ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ ایک ٖزمانے میں اس کھیل کو پاکستان میں مقبولیت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہاکی کا ورلڈ کپ چار مرتبہ جیت چکا ہے۔ اس کے علاوہ اولمپکس میں تین گولڈ، تین چاندی اور دو کانسی کے تمغے جیتے ہیں۔ اسی طرح تین مرتبہ ایشین چیمپئن ٹرافی بھی اپنے نام کرچکا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے موجودہ دور میں پاکستان کی ہاکی مسلسل زوال پذیر ہے۔ گزشتہ ماہ بھارت میں ہونے والی چیمپئن ٹرافی میں پہلی بار پاکستان سیمی فائنل میں بھی نہیں پہنچ سکا اور پہلے ہی مرحلے میں ٹورنامنٹ سے باہر ہوگیا۔ اس ایونٹ میں پاکستان نے پہلا میچ ملائشیا کے خلاف کھیلا جس میں ملائشیا نے ہمیں ایک کے مقابلے میں تین گول سے شکست دی، دوسرے میچ میں کوریا سے ہمارا مقابلہ ایک ایک گول سے برابر رہا، جبکہ جاپان سے کھیلا جانے والا تیسرا میچ بھی برابر ہوگیا۔ چوتھا اہم میچ روایتی حریف بھارت سے تھا جس میں بھارت نے پاکستان کو شکست دی اور اُس نے یہ میچ چار صفر سے جیتا۔ بھارت سے شکست کے بعد پاکستان ایونٹ سے باہر ہوگیا، البتہ آخری میچ میں پاکستان نے چین کو چھ صفر سے شکست دی۔
ہاکی پر جو زوال آیا ہے اس کی وجہ سے ہمیں اب اہم ٹورنامنٹس کھیلنے کے لیے کوالیفائنگ رائونڈ سے گزرنا پڑرہا ہے۔ پاکستان کی ہاکی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم نے 1971ء میں ہاکی کا پہلا عالمی کپ جیتا تو اُس وقت خالد محمود ہمارے کپتان تھے۔ چوتھے ورلڈ کپ میں ہم نے دوبارہ یہ اعزاز جیتا، اُس وقت اصلاح الدین کپتان تھے۔ جبکہ 1982ء میں جو ورلڈ کپ جیتا اُس وقت کپتان اختر رسول تھے۔1994ء میں بھی ہم نے شہباز احمد سینئر کی قیادت میں اپنے عالمی اعزاز کا دفاع کیا۔ لیکن آج ہماری ہاکی کو ایشین سطح پر بھی پسپائی اور مزاحمت کا سامنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری قومی ہاکی کہیں گم ہوکر رہ گئی ہے اور ہم ہاکی میں اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔
ایشیائی سطح پر کئی ممالک ہم سے آگے نکل گئے ہیں، اور اس کی ایک بڑی وجہ ہماری ٹیم کے کھلاڑیوں کی فٹنس اور تجربے کی کمی ہے۔ کیونکہ یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ جب کھلاڑیوں کی فٹنس ٹھیک نہیں ہوگی اور ان کو بڑے پیمانے پر کھیلنے کا تجربہ حاصل نہیں ہوگا تو وہ کیسے کامیابی حاصل کرسکیں گے! مگر اس وقت ہماری قومی ہاکی کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ اس میں جہاں کھلاڑیوں کی فٹنس سے جڑے مسائل ہیں، وہیں ہمیں عالمی یا ایشیائی سطح پر زیادہ ہاکی کھیلنے کو نہیں مل رہی، اورنہ ہی ہمارے پاس ہاکی کے لیے وہ مالی وسائل ہیں جو درکار ہیں۔حالت یہ ہے کہ حالیہ ایشیائی چیمپئن شپ کے لیے جب پاکستان ہاکی ٹیم بھارت کے دورے پر گئی تو اس ٹیم کے ساتھ فزیوتھراپسٹ ہی نہیں تھا۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ کھلاڑیوں کو بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں اورکئی کھلاڑیوں کو ڈیلی الائونس بھی نہیں ملتے اورنہ ہی کھلاڑیوں کے پاس کوئی مستقل روزگار ہے۔
اسی طرح ہاکی فیڈریشن کی جانب سے مسلسل ٹیم اور ٹیم مینجمنٹ میں تبدیلیوں کی وجہ سے بھی ٹیم کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہونے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ حتیٰ کہ ہمیں کھیل کے جاری ایونٹ میں بھی کوچ کی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا، اور کئی کھلاڑی ٹیم کے ساتھ واپس ہی نہیں آتے، اور باہر ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ہمیں بطور ریاست یا حکومت خود ہی ہاکی کی سرپرستی نہیں کرنی اور نہ ہی اس کے لیے مالی وسائل دینے ہیں، اور بار بار فیڈریشن یا مینجمنٹ میں تبدیلیاں کرنی ہیں، ایسے میں ایک بہتر ٹیم کی تشکیل یا کھلاڑیوں کی اعلیٰ کارکردگی کیسے ممکن ہوسکے گی؟ دوسری طرف ہمارے جتنے بھی سابقہ کھلاڑی ہیں وہ ہاکی فیڈریشن پر تنقید تو بہت کرتے ہیں، لیکن جیسے ہی ان میں سے کسی کو بڑا عہدہ فیڈریشن میں ملتا ہے تو ان کا یا تو ہاکی کی بہتری میں مؤقف بدل جاتا ہے یا ان کی اپنی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ کیونکہ جب فیڈریشن میں بیٹھے مینجمنٹ کے لوگ یا کوچز ان عہدوں کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کریں گے تو پھر مثبت نتائج کیسے ممکن ہوسکیں گے!
بھارت کو دیکھ لیں جو اس وقت ہاکی کی بہتری کے لیے چار سے پانچ ارب روپے سالانہ بنیادوں پر خرچ کرتا ہے، اور اس کی ہاکی کی بہتری کی ایک بڑی وجہ وہاں کھیلوں کے معاملات میں ریاست اور حکومت کی ترجیحات ہیں۔ ہماری ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اور کوچ شہباز احمد سینئر کے بقول ان کے دو بیٹے ہیں لیکن نہ تو کوئی ہاکی کھیلتا ہے اورنہ ہی ان کو ہاکی سے کوئی دلچسپی ہے۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ ہاکی کا جو جنون ہوتا تھا اب وہ نئی نسل میں ختم ہوتا جارہا ہے، یا شاید ہاکی کا کھیل ہماری قومی ترجیحات کا حصہ نہیں رہا۔ جب ہم ہاکی کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی ہاکی کے کھیل کے فروغ کے لیے بنیادی سہولتیں دینا، یا اس کھیل کی نچلی سطح پر سرپرستی کرنا چاہتے ہیں تو پھر نئی نسل میں کیوں یہ کھیل مقبول ہوگا اور کیسے ہمیں عالمی سطح کے بڑے کھلاڑی مل سکیں گے؟
ان برے حالات میں ہاکی کے لیے دو اچھی خبریں بھی ہیں۔ پاکستان نے 1990ء کے بعد سے کسی عالمی ٹورنامنٹ کی میزبانی نہیں کی، مگر اب پاکستان پہلی بار اولمپک کوالیفائنگ رائونڈ کی میزبانی کرے گا۔ یہ ایونٹ 13 سے 21 جنوری 2024ء کو لاہور میں ہوگا۔ اس ایونٹ کی میزبانی ملنا ہمارے لیے ایک اعزاز ہے۔ اس ٹورنامنٹ کی میزبانی میں چین اور اسپین بھی شامل ہیں۔ دوسری خبر یہ ہے کہ لاہور ہی میں نیشنل ہاکی اسٹیڈیم میں نئی اور بہتر اسٹرٹروف لگادی گئی ہے۔
پاکستان کو 2024ء میں جو اولمپک کوالیفائنگ رائونڈ کی میزبانی کرنی ہے اس میں 9ممالک کی ٹیمیں حصہ لیں گی اور تین ٹاپ ٹیمیں اولمپکس کے لیے کوالیفائی کریں گی۔ پی ایچ ایف کی جانب سے کوریا، جاپان، ملائشیا اورعمان سمیت دیگر ملکوں کی فیڈریشن سے رابطے جاری ہیں۔ حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس اہم ٹورنامنٹ کی بڑے پیمانے پر سرپرستی کرے تاکہ نہ صرف یہ ٹورنامنٹ کامیاب ہو بلکہ پاکستان کی کھوئی ہوئی ساکھ بھی بحال ہو۔ پاکستان کیونکہ کئی مرتبہ عالمی چیمپئن رہ چکا ہے تو ہماری ہاکی کی بہتری، بحالی اور مزید بہتری سمیت جیت کی لگن کو بنیاد بناکر آگے بڑھنے کا عمل عالمی ہاکی میں ہمارے کھوئے ہوئے مقام کی بحالی میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت فیڈریشن کی سرپرستی کرے اور فیڈریشن بھی اپنی ٹیم پالیسیوں میں تسلسل قائم رکھے اور بار بار کے تجربات سے گریز کیا جائے تاکہ ہم ہاکی میں اپنی خواہشات کے مطابق مطلوبہ نتائج حاصل کرسکیں۔