خلق کی محبت خالق کی محبت میں ڈھلتی ہے۔ جس کے دل میں خلق کی محبت نہیں ہوتی وہ خالق کی محبت سے بھی محروم ہوتا ہے
یہ تصور بہت عام ہے کہ پاکستان کے سیاسی انتشار کی وجہ جمہوری اداروں کا عدم استحکام، بار بار مارشل لا کا لگنا، ہمارا طریقۂ انتخاب، جاگیردارانہ نظام اور سیاست دانوں کا کرپشن میں ملوث ہونا ہے۔ اِن اور اسی طرح کی بہت سی وجوہ کے بیان کے ذریعے ہمارے دانشور اور صحافی حضرات ملکی سیاست کا تجزیہ فرماتے ہیں اور ملکی مسائل کا حل تجویز کرتے ہیں، ایسا حل جو نہ صرف یہ کہ ان مسائل کی زمین کا سینہ چیرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے بلکہ خود ایک حل کا متقاضی ہوتا ہے۔
اس خاکسار کو اس عمومی تصور سے اتفاق نہیں۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ میرے خیال میں ایک تو اس طرح کے تجزیوں سے یہ تصور ابھرتا ہے کہ ہمارے یہ مسائل بنیادی طور پر سیاسی مسائل ہیں یا زیادہ سے زیادہ ان کا ایک عمرانی اور معاشی پس منظر ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان تمام مسائل کا ایک عمرانی اور معاشی پس منظر ہے، مگر بنیادی طور پر اپنی نہاد میں یہ تمام مسائل اخلاقی مسائل ہیں۔ سیاست دانوں کا کرپشن میں ملوث ہونا سیاسی مسئلہ نہیں، ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ اسی طرح مارشل لا کا بار بار لگنا اور جاگیردارانہ نظام کا اپنی بدترین شکل میں موجود رہنا بھی بنیادی طور پر ایک اخلاقی مسئلہ ہے، اور اگر ان چیزوں کے سلسلے میں ہمارے معاشرے کی قوتِ فکر اور قوتِ مدافعت دن بدن کمزور پڑتی جارہی ہے تو یہ بھی کوئی سیاسی یا معاشی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی مسئلہ ہی ہے۔ سیاسی اور معاشی زاویے ان مسائل کا صرف خارجی ڈھانچہ ہیں اور بس۔
گویا اس طرزِ فکر سے اتفاق نہ رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا کا ہر معاشی، سیاسی اور عمرانی نظام کسی نہ کسی قسم کی اخلاقیات پر استوار ہوتا ہے۔ مغرب کا جدجد فلسفہ کہتا ہے کہ اخلاق ایک اضافی شے ہے۔ یہ کہہ کر مغربی فلسفہ اخلاق کو اخلاق احمد بنادیتا ہے۔ اخلاق کے اضافی ہونے کے معنی کی کئی جہات ہیں، ان میں سے بنیادی جہت یہ ہے کہ اخلاق کا تصور امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ ہمیں اس تصور سے اتفاق نہیں، لیکن اگر ہم تھوڑی دیر کو مغربی فکر کے اس تصور کو مان لیں کہ اخلاقیات کا ڈھانچہ بدلتا رہتا ہے تو بھی کہا جاسکتا ہے کہ اخلاقیات کا ڈھانچہ بدلتا رہتا ہے مگر فنا نہیں ہوجاتا، اور کوئی معاشرہ یہ نہیںکہتا کہ اب اس کی بنیاد اخلاق کے بجائے بداخلاقی پر استوار ہے، اور اگر کسی معاشرے کی بنیاد بداخلاقی پر ہو تو بھی وہ اسے اخلاق ہی کہہ کر پکارتا ہے۔
مغربی فلسفہ خواہ کچھ کہے، انسان بنیادی طور پر ایک اخلاقی وجود ہے۔ ایسا اخلاقی وجود جو حیاتیاتی وجود کے بطن سے اپنی جبلتوں کے ساتھ پیکار کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے، آتا رہتا ہے۔ پیکار کا یہ عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے، اور جس شخص میں یہ عمل رک جاتا ہے وہ تلقین شاہ بنے بغیر نہیں رہتا… ایسا تلقین شاہ جیسے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ بن چکے ہیں۔ ممکن ہے آپ بھی ایسے ہی تلقین شاہ ہوں۔
مغربی معاشرے کے اخلاق کی بنیاد کا تو مجھے علم نہیں، لیکن ہمارے اخلاق کی بنیاد ہمارے تصورِ خدا پر استوار ہوتی ہے، اسی تصورِ خدا پر جو قرآن اور سنتِ رسولؐ سے حاصل ہونے والی تعلیمات کے ذریعے تشکیل پاتا ہے۔ ہمارے دین کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حکم بھی ایسا نہیں جس کا رشتہ کسی نہ کسی طور پر تصورِ خدا کے ساتھ استوار نہ ہوتا ہو۔ اسی تصور کے ذریعے خدا کے ساتھ ہمارا تعلق، ہمارا رشتہ استوار ہوا ہے۔ جیسا ہم خدا کا تصور رکھتے ہیں، اس کے ساتھ ہمارا تعلق بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔
میں نے یہاں خدا سے رشتے کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ خدا سے رشتے کا احساس ہم سب کے جوہر میں خلقی طور پر موجود ہوتا ہے۔ دنیا کے خاص انسان یعنی وہ انسان جن پر خدا کا خصوصی کرم ہوتا ہے، اس رشتے کو کسی انسانی رشتے کے تجربے کے بغیر دریافت کرلیتے ہیں اور تعلق کے ممکنہ اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہوجاتے ہیں، مگر عام لوگ اس رشتے کو کسی انسانی رشتے کے تجربے کے ذریعے ہی دریافت کرسکتے ہیں، اور اس راستے میں درجہ بدرجہ اپنے جوہر کو ترقی دے کر خدا سے حقیقی تعلق کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔ شاید اسی لیے خدا نے اپنے بندوں کو بندوں سے محبت کی تلقین کی ہے۔ اسلام کی انسانی پرستی (Humanism) کے معنی شاید یہی ہیں، یعنی انسان پرستی سے خدا پرستی کی جانب درجہ بدرجہ مراجعت۔ اس کے برعکس مغرب کی انسان پرستی صرف انسان تک محدود رہ جاتی ہے۔ چونکہ یہ انسان پرستی Transcend نہیں کرسکتی اس لیے یہ معکوس ہوکر انسان بیزاری پر منتج ہوتی ہے۔
رشید احمد صدیقی نے کہیں لکھا ہے کہ جس شخص کا تصورِ عورت پست ہوتا ہے، اس کا تصورِ خدا بھی پست ہوتا ہے۔ میں نے یہ فقرہ بہت سے لوگوں سے سنا بھی ہے لیکن کسی نے مجھے اس کی معنویت نہیں بتائی۔ معنویت تو خیر مجھے بھی اس کی معلوم نہیں لیکن گمان ہے کہ اس فقرے کے ذریعے رشید صاحب نے خدا کی جمالی جہت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ عورت چونکہ بنیادی طور پر ایک جمالی وجود کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے اس فقرے کے معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ جو ادنیٰ جمال کا درست تصور قائم نہیں کرسکتا وہ اعلیٰ ترین جمال کا بھی درست تصور قائم نہیں کرسکتا، یا جس نے ادنیٰ جمال کی معنویت نہ سمجھی وہ اعلیٰ ترین جمال کی معنویت کیا سمجھے گا! اس اعتبار سے رشید صاحب کا یہ فقرہ بڑا معرکہ آرا ہے۔
مگر اس میں ایک بڑا نقص بھی ہے اور وہ یہ کہ اس کے ذریعے ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ عورت کے تصورِ خدا کے بلند و پست ہونے کا پیمانہ کیا ہوگا؟ کیا یہ کہ جس عورت کا تصورِ مرد پست ہوتا ہے اس کا تصورِ خدا بھی پست ہوتا ہے؟ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ عورت جمالیاتی جہت کی نمائندہ ہے تو مرد جلالی جہت کا نمائندہ ہے، اور ذاتِ باری تعالیٰ کی ایک جہت جلال کی بھی ہے۔
یہاں پہنچ کر کسی قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ عام افراد کے لیے بلند تر تعلق کی طرف مراجعت کے لیے کسی انسانی تعلق کے تجربے کا ہونا کیوں ضروری ہے؟ عرض ہے کہ عام افراد کے نفس اور روح میں اتنی لطافت نہیں ہوتی کہ وہ خدا کے ساتھ حقیقی تعلق کی ’’لطافت کا بار‘‘ اٹھا سکیں۔ چونکہ ہر انسان ایک مختلف کائنات ہوتا ہے اس لیے ایک شخص کو دوسرے شخص کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بڑی روحانی جدوجہد سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ روحانی جدوجہد اس کے نفس اور روح میں کشادگی اور لطافت پیدا کرتی ہے، جس سے اس کے بنیادی جوہر میں علو پیدا ہوتا ہے اور اس طرح وہ حقیقی قربِ خداوندی کی عظیم تر نعمت کے حصول کے قابل ہونے لگتا ہے۔ ایک بات تو یہ۔ دوسری بات یہ ہے کہ عام انسان ٹھوس چیزوں کے تجربوں سے گزرے بغیر تجرید کی طرف نہیں جاسکتا۔ وہ ٹھوس چیزوں کے تجربے کے ذریعے ہی تجرید کی موجودگی کا یقین حاصل کرتا ہے۔ یہ اس کی مجبوری ہے۔ انسانی تعلق اسے یہ ٹھوس تجربہ فراہم کرتا ہے۔ یہیں سے خلق کی محبت خالق کی محبت میں ڈھلتی ہے۔ جس کے دل میں خلق کی محبت نہیں ہوتی وہ خالق کی محبت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ تصوف کے بعض سلسلوں میں ایک عرصے تک سلوک کا یہ طریقہ رائج رہا ہے کہ صوفیائے کرام عام افراد کو اُن کے نفس اور روح کی علویت کو بڑھانے کی غرض سے انہیں خلق سے محبت کی تلقین کرتے تھے۔ اس عمل کو سلوک کے زینے کی پہلی سیڑھی قرار دیا جاتا تھا۔ میرؔ صاحب نے کہا ہے:
لطف کیا ہر کسو کی چاہ کے ساتھ
چاہ وہ ہے جو ہو نباہ کے ساتھ
یہ جو نباہ ہے یہی انسانی روح میں کشادگی اور نفس میں لطافت پیدا کرتا ہے۔ انسانی رشتوں کے حوالے سے سب سے بڑی ریاضت یہی ہے، مگر یہ ریاضت ہرکس وناکس کے لیے نہیں کی جاسکتی۔
میرے خیال میں اب آپ پر یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ انسان کی زندگی میں انسانی رشتوںکی کیا معنویت اور کیا اہمیت ہے؟
انسانی رشتوں سے میری مراد یہ نہیں کہ ایک شخص کے بہت سے انسانی رشتے ہوں۔ انسان کے بہت سے بنیادی رشتے نہیں ہوسکتے۔ انسان کا بنیادی رشتہ کوئی ایک ہوتا ہے، باقی تمام رشتے اسی ایک رشتے کی توسیع ہوتے ہیں، اور یہ ایک رشتہ کسی کا بھی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ رشتوں سے محرومی کے معنی رشتے کی توسیع سے محروم ہونے کے نہیں بلکہ اس بنیادی رشتے سے محروم ہونے کے ہیں۔
یہاں میں نے بار بار انسانی رشتے کے الفاظ استعمال کیے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ اس کے وہ معنی بھی بیان کردوں جو کہ میرے ذہن میں ہیں۔ یقیناً یہاں انسانی رشتوں سے میری مراد خونیں یا سماجی رشتے نہیں ہیں (گو یہ بھی ہوسکتے ہیں)، بلکہ یہاں انسانی رشتے سے میری مراد وہ رشتہ ہے جو کسی انسانی وجود میں اضافے کا سبب بنتا ہو۔ یہ بات ذرا وضاحت چاہتی ہے۔
عام طور پر جب کوئی ہمارا پیارا ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوجاتا ہے تو ہم اپنے اندر دکھ کے ساتھ ایک خلا محسوس کرتے ہیں۔ دکھ تو خیر ہم بہت سے لوگوں کی جدائی پر محسوس کرتے ہیں مگر خلا کا احساس سب لوگوں کی جدائی پر نہیں ہوتا۔ تعلق اگر دوطرفہ ہو تو پھر ایک اور بات ہوتی ہے، انسان خلا کے ساتھ محسوس کرتا ہے کہ اس کے وجود کی توسیع رک گئی ہے، یعنی وہ جو پہلے اپنے پیارے کی موجودگی اور قربت کے باعث مسرت کی لہروں کی شکل میں یا ان کے نتیجے میں ہم اپنی ذات میں ایک توسیع کی سی کیفیت محسوس کرتے تھے وہ ختم ہوگئی اور ہمیں لگنے لگا کہ ہمارا وجود منجمد ہوگیا ہے۔ بہت سے لوگ ایسی کیفیات معاشی اور سماجی سہاروں سے محرومی کے باعث بھی محسوس کرتے ہیں، مگر بعض لوگوں کے لیے یہ ایک وجودی مسئلہ ہوتا ہے۔ میرے نزدیک حقیقی رشتے کا معیار یہ ہے، اور ہم ایسے حقیقی رشتے کی لذت سے محروم ہوچکے ہیں، تاہم اس سے میری مراد یہ نہیں کہ ایسے کسی رشتے سے محروم ہوکر انسان زندگی کی عام خوشیوں میں شریک نہ ہو، مسکرانا ترک کردے اور زندگی کے عام معاملات ترک کردے۔ ایسا ممکن نہیں اور نہ ایسا ہونا چاہیے، کیونکہ یہ خدا کی بخشی ہوئی نعمت یعنی زندگی کے ساتھ بددیانتی کے مترادف ہے۔
اب اس پوری بحث کے پس منظر میں میرا دعویٰ ہے کہ ہمارے اکثر سیاست دان اپنے بنیادی رشتے سے محروم ہوچکے ہیں۔ سیاست دانوں کی مثال اس لیے دے رہا ہوں کہ اس وقت معاشرے کے تمام طبقات میں سب سے زیادہ سفاکی اور سنگ دلی اسی طبقے میں پائی جاتی ہے۔ ورنہ سیاست دان کیا، باقی تمام طبقوں، یہاں تک کہ شاعروں، ادیبوں اور نام نہاد دانشوروں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ یہ جو آپ معاشرے میں دولت کی بڑھتی ہوئی ہوس دیکھ رہے ہیں، یہ جو آپ تمام حقوق کی پامالی کے مظاہر ملاحظہ فرمارہے ہیں، یہ جو قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، یہ جو بے جا شہرت اور اقتدار طلبی کے معاملات ہیں یہ سب بنیادی انسانی رشتوں سے محرومی کے مختلف مظاہر ہیں۔
آپ دنیا کے اکثر جرائم پیشہ افراد کی کیس ہسٹریاں پڑھیں گے تو پائیں گے کہ اُن کے مجرم بننے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اُن کے بنیادی انسانی رشتے ختم ہوچکے ہیں۔ معاشی ناہمواری اور عزت و تکریم کے معاملات بھی جرائم کی پشت پر کام کرتے ہیں، تاہم اگر انسان کا کوئی بنیادی رشتہ موجود ہو تو وہ سفاکی کا ایسا مظاہرہ نہیں کرسکتا جیسا مظاہرہ ہمارے یہاں اور تیسری دنیا کے اکثر ممالک، بلکہ پوری دنیا میں ہورہا ہے۔ اگر آپ اپنے سیاست دانوں کے بنیادی رشتوں کی تلاش کریں گے تو پائیں گے کہ یا تو وہ ہیں ہی نہیں، یا پھر ان کے ہونے کا محض گمان ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ کسی سے پوچھیں کہ بھائی تم یہ دولت اور اقتدار کے پیچھے اس انداز سے کیوں دوڑ رہے ہو؟ تو وہ آپ کو جواب دے گا کہ اپنے بیوی بچوں کے لیے۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہوتا۔ وہ ایسا اپنے اندر انسانی رشتے کی عدم موجودگی سے پیدا ہوجانے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے کررہا ہوتا ہے۔
اس مختصر سی بحث سے ثابت ہوچکا ہے کہ انسانی رشتوں کی اہمیت اور معنویت کیا ہے، اور یہ کہ ان میں پیدا ہوجانے والی خرابی کے اثرات معاشرتی رویوں میں تبدیلی سے لے کر ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ تعلق تک جاتے ہیں، اور اس طرح پوری کائنات کے ساتھ انسان کا تعلق ایب نارمل ہوجاتا ہے۔ انسانی رشتوں میں خرابی انسانی نفسیات پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہے اور انسان کو کس انتہا تک اشیا اور اس کے ماحول کا غلط Perception فراہم کرتی ہے اس کا اندازہ ذیل کی مثال سے لگایا جاسکتا ہے:
ایک بار سگمنڈ فرائیڈ کے پاس ایک صاحب علاج کی غرض سے لائے گئے۔ اُن کا مسئلہ کوئی عام نفسیاتی مسئلہ نہیں تھا، انہیں کسی سے کوئی شکایت نہ تھی، نہ انہیں کسی سے محبت تھی نہ نفرت، نہ ہی کوئی خوف وغیرہ کا مسئلہ تھا۔ فرائیڈ نے اُن سے گفتگو کا آغاز کیا تو اُن صاحب نے فرمایا کہ ’’جناب مسئلہ یہ ہے کہ اس پوری کائنات میں کوئی نظم و ترتیب نہیں پائی جاتی۔ یہ کائنات بڑی بے ہنگم اور عجیب ہے۔ دیکھیے نا، آسمان پر کہیں چار تارے نظر آتے ہیں اور کہیں ہزاروں لاکھوں۔ چاند بھی عجیب گول سا ہے اور اس میں داغ بھی ہیں، اور سنا ہے کہ چاند سورج کی روشنی سے چمکتا ہے۔ عجیب مسخرا پن ہے۔‘‘
فرائیڈ نے اس مسئلے کو توجہ سے سنا اور پھر کچھ دن ان کا نفسیاتی علاج کیا۔ تھوڑے دنوں بعد یہ صاحب دوسری نشست کے لیے فرائیڈ کے پاس حاضر ہوئے اور اس بار بولے:
’’خیر صاحب! کائنات میں تو کچھ نہ کچھ نظم و ضبط پایا جاتا ہے مگر ہماری یہ دنیا تو بہت ہی غیر منضبط ہے۔ بہت بے ترتیب ہے۔ کہیں اونچے اونچے پہاڑ کھڑے ہیں اور کہیں گہری گہری کھائیاں ہیں۔ جہاں سمندر ہونا چاہیے وہاں صحرا ہے، اور جہاں صحرا ہونا چاہیے وہاں سمندر ہے۔ اور تو اور پھولوں کے ساتھ کانٹے ہوتے ہیں۔ کتنی بدصورت بات ہے۔ کوئی انسان کالا ہے اور کوئی سفید، کوئی موٹا ہے اور کوئی پتلا۔ دنیا بڑی غیر منظم ہے صاحب!‘‘
فرائیڈ نے ان صاحب کا کچھ اور دنوں تک نفسیاتی علاج کیا۔ یہ صاحب اس علاج کے بعد ایک بار پھر فرائیڈ کے سامنے حاضر ہوئے اور بولے:
’’چلیں صاحب! مان لیتے ہیں کہ اس دنیا میں بھی تھوڑا بہت نظم پایا جاتا ہے، مگر یہ جو ہمارا براعظم ہے یہ تو بڑا اوبڑکھابڑ ہے۔ سال کے اکثر مہینوں میں یہاں سردی رہتی ہے اور بارش کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ بڑی گڑبڑ ہے صاحب یہاں پر۔‘‘
فرائیڈ نے ان کا مزید علاج کیا۔ وہ صاحب چوتھی نشست کے لیے حاضر ہوئے اور بولے:
’’صاحب! چلیں ہمارا براعظم بھی ٹھیک ہے مگر یہ ہمارا ملک بڑا گڑبڑ ہے‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ملک کی بے شمار خامیاں بیان کیں۔ اگلی نشست میں انہیں ملک میں ترتیب نظر آئی مگر اپنا شہر بے ڈھنگا نظر آنے لگا۔ اس کے بعد معاملات محلے اور پھر ان کے اپنے گھر تک جاپہنچے۔ آخر میں یہ معلوم ہوا کہ گھر بھی ٹھیک ہے البتہ ان کے ازدواجی تعلقات بڑے خراب ہیں جس کے باعث ان کی بیوی اور ان کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوچکی ہے۔
دیکھیے ایک انفرادی تعلق کی خرابی کے باعث انہیں پوری کائنات ہی غیر منظم نظر آنے لگی۔
یہ واقعہ کوئی لطیفہ نہیں بلکہ یہ فرائیڈ کی کیس ہسٹریز میں موجود ہے۔ آپ اس سے صرف اتنا اختلاف کرسکتے ہیں کہ فرائیڈ صاحب پوری زندگی صرف جنس کے ذریعے Interprete کرتے ہیں، جب کہ ہم انسانی وجود کے درجوں یا مراتب کا تصور رکھتے ہیں، یعنی یہ تصور کہ انسان بیک وقت ایک جبلی، نفسی اور روحانی وجود ہے، اور ہمارے اس تصور کی رو سے صحت مند انسان وہی ہے جس میں یہ تمام اجزا کامل ہم آہنگی کے ساتھ عمل کریں۔
اس پوری بحث سے میرا خیال ہے کہ انسانی رشتوں کی مختلف جہات اپنی بنیادی اہمیت کے ساتھ واضح ہوکر سامنے آگئی ہیں۔ اس حوالے سے گزارش یہ ہے کہ ہمیں اپنے مسائل کو اور خاص طور پر سیاسی مسائل کو انسانی رشتوں کی اس صورتِ حال کے پس منظر میں دیکھنے کا آغاز کردینا چاہیے۔ سیاسی مسائل کو خالص سیاسی پس منظر میں دیکھنے کی اپنی اہمیت ہے، مگر یہ صورت ان مسائل کے بنیادی سبب کو تلاش کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے گی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ معاشرے کے ہر مظہر کا انحصار انسان پر ہے۔ جب انسان بدلتا یا بگڑتا ہے تو اس کی سائنس بھی بدلتی ہے، اس کا ادب بھی بدلتا ہے، اس کا فلسفہ، اس کا پورا ماحول بھی بدلتا ہے… خواہ یہ بدلنا بگڑنے کے معنی میں ہو یا سنورنے کے معنی میں۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انسانی شخصیت کی تعمیر مختلف رشتوں کے جال سے تیار ہوتی ہے۔
انسان کے بنیادی رشتے چار ہیں:
(1) انسان کا خود سے رشتہ
(2) دوسرے انسانوں سے رشتہ
(3) کائنات سے رشتہ
(4) خدا سے رشتہ
انسان انہی رشتوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ ان رشتوں سے باہر جو کچھ ہے وہ ویرانہ ہے جس میں یا تو فرشتے قیام کرسکتے ہیں یا شیطان۔
زیست کیا چیز ہے، اک کارِ تعلق ہے سلیمؔ
بے تعلق رہا ایسا تو میں مر جائوں گا
حساس انسان بے تعلق ہوکر واقعی مر جاتا ہے، مگر بے حس لوگ مرنے کے بجائے جانور بن کر جینا پسند کرتے ہیں۔ آپ کو ہر طرف ایسے بے شمار انسان نما جانور مل جائیں گے۔