگریس کے ردعمل میں ظاہر ہوئی۔ حتیٰ کہ محمد علی جناح مرحوم نے 1919ء میں لکھنؤ کے اجتماع میں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کے مؤقف کو یکجا کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اسی دوران ’تحریک تحفظِ خلافتِ عثمانیہ‘ ظاہر ہوئی۔ اگر میں یہ کہوں تو ہرگز غلط نہ ہوگا کہ پورے عالم اسلام میں خلافت کو بچانے کی واحد تحریک ہندوستان میں ابھری اور اس نے خلافت کو بچانے کی اپنے طور پر بھرپور کوشش کی۔ کم عمری کے باوجود مولانا نے تحریکِ خلافت میں تحریر، تقریر اور عمل سے حصہ لیا۔ ترکوں اور عربوں کے مابین تنازعے کا آپ کو بہت صدمہ تھا۔ یہی تنازع سقوطِ خلافت کا سبب بنا اور دشمنانِ اسلام کو مسلم علاقوں میں گھسنے اور وہاں کے وسائل کے استحصال کا موقع ملا۔

مولانا مودودیؒ ان تمام حالات و واقعات سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ اگرچہ یہ آپ کا لڑکپن تھا، تاہم آپ نے حالات کا سامنا کرنے اور انھیں درست کرنے کا تہیہ کرلیا۔ سب سے پہلے میدانِ صحافت میں اترنے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ باطل کے خلاف قلمی جہاد کریں اور رزقِ حلال بھی کمائیں۔ مولانا نے اُس دور کے اہم مسائل پر قلم اٹھایا۔ یونانیوں کے مظالم اور مسیحی مبلغین کی مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوشش پر لکھا۔ آپ نے درست تصور اور ایمان و یقین کے ساتھ خلافت کی بھرپور تائید کی۔

اسی دوران آپ دہلی تشریف لے گئے جہاں مختلف نقطہ ہائے نظر کے سیاست دانوں اور علما سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ جمعیۃ العلما کی قیادت سے بھی ملے، اور ان کے پرچے میں کام بھی کیا۔ مولانا کو یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ کچھ ہندو تنظیمیں مسلمانوں کو ہندو بننے اور بت پرستی اختیار کرنے کی کھلم کھلا دعوت دے رہی ہیں، جب کہ مسلمان کانگریس میں شامل ہوکر ہندوؤں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اسی موقع پر آپ نے کہا تھا: ’’ماضی میں مسلمان پوری دنیا میں اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے، مگر آج مسلمانوں کی پستی و زوال کا یہ حال ہے کہ ایک بت پرست اٹھتا ہے اور انھیں ہندومت قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے‘‘۔ پیغام اسلام کے بارے میں فرمایا: ’’ماضی میں دعوت کا کام پیشہ ور داعی نہیں کرتے تھے، بلکہ امتِ مسلمہ کا ہر فرد داعی و مبلغ ہوا کرتا تھا‘‘۔ 1933ء میں ترجمان القرآن کی ادارت سنبھالی تو آپ کافی تجربے اور بیش بہا معلومات سے لیس تھے۔ چنانچہ ترجمان القرآن کا علمی و فکری معیار بہت اعلیٰ تھا۔ آپ تنِ تنہا اپنے رسالے کو خوب سے خوب تر بنانے میں مصروف رہے اور مالی وسائل کی کمیابی کی آپ نے پروا نہ کی، نگاہ اپنے مقصد پر رکھی۔ کیونکہ آپ کو اس خطرے کا مکمل ادراک تھا جو آپ کے ملک اور مسلمانوں کو گھیرے ہوئے تھا۔

مولانا نے اپنے خطبوں، مقالوں اور کتابوں سے جاہلیت کی عمارت کو ہلا کے رکھ دیا، اور اسلامی زندگی کی عظمت واضح کی۔ اسلام کے بنیادی تصورات کو ”دینیات“ کے نام سے پیش کیا، جسے پڑھ کر بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ آپ نے 1941ء میں لاہور میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھتے ہوئے جو اہداف و مقاصد طے کیے وہ اسلام سے ماخوذ تھے۔

ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین کشت و خون کی فضا میں پاکستان بنا۔ جماعت اسلامی نے مہاجرین کی امداد کے لیے اپنے وسائل کے مطابق اہم کردار ادا کیا۔ اب جماعت اسلامی کی دعوت اپنے لائحہ عمل کے لحاظ سے تین اہم نکات پر مرکوز ہوئی: پہلا یہ کہ عقیدے کی سلامتی و مضبوطی اور اس کے ساتھ ہی اس پر عمل درآمد کرنا۔ دوسرا یہ کہ مضبوط و محکم نظامِ جماعت جس میں کمزوری اور تساہل پسندی نہ ہو، اور تیسرا یہ کہ قدیم و جدید تعلیم کو یکجا کرنا۔ جب کہ عملی سطح پر ان امور پر زور دیا گیا کہ کامل توجہ سے محنت کی جائے اور ڈاکٹر کی طرح ہمدردی و احترامِ آدمیت کا رویہ اختیار کیا جائے۔

مولانا مودودیؒ نے ایک ایسی نسل تیار کرنے کے لیے جو اسلامی ریاست کے قیام اور اس کے اسلامی دستور کے لیے جدوجہد کرے‘ بڑی جاںفشانی سے اصولی طریقِ کار اپنایا۔ آپ نے اسلامی مملکت کے قواعد و ضوابط پیش کیے، اور اس کے لیے طویل قانونی جنگ لڑی۔ آپ نے قانون کے طلبہ اور ماہرینِ قانون کے اجتماع میں دو طویل لیکچر دیے، جن میں اس نکتے پر زور دیا کہ: ’’حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے، حکومت کا کام اللہ کی مرضی کو نافذ کرنا ہے۔ خلافِ اسلام ہر قانون کو منسوخ کرنا اور مستقبل میں ایسے قوانین وضع نہ کرنے کی پابندی کرنا ہے“۔ اس مہم کے نتیجے میں نفاذِ دستورِ اسلام کے مسئلے نے پاکستان میں بڑی اہمیت اختیار کرلی۔ اس کے حامی و موافق بھی تھے اور دشمن و مخالف بھی۔ مولانا مودودیؒ اسی سلسلے میں گرفتاری و رہائی کے کئی مرحلوں سے گزرے مگر قیدوبند کے یہ مرحلے آپ کو کلمۂ حق کی ادائیگی سے نہ روک سکے۔ آپ پورے ولولے سے اپنے مشن میں مصروف رہے، سازشوں کا قلع قمع کرتے رہے اور الزامات لگانے والوں کا حجت و دلیل سے جواب دیتے رہے۔

مولانا مودودیؒ نے فکر و عمل، دونوں میدانوں میں جامع تصور پیش کیا۔ آپ کا دل صدق و صفا اور خلوص سے لبریز تھا۔ آپ کی تحریر میں وضاحت و صراحت تھی، پیچیدگی اور ابہام کا نام و نشان تک نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے نسلوں کو متاثر کیا۔ آپ نے اپنے علم و عمل کے ذریعے جس مقدس مشن میں اپنی عمر کھپا دی، اس کے دوررس اثرات امتِ مسلمہ پر پڑے۔

آپ کی ہر کتاب کسی زندہ مسئلے اور اہم واقعے سے بحث کرتی ہے۔ ہر کتاب میں رہنمائی، وضاحت اور تعمیری لوازمہ موجود ہے، یا پھر راہِ راست سے منحرف ہونے والوں اور فتنہ پردازوں کا جواب ہے، اور درپیش صورتِ احوال کا درست تجزیہ ہے۔

جنوبی ایشیا میں اسلامی دعوت کے اس عصری ابھار اور فکر و تحقیق کی شان دار کوششوں کا گہرا مطالعہ ہونا چاہیے، بلکہ آج تو تمام ہی اسلامی تحریکوں کے وسیع و عمیق مطالعے و تجزیے کی شدید ضرورت ہے، تاکہ ہم ان سے تجربات اور سبق حاصل کرکے مسلمانوں کی زندگی کو درپیش آج کے نازک حالات میں رہنمائی لے سکیں، ماضی کی غلطیوں سے بچ سکیں اور درست راستے پر چلیں۔ کتاب و سنت کی واضح میزان پر اپنی غلطیوں کی نشان دہی کریں۔ ممکن ہے کہ یہ جائزہ اور محاسبہ اہلِ ایمان کو ایک صف میں کھڑا کردے اور وہ اُمتِ واحدہ بن جائیں۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اپنی شکستوں اور مصائب کا باعث ہم خود ہیں، جنھوں نے فرقہ بندی، عصبیت، بے ایمانی اور بے عملی اختیار کررکھی ہے۔ مسلمان ایک جان ہوتے اور اپنے ایمان کے مطابق زندگی بسر کررہے ہوتے تو حالات مختلف ہوتے۔

پاکستان بنا تو اسلام کے نام، مگر اس میں ’’آمریت‘‘ غالب رہتی ہے، حالانکہ اسلام اور پھر خود ملکی آئین کی رو سے آمریت ممنوع ہے۔ فلسطین مسلم سرزمین ہے مگر یہ بدنصیبی اور کم ظرفی نہیں تو اور کیا ہے کہ مسلمان اپنے مؤقف سے ہٹ کر بس اس پر اکتفا کرنے لگے ہیں کہ انھیں ایک نام نہاد خودمختار، بے بس ریاست مل جائے۔ اگر امتِ مسلمہ ’مسئلہ فلسطین‘ کو متحدہ طور پر اپنی پالیسیوں کا حصہ بناتی تو نتائج مختلف ہوتے۔

عالم اسلام کے عظیم مجاہد اور رہنما سید مودودیؒ نہ روایتی مصنف تھے اور نہ معروف معنوں میں کوئی لیڈر، بلکہ ان خوبیوں کو قرآن و سنت کے سائے میں پروان چڑھانے والے وہ منفرد انسان تھے جن پر اسلامی تاریخ ناز کرے گی اور مستقبل کی راہوں کو روشنی عطا کرے گی۔