نگراں حکومت یا انڈر ٹیکر

بلوچستان،ہنوز سناٹا، سیاسی جماعتوں کا روایتی جملوں اور تقاریر پر اکتفا

سیاسی فعل و عمل سے قطع نظر سردار اختر مینگل کی موجودہ نگران حکومت یا وزیراعظم کے لیے انڈرٹیکر (گورکن) کی اصطلاح معروضی طور بہت ہی صائب اصطلاح ہے۔ انڈرٹیکرز خود کو منتخب نمائندے سمجھ بیٹھے ہیں اور اپنے مینڈیٹ سے ہٹ کر پاؤں پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بلوچستان اور وفاق کے نگران بظاہر دستوری نکات کے تحت حلف لے کر بیٹھے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بظاہر قائدِ حزبِ اختلاف اور قائدِ حزبِ اقتدار کی مشاورت کے آئینی طریقہ کار پر عمل ہوا ہے، لیکن درحقیقت یہ مسلط کی گئی نامزدگیاں ہیں۔ اس طرح یہ وفاداری بھی سرپرستوں کی مقدم ہے جن کے بل بوتے پر یہ مسند پر بیٹھے ہیں۔ بلوچستان میں ایک بھی بندہ سابق حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی منشا کے تحت نہیں ہے۔ عبدالقدوس بزنجو نشہ کرنے والا پرزہ تھا۔ حزبِ اختلاف یعنی جمعیت علماء اسلام نے بھی مسلط فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کیا، اس طرح سیاسی جماعتوں کی رہی سہی ساکھ بھی خاکستر ہوگئی۔ اب ملک و صوبے کے حکومتی معاملات کی گتھی سلجھانے کی قدرت مطلق کسی اور کے ہاتھوں میں جاچکی ہے۔ اختیار و اقتدار لیا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے جان و مال، قید و بند اور ابتلا و آزمائشوں کی بے پناہ قربانیاں دینا پڑیں گی، وگرنہ ماتحت بن کر سیاست کرنا ہوگی۔ سیاسی جماعتوں کی قبریں کھودی جاچکی ہیں، بلکہ وہ قبروں میں ڈالی جاچکی ہیں، اب آہستہ آہستہ مٹی ڈالی جارہی ہے۔

نگران حکومتیں دستورِ پاکستان کے تحت بنتی ہیں اور اس کے لیے نامزدگیاں اور انٹرویوز کہیں اور ہوتے ہیں۔ اب اگر سیاست ضعف میں مبتلا ہوگی تو ون یونٹ کے قیام جیسے آمرانہ فیصلے مسلط ہوں گے۔ مشرقی پاکستان جیسے سانحات نمودار ہوں گے۔

بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ میں منشیات کے درجنوں کارخانے قائم ہیں۔ اب جاکر ایف سی، اے این ایف، لیویز وغیرہ نے چند ایک جگہ کارروائیاں کی ہیں۔ حیرت ہے کہ یہ کارخانے آبادیوں میں پولیس و لیویز تھانوں کی عمل داری میں قائم ہیں! عوامی مشاہدہ یہ ہے کہ یہ سب سرپرستی میں ہورہا ہے۔ افغانستان سے بھاگے ہوئے سابق حکومت کے کمانڈر اور جنگجو اس ضلع میں لابسائے گئے ہیں۔ زیادہ تر یہی لوگ منشیات فروشی، اس کی پیداوار اور دیگر جرائم میں ملوث ہیں۔ ضلع چمن و قلعہ عبداللہ کے افغانستان سے متصل پہاڑی سلسلوں میں مذہبی مسلح گروہوں کی موجودگی زبان زدِ عام ہے۔ افغان حکومت کے وزیر دفاع ملا یعقوب نے حالیہ دنوں میں اس جانب اشارہ کیا تھا۔ ضلع قلعہ عبداللہ میں بدامنی اور حالات کی خرابی کے اشارے مل رہے ہیں۔ قبائل کے درمیان مسلح تصادم کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔ انتظامی مشنریاں کمشنر، ڈپٹی کمشنرز اور اعلیٰ پولیس افسران اپنے فرائضِ منصبی کی ادائیگی میں آزاد نہیں ہیں۔ بہتری کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ سیاسی جماعتیں جو حکومتوں میں رہی ہیں اُن سے بھی توقع نہیں۔ خرابیوں میں ان کا حصہ بدرجہ اتم موجود رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم جماعتوں کا اقتدار کے حالیہ چند مہینوں کا اعمال نامہ بہت واشگاف ہے۔ اب پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور نواز لیگ اپنے جرائم ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ بلوچستان کے اندر ہنوز سناٹا ہے۔ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی روایتی جملوں، بیانات اور تقاریر پر اکتفا کررہی ہیں۔ یہ اندرونِ خانہ کھوکھلی ہیں اور حقیقی کیئر ٹیکر کے آگے بے بس ہیں جو فیصلوں پر قادر ہیں۔ ظاہر ہےان کے لیے انڈر ٹیکرز ہی مفید اور کارگر ہیں۔ بلاشبہ انڈر ٹیکرز (گورکن) کا فریضہ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں بھی نبھا چکی ہیں۔ اس بری صورت گری میں اسمبلی کے اندر سیاسی جماعتوں نے حصہ ڈالا ہے۔ جے یو آئی، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، بی این پی، اے این پی اس میں خصوصی طور پر شامل رہی ہیں۔

سردار اختر مینگل نے 2 ستمبر کو اپنے والد سردار عطاءاللہ مینگل مرحوم کی دوسری برسی کے موقع پر تجویز پیش کی ہے کہ ”بلوچستان کی سیاسی جماعتیں چاہے وہ بلوچ، پشتون یا ہزارہ ہوں.. ایک نکتے پر متحد ہوں۔ اور کیئر ٹیکر یا انڈرٹیکر حکومت جو آئی ہے وہ الیکشن کرائے یا نہ کرائے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پوائنٹ پر آکر تحریک چلانی ہوگی۔ سڑکوں اور میدانوں میں نکلیں۔ جمہوری انداز میں مزاحمت کرنی ہوگی۔“

اس مزاحمتی تحریک کے لیے اختر مینگل ہی کو اٹھنا ہوگا۔ صوبے کے تمام سیاسی قائدین سے بالمشافہ ملیں۔ کچھ نہ ہو تو کم از کم سیاسی جماعتیں اتنی تو یکجا ہوں کہ انتخابات کے ذریعے ایوانوں میں پہنچنے والے گورکنوں کا راستہ روکیں۔ بہرکیف سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاری میں مگن ہوچکی ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے درمیان ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ نیشنل پارٹی نے جمعیت علماء اسلام سے بھی نشست کرلی ہے تاکہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو۔ پشتون علاقوں میں ابھی کوئی جنبش نہیں دیکھی گئی۔ سابق صوبائی وزیر سید احسان شاہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ انہوں نے اپنی جماعت پاکستان نیشنل پارٹی، بی این پی میں ضم کردی۔ ان کی اہلیہ نسیمہ احسان مارچ 2021ء میں بی این پی کی حمایت سے سینیٹر منتخب ہوئیں۔