فرید احمد پراچہ صاحب قومی سطح سے اوپر عالم اسلامی کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ اپنی ڈائری باقاعدگی سے لکھتے ہیں اور پھر اسے مرتب کرکے شائع کرواتے ہیں۔ قارئین ان کی تحریروں کو بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ آپ کے کئی سفرنامے اور علمی کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔
ایک نہایت دلچسپ کتاب ’’میرے رہنما، میرے ہم نوا‘‘ اس وقت پیش نظر ہے۔ اسے شروع سے لے کر آخر تک پڑھتے ہوئے ذرا بھی کوفت محسوس نہیں ہوتی۔ مصنف نے لگ بھگ سو سے زائد شخصیات پر اپنی حسین یادوں کا مرقع اس حسین انداز سے مرتب کیا ہے کہ ہر شخصیت کا ایک دلچسپ اور منفرد پہلو ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، سید منور حسنؒ، پروفیسر غلام اعظمؒ، مطیع الرحمن نظامی شہید اور دوسری اہم شخصیات سے مصنف کی ملاقاتیں اور یادداشتیں اس کتاب کی زینت ہیں۔
مصنف نے اپنے دوست احباب کے بارے میں خوب صورت تاثراتی مضامین، ملاقاتوں اور تعلقات پر مبنی حکایات کا مجموعہ بڑی محنت اور محبت سے مرتب کیا ہے۔ وہ تعلق بنانا اور نبھانا خوب جانتے ہیں جس کا اظہار ان کے مضامین سے ہوتا ہے۔ تعلقات بنانا اور نبھانا ایک فن ہے جس میں انہوں نے کمال مہارت کا ثبوت دیا ہے، اور پھر ان دوستوں اور احباب کے نام اپنی یادوں کی کہکشاں میں سجادیے ہیں۔
اس کہکشاں میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نامور اور چیدہ چیدہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں۔ ایسے خوب صورت لوگوں سے اپنے تعلقات اور یادوں پر مبنی یہ خوب صورت کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ مصنف بولنے اور لکھنے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔ وہ بولتے اور لکھتے ہیں تو اپنے اس ہنر کو پوری طرح آزماتے ہیں۔ یہاں بھی انہوں نے یہ گُر آزمایا ہے۔ ان کی بھرپور سیاسی، دعوتی اور پارلیمانی زندگی کا عکس اس کتاب میں جابہ جا نظر آتا ہے جو قاری کو مسحور کردیتا ہے، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ کتاب کا سرورق، حروف خوانی اور کاغذ سب ہی بہترین ہیں۔ کتاب کے شوقین افراد کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ تحریکی افراد کے تذکرے سے مزین یہ کتاب تحریک اور تحریکی افراد کے لیے دلچسپ لوازمے پر مبنی عمدہ معلومات لیے ہوئے ہے۔