مثنوی ”اسرار و رموز“ مع سلیس اردو ترجمہ، ازمیاں عبدالرشید

مثنوی اسرارِ خودی اور مثنوی رموزِ بے خودی یورپ اور امریکہ میں اقبال کا اوّلین تعارف ثابت ہوئیں کیونکہ کیمبرج یونیورسٹی کے معروف مستشرق ڈاکٹر نکلسن نے ان کا انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کردیا تھا۔

مجھ جیسے فارسی ناآشنا یا نام نہاد اردو دان پر میاں عبدالرشید صاحب شہید کا یہ احسان ہے کہ نہ صرف ”اسرار و رموز“ بلکہ اقبال کے سارے فارسی کلام کا بامحاورہ اور سلیس اردو ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ نہیں بلکہ کسی اقبال شناس بزرگ کی محفل میں بیٹھ کر ہر روز کچھ حاصل کرنے کے نورانی تجربے جیسی کوئی چیز ہے۔ میاں صاحب اقبال کی محفلوں میں بھی شریک ہوئے اور اقبال کے نام ان کے خطوط بھی منظرِعام پر آچکے ہیں۔

قریب چار پانچ دہائی پہلے شیخ غلام علی اینڈ سنز نے کلیاتِ اقبال فارسی مترجم شائع کی تھی، لیکن چند برس سے میاں عبدالرشید شہید کے قابل صاحب زادے جناب کرنل (ر) محمد محسن اسے ملّی مقصد کے تحت بہت شاندار انداز میں شائع کرنا چاہتے تھے۔

اس کے لیے انہوں نے ایران اور انڈیا سے اردو، فارسی فونٹ حاصل کرکے اس کی کمپوزنگ کو منفرد اور عمدہ بنانے کے لیے دامے، درمے، قدمے، سخنے ہر طرح سے جدوجہد کی۔ اس کی تیاری میں مہینوں نہیں برسوں لگے۔ کرنل صاحب اس صبر آزما سفر کے بعد اپنی منزل پر پہنچے۔

ملّتِ اسلامیہ کا منصب و مقام مثنوی اسرار و رموز کا موضوع ہے۔ کلامِ اقبال فارسی میں سے اشاعت کے لیے پہلے اسے منتخب کرنے کا سبب بھی یہی تھا۔

مثنوی کیونکہ اقبال کی فکر کی جامع ترین نمائندگی کرتی ہے لہٰذا محسن صاحب کی خواہش تھی کہ اس کی اوّلین اشاعت کے بعد مشرق و مغرب میں اس حوالے سے اٹھنے والی بحث پر اقبال ہی کے ردِعمل کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا جائے۔ گویا مثنوی کا ایک ایسا نسخہ تیار کیا جائے جو اس پر اٹھنے والے اعتراضات کا جواب اقبال ہی کی زبانی پیش کردے۔ اس کا ایک نمونہ مکتوبِ اقبال(1915ء)بنام خواجہ حسن نظامی اقبال کے موقف کی مختصر ترین ترجمانی کرتا ہے۔ اقبال بتاتے ہیں کہ کیسے اہلِ تصوف کو وحدت الوجود اور اسلام کے تصورِ توحید کو ایک جیسا سمجھنے کی غلطی ہوئی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ابتدا میں وہ بھی ان دونوں تصورات کو ایک سمجھتے تھے لیکن طویل مطالعے اور تدبر کے بعد اس خیال سے رجوع کیا جس کے لیے انہیں اپنے ساتھ جنگ کرنی پڑی۔

محسن صاحب نے تاریخی مصادر سے اس لوازمے کو مرتب کرکے کتاب کا حصہ بنادیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ نسخہ نادر ہے اور محبانِ اقبال کے لیے کسی قیمتی تحفے سے کم نہیں۔

مرتب و ناشر نے اس کتاب کو خوبصورت، لائقِ قرات اور شاندار بنانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ فارسی اور اردو فونٹ کے انتخاب میں عرق ریزی سے کام لیا ہے جبکہ کاغذ، جِلد اور طباعت بھی عمدہ ہیں۔ کتاب کی متن خوانی پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ اس نسخے کی متن خوانی میں جناب ارشاد الرحمٰن (اقبال اکادمی، لاہور) کا بڑا حصہ ہے- جناب نصیر بلوچ کے ادارے ٹاپیکل پرنٹرز نے کتاب کو بہت اہتمام سے طبع کیا ہے۔

اس نسخے کی تیاری میں پوری جانفشانی سے کام لیا گیا لیکن خواہش کے مطابق ہر کام نہیں ہوسکتا، اس کے باوجود نتیجہ توقع سے بہرحال بہتر نکلا ہے۔

فارسی اشعار کے لیے ایران کا بنا ہؤا میرزا نستعلیق فونٹ استعمال ہؤا ہے جس کے کچھ پیوند پاک و ہند کے اردو دان طبقے کے لیے اجنبی ہیں۔ اقبال کے فارسی اور اردو کلام کا بڑا حصہ استاد عبدالمجید پرویں رقم کے قلم سے لکھا گیا، جبکہ محمد صدیق الماس رقم اور فضل الٰہی مرغوب رقم نے بھی شاید ایک ایک کتاب کی خطاطی کی۔ ”اسرارِ خودی“ کی اشاعتِ اوّل جناب فضل الٰہی مرغوب رقم کی لکھی ہوئی ہے۔ لاہوری نستعلیق اقبال کا پسندیدہ خط تھا۔ ”اسرار و رموز“ کا جو نسخہ شیخ غلام علی اینڈ سنز نے شائع کیا تھا اس کی کتابت پرویں رقم کے بہترین شاگرد جناب محمود اللہ صدیقی نے کی تھی۔

میری خواہش ہے کہ زیرِ نظر کتاب کا اگلا ایڈیشن ہمارے عہد کے کسی اچھے لاہوری نستعلیق نویس کے قلم سے لکھا جائے۔
پانچ سو صفحات پر مشتمل یہ نسخہ موٹے کاغذ کی وجہ سے ضخیم کتاب کی صورت اختیار کر گیا ہے- مجموعی طور پر کتاب اپنی افادیت اور جاذبیت کے لحاظ سے محنتِ شاقہ کا بہترین نمونہ ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ فکرِ اقبال سے آگاہی کے خواہش مند اس کو مفید تر پائیں گے۔