پارلیمانی امور میں عدالتی مداخلت کا تنازع
ملک میں عام انتخابات اب جمہوریت کی دہلیز پر کھڑے دستک دے رہے ہیں۔ کسی حد تک مشروط تاہم یقینی امر ہے کہ جنوری کے آخری ہفتے سے فروری کے وسط تک ملک میں عام انتخابات ہوجائیں گے۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے ریٹائرڈ بیوروکریٹ چیف الیکشن کمشنر راجا سکندر سلطان پورے انتخابی عمل کےنگراں ہوں گے۔ دوسرا نکتہ نظر یہ ہے کہ اگر ملک میں معاشی استحکام آگیا تو انتخابات میں تاخیر ہوسکتی ہے، اور دوسری صورت میں انتخابات جنوری سے فروری تک ہوجائیں گے۔ پیپلزپارٹی برابری کی سطح مانگ رہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری سے کہا جارہا ہے کہ وہ خود کو سندھ تک محدود رکھیں۔ اب فیصلہ آصف علی زرداری کو کرنا ہے کہ لڑنا ہے، اینٹ سے اینٹ بجانی ہے یا حالات سے مفاہمت کرلینی ہے؟ ملک میں تیسرا سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ نوازشریف وطن واپس آنا چاہتے ہیں، مسلم لیگ(ن) چاہتی ہے کہ اُن کا فقیدالمثال استقبال ہو، لیکن وہ ایک سیاسی راہنما کے طور پر نہیں بلکہ ایک سزا یافتہ اور اپنے مزاج کے عین مطابق ایک منتقم سیاسی راہنما کے طور پر آرہے ہیں، جنہیں عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا ہوگا۔ ملک کے اس سیاسی پس منظر میں ایک اضافہ عدالتِ عظمیٰ میں ہونے والی اہم تبدیلی نے کردیا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال مدتِ ملازمت مکمل کرکے سپریم کورٹ سے رخصت ہوگئے ہیں، اُن کے بعد بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے نئے چیف جسٹس بن گئے ہیں۔ انہوں نے صدرِ مملکت کی اجازت سے اپنی شریکِ حیات محترمہ سیرینا عیسیٰ کو اسٹیج پر بلاکر اپنے ساتھ کھڑا کرلیا اور تاریخ رقم کردی۔ یہ ایک پیغام تھا کہ اپنے حق کے لیے اگر شریکِ حیات کا ساتھ مل جائے تو کامیابی یقیناً آپ کا مقدر بنے گی۔ دوسری اچھی روایت انہوں نے یہ قائم کی کہ حلف نامہ انگریزی کے علاوہ اردو میں بھی پڑھا۔ صدر دونوں زبانوں میں حلف کے الفاظ پڑھتے رہے اور قاضی صاحب دہراتے رہے۔ انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن میں سینئر ججوں کو نامزد کرنے کے علاوہ پہلی بار ایک خاتون جج کو عدالتِ عظمیٰ کا رجسٹرار مقرر کردیا۔ نئی رجسٹرار جزیلا اسلم اس سے قبل سیشن جج اوکاڑہ تھیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا رخصت ہونا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس بن جانا کسی کے جانے اور کسی کے آنے کی کہانی نہیں ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے اور ان کے والد قاضی محمد عیسیٰ پاکستان میں قائداعظم کے رفیقِ خاص تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف انہی صدرِ مملکت نے لیا جنہوں نے پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران ان کے خلاف اثاثوں کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں بطور ریفرنس دائر کیا تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف سازش کا تن تنہا مقابلہ کیا اور کامیابی سے الزامات کا دفاع کیا جس میں ان کی اہلیہ کا بھی بنیادی کردار تھا۔ نتیجتاً ریفرنس ناکام ہوگیا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے بطور جج سپریم کورٹ کئی مشہور کیسوں کے فیصلے صادر کیے جن کے اثرات دیر تک محسوس کیے گئے۔ ان کے بے باکانہ فیصلوں کی وجہ سے انہیں کئی اہم کیسوں سے دور رکھا گیا۔ ملک اس وقت جس سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے، عدالتِ عظمیٰ کے سامنے کئی پیچیدہ مقدمات آسکتے ہیں۔ خاص طور پر عام انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے جو نئے چیف جسٹس اور فاضل ججوں کی قوتِ فیصلہ کا امتحان ہوگا۔
جہاں تک جسٹس عمر عطا بندیال کا تعلق ہے اُن کی شخصیت کا ایک پہلو یہ تھا کہ نہایت ایمان دار اور شائستہ فطرت کے انسان تھے۔ ہر ایک سے ان کا برتائو بہت ہمدردانہ تھا، کوئی تکبر نہیں تھا۔ لیکن وہ آپس میں یونٹی قائم نہیں رکھ سکے۔ جسٹس عمرعطا بندیال کی سب سے بڑی ناکامی یہ رہی کہ وہ جس سیاست میں الجھ گئے تھے اُس سے نکل نہیں پائے۔ ان کے دور میں عدلیہ میں دھڑے بندی اس حد تک واضح ہوئی کہ اس سے قبل اس قسم کی دھڑے بندی نہیں دیکھی گئی۔ نئے چیف جسٹس آئین کو بنیاد بناکر چلیں گے تو ملک میں بھی استحکام آسکتا ہے۔ عمر عطا بندیال کے لیے مشکل ہوگیا تھا کہ پی ٹی آئی کو سپورٹ کریں یا اسٹیبلشمنٹ کو؟ توقع تھی کہ چیف جسٹس بننے کے بعد وہ کچھ انقلابی اصلاحات سپریم کورٹ میں لائیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے ہوا یہ کہ وہ اپنے ہائوس کو ان آرڈر نہیں رکھ سکے اور چند مخصوص ججوں پر انہوں نے اعتماد کرتے ہوئے انہیں تمام بینچوں کا حصہ بنایا، جس پر بار بار انگلیاں اٹھیں، اعتراضات ہوئے۔نئے چیف جسٹس کے لیے بڑے چیلنجز ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ انہیں اپنا ہائوس ان آرڈر کرنا ہے۔ جو گروپنگ شدید ترین ہوچکی ہے اس کو کم کرنا ہے۔ حالیہ گروپنگ تو جسٹس سجاد علی شاہ کے دور سے بھی زیادہ سنگین رہی۔ جب تک یہاں اتحاد نہیں ہوگا وہ اپنے فیصلے آنے والے دنوں میں منوانے کے قابل نہیں ہوں گے۔ عدلیہ ہمیشہ ہی متحرک رہی لیکن گزشتہ دس سالوں میں سیاست دانوں کی نااہلی کے فیصلوں نے تلخیاں بڑھا دی تھیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے بعد جوڈیشل ایکٹوازم اب اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا، آئے روز سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کی پیشیاں ہوتی تھیں۔ گزشتہ چار چیف جسٹسز کے دور میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس حد تک سیاسی مداخلت کی ہے کہ سپریم کورٹ میں سیاسی رنگ غالب رہا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، سابق چیف جسٹس گلزار احمد اور سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بعد سبک دوش ہونے والے چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کی تلخیاں ختم کرنے میں وقت لگے گا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آخری روز عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی نیب ترامیم کے خلاف درخواست کا فیصلہ سنایا۔ اس کا سب سے بڑا نقصان سابق حکمراں اتحاد کی سیاسی جماعتوں کو ہوسکتا ہے جن میں سرفہرست پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ہیں، کیونکہ نئی نیب ترامیم کے بعد ان دونوں جماعتوں سے وابستہ سیاست دانوں کے جو کیسز ختم ہوگئے تھے اب وہ دوبارہ بحال ہوسکتے ہیں۔ نیب (ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2022 کے خلاف دائر کی گئی چیئرمین پی ٹی آئی کی آئینی درخواست پر مختصر فیصلے میں درخواست کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے نیب (ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2022 کے ذریعے کی گئی 10 ترامیم میں سے9 کو منسوخ کرنے کے علاوہ 50 کروڑ روپے کی حد سے کم بدعنوانی کے مقدمات میں نیب کا دائرۂ اختیار ختم کرنے کی شق کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ اس کے نتیجے میں بظاہر سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم نوازشریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف ’توشہ خانہ‘ ریفرنسز سمیت سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف احتساب عدالت سے منتقل ہونے والا ’ایل این جی ریفرنس‘ اور سابق وزیراعظم و اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویزاشرف کے خلاف احتساب عدالت سے منتقل ہونے والا رینٹل پاور ریفرنس بھی بحال ہوگیا ہے۔ نیب میں اس وقت ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کے عہدے خالی ہیں، اور جب تک ان پر تعیناتیاں نہ ہوں نیب بحال ہونے والے مقدمات پر کوئی کارروائی نہیں کرسکے گا‘ تاہم اس کے باوجود جب تک نظرثانی کی اپیل نہیں آجاتی اس فیصلے کی اپنی اہمیت ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا ایک دن پہلے یہ فیصلہ کرجانا ان دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک خاموش پیغام تھا جنہوں نے اپنی حکومت کے دوران ان پر قانونی اور سیاسی طور پر دباؤ بڑھائے رکھا۔ اہم بات یہ ہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال کا اپنی مدت ملازمت سے ایک دن پہلے کا یہ ماسٹر اسٹروک قانونی طور پر کتنا درست ثابت ہوگا یہ تو تفصیلی فیصلے کی وجوہات سامنے آنے کے بعد پتا چلے گا۔ اس فیصلے پر نظرثانی کی اپیل بھی دائر ہوسکتی ہے۔ نظرثانی کی اپیل کی سماعت کا فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں گے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا باقاعدہ پہلا تنازع اُس وقت شروع ہوا جب اُن کی سربراہی میں ایک بینچ نے اسٹیبلشمنٹ اور سابق وزیراعظم عمران خان کے ایما پر بھیجے گئے صدارتی ریفرنس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تحقیقات کی بات کی اور صدارتی ریفرنس میں لگائے گئے الزامات کا معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیا، اور پھر اُن کا آخری تنازع ملٹری کورٹس کے خلاف بینچ تشکیل دینے سے متعلق تھا جس میں جسٹس فائز عیسیٰ سمیت سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں نے بینچ کی تشکیل کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا تھا، اور یہ وہ تنازع تھا جس کے ذریعے سپریم کورٹ کے اندر موجود اختلافات نے شدت پکڑی اور ملک کی سب سے بڑی عدالت واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی، حکومت اور سپریم کورٹ آمنے سامنے آگئے تھے اور ملک میں چیف جسٹس کے بے پناہ اختیارات کو محدود کرنے کی بحث چھڑ گئی تھی۔ بنیادی طور پر اس تنازعے نے ملٹری کورٹس کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جنم نہیں لیا بلکہ یہ معاملہ تین چار سال پہلے ہی شروع ہوگیا تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال تاریخ کے وہ واحد چیف جسٹس ہیں جن پر اُن کے اپنے ساتھی ججوں نے چارج شیٹ کی ہے‘ اور ان پر من پسند بینچز تشکیل دینے اور ون مین شو کے ذریعے عدالت چلانے کا الزام لگایا ہے۔ یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے دور میں آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کی کوشش کی ہے اور پارلیمانی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ صرف یہی نہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر اُن کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کو سائیڈ لائن کرنے کا الزام بھی لگ چکا ہے جس کا اعتراف دونوں جج اپنے اپنے عدالتی نوٹس میں کرچکے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال جس حالت میں سپریم کورٹ کو چھوڑ کر گئے ہیں وہ اپنی تاریخ کی سب سے متنازع سمجھی گئی۔ چیف جسٹس کی ساس کی جب آڈیو لیک ہوئی تو چیف جسٹس خود آڈیو کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے خلاف کیس کی سماعت کرتے رہے، یوں مفادات کے ٹکراؤ کے رنگ روپ دیکھے گئے۔ چیف جسٹس نے آڈیو لیک کمیشن کی کارروائی کو معطل کیا اور خود اپنے اوپر اعتراضات کا تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں انہوں نے اپنا دفاع بھی کیا۔
ملک کا سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے روبرو کیس کا سامنا کررہے ہیں۔ ان پر چار کیسز مسائل کھڑے کر سکتے ہیں، ان کیسز میں توشہ خانہ، سائفر، منی لانڈرنگ کے پیسے بحریہ ٹاؤن کو دینا اور 9 مئی کا کیس شامل ہے۔9 مئی سب سے خطرناک کیس ہے جو فوجداری کیس بنتا جا رہا ہے۔ سائفر کیس میں عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستیں مسترد ہوچکی ہیں۔ عدالت نے تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ یہ ایک ٹاپ سیکرٹ کیس ہے جس میں چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے خلاف کافی مواد موجود ہے اور ایف آئی آر کی روشنی میں دونوں نے دفعہ 5اور 9کے تحت جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ جبکہ 5اکتوبر 2022ء کو ایف آئی اے کے شعبہ انسدادِ دہشت گردی میں اس سے متعلق مقدمے کے اندراج میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے اور قومی سلامتی خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی کوشش پر ملزم نامزد کیا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔ ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم ہائوس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارتِ خارجہ کو واپس نہیں کی۔ مزید بتایا گیا کہ سائفر تاحال عمران خان کے قبضے میں ہے۔ وفاقی کابینہ نے اس معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کی تھی۔ سائفر کی گمشدگی اور اس سے متعلق مقدمے کی روشنی میں ایف آئی اے کی ٹیم نے گزشتہ دنوں اٹک جیل میں عمران خان سے پوچھ گچھ کی۔
عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں مسترد ہونے پر قانونی حلقے ملی جلی آرا کا اظہار کررہے ہیں جن میں اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ جانا بھی شامل ہے۔ یہ ایک حساس معاملہ ہے جس میں قومی اداروں کی ساکھ کا سوال ہے۔