اب تو مٹیا برج صنعتی محلہ بن گیا مگر اُس وقت بھی اس اجڑے دیار میں پرانے لکھنؤ کی ذراسی جھلک باقی تھی۔ یہاں وہاں شکستہ مکانوں میں خانماں خراب امیر زادے چھوٹے موٹے وثیقوں پہ گزر اوقات کرتے تھے۔ یہیں میں نے شہزادہ جواں بخت کے پوتے مرزا بیدار بخت کو ڈھونڈ نکالا اور بہادر شاہ ظفر کے ایام اسیری پر ’’تیموریہ گھرانے کی آخری جھلک‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس کا ہندوستان کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ یہ 1931ء کی بات ہے۔
مولانا آزاد کے مریدوں میں چند دانشور بھی تھے جن میں مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی، عبداللہ مصری اور اسحاق امرتسری قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے خیالات کی تائید میں انہوں نے پہلے ہفتہ وار ’’پیام‘‘ اور بعد میں روزنامہ ”ہند“ نکالا۔ ان صاحبوں سے مجھے نیاز حاصل تھا، بلکہ اسحاق امرتسری سے تو اب بھی کراچی میں ملنا ہوتا ہے اور پرانی صحبتوں کا ذکر آتا ہے۔ میں جب کلکتہ پہنچا تو ’’الہلال‘‘ دوبارہ نکل کر بند ہوچکا تھا۔ اس کے ادارۂ تحریر سے عبدالرزاق ملیح آبادی اور نجیب اشرف ندوی وابستہ رہ چکے تھے۔ رسالہ ’’آفتاب‘‘ دو سال چراغ حسن حسرت کی ادارت میں آب و تاب سے نکلا اور پھر غروب ہوگیا۔ لے دے کر مولانا شائق احمد عثمانی کا روزنامہ ”عصرِ جدید“ ہمیشہ کی طرح اردو کا نام لیوا رہ گیا تھا اور حسرتؔ و شمیمؔ دونوں اس کے معاون تھے۔
چراغ حسن حسرت اور مظفر حسین شمیم کی اخبار نویسی نے ان کی شاعری، اور شاعری سے دلچسپی نے اخبار نویسی کو نقصان پہنچایا۔ شروع سے اردو اخباروں کو ادبی چٹخارے کی جو عادت پڑ گئی ہے، اگر غور کیجیے تو اس سے ممکن ہے کہ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہو لیکن معیار پر برا اثرا پڑا۔ مولانا آزاد، قاضی عبدالغفار اور مولانا ظفر علی خاں جیسے انشا پردازوں تک کو اس قسم کی اخبار نویسی نے نقصان پہنچایا، کیوں کہ واقعات کا تجزیہ جذبات سے نہیں کیا جاسکتا۔
حسرت صاحب کی آزاد منشی، شوخیِ طبع اور طنز و مزاح کی استادی کا سب نے اقرار کیا ہے۔ میں نے کلکتہ سے کراچی تک انہیں ایک ہی رنگ میں دیکھا۔ ان کا مقولہ تھا کہ ”ماحول برا ہو تو لاحول پڑھو“، اور اس کا مظاہرہ یوں کرتے کہ جب کوئی بری خبر آتی تو سگریٹ کا گہرا کش کھینچ کر چٹکی سے اس کی راکھ جھاڑ دیتے، گویا دامن سے غم جھٹک دیا ہو۔ اردو اور فارسی ادب پر ان کی نظر گہری تھی، البتہ ان کا ذوق رومانیت اور لذت پرستی سے زیادہ نہ بڑھ سکا۔ ان کے کمرے میں کانن ڈائلؔ، میری کوریلی اور رائیڈر ہیگرڈ کے ناولوں کے انبار لگے تھے جنہیں سال بھر بعد مولانا ظفر علی خاں کی طلب پر لاہور جاتے وقت وہ مجھے بخش گئے۔
کلکتہ اُس وقت ہندوستان کا سیاسی اور تہذیبی مرکز تھا۔ اس کا شعور مجھے ذرا دیر سے ہوا۔ البتہ یہ فوراً سمجھ میں آگیا کہ وہ عروس البلاد ہے۔ ہر روز میں ٹرام میں بیٹھ کر کبھی ہگلی کے کنارے جاتا اور گھنٹوں دریا کی زندگی کا نظارہ کرتا، کبھی علی پور کے چڑیا گھر میں چرند و پرند کی کلیلوں سے خوش ہوتا، یا پھر وکٹوریہ میموریل میوزیم اور آرٹ گیلری میں بیٹھ کر انسان کی کاریگری کے نمونوں پر حیرت کرتا۔
(”گردِ راہ“۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری)
مجلس اقبال
عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی
علامہ اقبال اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔