جرات و بہادی کی علامت دلاورحسین سعیدی

ایک اور سعید روح اور اطمینان بخش زندکی کشاں کشاں ا پنے رب کے حضور پہنچ گئی،یہ تھے علامہ دلاور حسین سعیدی جو سعادت کی زندگی گزار کرشہادت کی موت سے ہم کنار ہوئے۔ وطن کی محبت میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے کارکنان وقائدین نے وہ فرض ادا کیے جو ان پر واجب بھی نہ تھے ۔ کہیں ڈگمگائے اور نہ جھکے، نہ بکے۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائد، بین الاقوامی شہرت یافتہ عالم دین اور مفسر قرآن اور مصنف علامہ دلاور حسین سعیدی کوجیل میں ہارٹ اٹیک ہوا، اسپتال لے جایا گیا، مگر وقتِ رخصت آن پہنچا تھا اوروہ14اگست 23ء کورات 8:40 بجے ڈھاکہ کے بنگلہ بندو اسپتال میں 83 سال کی عمر میں اپنے رب سے جا ملے۔ ان کا خلا مدتوں پُر نہ ہو پائے گا۔

وقتِ رخصت ان کا چہرہ اطمینان اور نورانیت، وقار ، جمال وجلال اور سکینت وطمانیت کا آئینہ دار تھا ۔ انہوں نے اپنے بالکل آخری لمحات میں بھی جرات وبہادری ، صبرواستقامت، امید اور یقین کا درس دیا۔ فرماتے ہیں’’ مجھے جان سے دھمکانے کا فائدہ نہیں میں، ابراہیم علیہ السلام کا جانشین ہوں جنہیں آگ میں ڈالا گیا تھا۔‘‘ بقول اقبال :

عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل

علامہ سعیدی 2 فروری 1940ء میں اندورکنی گاؤں ضلع فیروزپور میں پیدا ہوئے، ان کے والد گرامی یوسف سعیدی اپنے وقت کے معروف دینی اسکالر تھے۔ ان کی والدہ کا نام گلناربیگم تھا۔ ان کے چار بیٹے تھے جن میں سے ایک ان کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے۔

علامہ سعیدی نے پرائمری تعلیم اپنے والد سے ہی اپنے گاؤں کے مدرسہ میں حاصل کی جو انہوں نے خود قائم کر رکھا تھا۔ اس کے بعد وہ اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے سرسینا عالیہ مدرسہ میں داخل ہوئے، اور 1962ء میں فراغت کی سند حاصل کی۔ 1962ء میں دوبارہ داخل ہوئے جہاں سےانہوں نے اپنی دینی تعلیم مکمل کی۔اس کےبعد انہوں نے 5سال مختلف زبانوں کو سیکھنے میں گزارے اور اس کے ساتھ ساتھ مذاہب، سائنس، سیاست، معاشیات، خارجہ امور، فزیالوجی جیسے دوسرےعلوم اورنظریات کا مطالعہ کیا۔ مولانا سعیدی جیّد علماء کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے،جو صوفیہ کے سلسلے سہروردیہ سے وابستہ تھا ۔ علامہ سعیدی نے پیری مریدی کاروایتی انداز ترک کرکے قرآن وسنت کی دعوت کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔ اور تمام عمر قرآن وسنّت کی تعلیمات عام کرنے اور اسلامی نظام کو غالب کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ علامہ سعیدی 1971ء میں جامعہ بنوریہ کراچی میں درس نظامی کی تکمیل کر رہے تھے ، جماعت اسلامی میں شمولیت انہوں نے 1971ء کے واقعہ کے کئی سال بعد اختیار کی تھی۔ ان پر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے دیگر قائدین کی طرح پاکستان سے وفاداری نبھانے کا مقدمہ بنایا گیا تھا۔۔ علامہ سعیدی کا 1971ء کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں تھا، پھر بھی وہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی قیادت کی طرح کسی قسم کی معافی لینے کے حق میں تھے اور نہ جماعت سے اپنا تعلق ختم کرنے پر آمادہ وتیار ۔

علامہ سعیدی خطابت میں کمال رکھتے تھے۔ ان کا شمار بنگلہ دیش کے بڑے خطباء میں ہوتا تھا۔ سیرت اور تفسیر کے بڑے جلسوں میں بلا شبہ لاکھوں لوگ انہیں سننے آتے تھے۔35 سال تک مختلف مقامات پر 3 روزہ اور 5 روزہ دورہ تفسیر قرآن یا تفسیری محافل کرواتے رہے۔ اُن کے اِن تفسیری کورسز میں امام کعبہ بھی دو مرتبہ شریک ہوئے۔ دورہ تفسیر کے ان پروگرامات میں سیکڑوں لوگ اسلام قبول کرتے۔ سلہٹ ، راجشاہی، کو میلا، بوگرہ اور ڈھاکہ شہر میں یہ پروگرامات طویل عرصے تک جاری رہےاور لاکھوں لوگوں نے ان پروگرامات سے فیض پایا اور اپنی زندگی بدلی، ان کے ہاتھ پر600 سے زائد لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ان پروگرامات میں جہاں عوام الناس جوق در جوق لاکھوں کی تعداد میں شرکت کرتے، وہیں پر سرکاری اہل کار اور عوامی لیگ کے لوگ بھی شریک ہوتے۔ ان کا یہ دورہ تفسیر اتنا متاثر کن اور تلاوتِ قرآن اتنی مسحورکن ہوتی کہ لوگ جھوم جھوم جاتے۔علامہ سعیدی کا یہ تفسیری پروگرام عوام الناس میں بہت مقبول تھا۔

انہوں نے 35 سال تک ہر سال حج کیا۔ اس دوران دو بار بطور شاہی مہمان فریضہ حج ادا کیا۔ وہ مسلسل 18 سال تک رمضان المبارک کے مقدس اور بابرکت مہینے کو مکہ ومدینہ میں گزارتے رہے۔

علامہ سعیدی کو’’ علامہ‘‘ کا لقب اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ نے 1991ء میں دیا۔ علامہ سعیدی 75 مختلف اسلامی، سماجی اور عصری کتب کے مصنف تھے، جن میں ایک تفسیر بھی شامل ہے جو 4جلدوں پر مشتمل ہے، جبکہ اس کے علاوہ ان کی کتابیں عوامی سماجی موضوعات پر ہیں۔ وہ بنگلہ ، اردو، انگریزی اور عربی پر عبور رکھتے تھے۔سید مودودی ان کے پسندیدہ مصنفین اور سیاسی قائدین میں شمار ہوتے۔

علامہ اقبال ان کے پسندیدہ شعراء میں شامل تھے۔علامہ اقبال کے اشعار ان کی نوکِ زباں رہتے جنہیں وہ اپنی گفتگوؤں اور خطبات میں کثرت کے ساتھ استعمال کرتے اور سماں باندھ دیتےتھے۔

اس عظیم داعیِ اسلام نے اپنی ساری زندگی فریضہ اقامت ِدین کے لیے جدوجہد کی، مشکلات اور اذیتوں سے گزرے مگر اپنے نظریات اور تحریکِ اسلامی سے وفاداری نبھائی۔ 1979ء میں وہ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے، انہوں نے داعیانہ زندگی اختیار کی، دعوت الی اللہ اور فریضہ اقامت دین کو ا پنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ وہ مولانا ابوالکلام یوسف کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور انہی کی کوششوں سے جماعت میں آئے۔ اس دوران 50 سے زائد ممالک میں بطور مربی مقرربلائے جاتے رہے ۔ مختلف یونیورسٹیوں میں بطور مہمانِ اعزازی بلایا جاتا اور ان کے لیکچر کروائے جاتے۔ ان ممالک میں افریقہ، ایشیا، یورپ ، امریکہ، آسٹریلیا اور دوسرےممالک شامل تھے۔ 50 سالوں میں وہ دعوتِ دین کے کام سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہوئے، حتیٰ کہ جیل کے دوران بھی انہوں نے دعوتِ الی اللہ اور فریضہ اقامتِ دین کی جدوجہد جاری رکھی۔وہ 1989ء میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بنے، پھر جماعت کی متعدد ذمہ داریوں پر فائز رہے ۔وہ آج کل بطور نائب امیرجماعت اسلامی بنگلہ دیش تھے۔ ان کا خواب تھا کہ سرزمین بنگلہ دیش میں اسلامی نظام کا نفاذ ہو اور بنگلہ دیش اسلام کی برکات سے ہم کناراور فیض یاب ہو۔

ان کی سیاسی زندگی کا آغاز 1979 میں ہوا جب وہ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ علامہ سعیدی 3 بار( 1996۔2008ءتک) 12 سال ممبر پارلیمان رہے اس دوران ان کی کارکردگی مثالی رہی۔ پارلیمان میں وہ مذہبی امور کمیٹی کے چیئرمین رہے، علامہ سعیدی فاؤنڈیشن کے چیئرمین تھے جو ایک رفاحی ادارہ تھا جس کے تحت مساجد ، مدارس اور یتامیٰ کی مدد کی جاتی ۔ علامہ سعیدی کا حلقہ ا نتخاب ہندوآبادی پر مشتمل تھا جہاں انہوں نے عوامی لیگ کے امیدوار کو شکستِ فاش دی۔ انہوں نے ممبر منتخب ہونے کے بعد پارلیمان میں داخل ہوتے ہوئے سر جھکانے سے انکار کیا اور اسے شرک کے مترادف قرار دیا۔ جس پر اسپیکر اسمبلی نے انہیں سرجھکائے بغیر ہی اسمبلی میں آنے کی اجازت دی اور وہ السلام علیکم کہہ کر اسمبلی میں داخل ہوئے ۔انہوں نے مسلم ارکان اسمبلی کے لیے السلام علیکم اور غیرمسلموں کے لیے اپنے مذہب کے مطابق داخل ہونے کا بل پیش کیا، جسے منظور کر لیا گیا۔

پہلی بار 1995ء میں گرفتار ہوئے، دوسری بارگرفتاری 28 جون 2010ء کو عمل میں آئی ۔ وہ 2010 ءسے حسینہ واجد کے نام نہادوارکرائم ٹریبونل کے فیصلے کے مطابق سزائے موت کے قیدی کے طور پر جیل میں مقید تھے۔ ان پر 20 سے زائد مقدمات قائم کیے گئے تھے جو تمام کے تمام جھوٹ پر مبنی تھے۔ ان پر الزامات لگائے گئے کہ انہوں نے ہندوؤں کو جبراً مسلمان کیا اور 1971ء میں پاکستان آرمی کی مدد کی۔ انہوں نے قتل، زنا، آتش زنی اور لوٹ مار میں حصہ لیا اور دو سرے لوگوں کو ان کاموں پر اکسایا۔ ان کے خلاف 28 جھوٹی شہادتیں اکٹھی کی گئیں ، ظلم وجور کے ساتھ 16 لوگ گواہی کے لیے تیار کیے گئے جن میں سے ایک سکھ رنجن پالی بھی تھا،جسے رقم اور جائداد کا جھانسا دے کر گواہی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ مگر وہ اپنے ضمیر کے خلاف گواہی دینے پر خو د کو آمادہ نہ کر پایا۔ چنانچہ حکومت نے اسے غائب کردیا اور بعد میں بھارتی سرحدی پولیس کے حوالے کردیا۔

بھارت کے دباؤ پر حسینہ واجد کی بنائی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی۔ اس پر ڈھاکہ شہر میں زبردست مظاہرے ہوئے اور200 سے زائد لوگ شہید ہوئے۔ ایسے مظاہرے 1971ء میں بھی دیکھنے میں نہیںآئے تھے۔ لہٰذا ان کی عوامی مقبولیت سے خائف ہو کر حکومت نے ان کی سزائے موت کو سزائے عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ وہ قید ی تھے مگر انسانیت سے محبت ، اخلاق نے انہیں ہردلعزیز بنا دیا تھا۔ عوام ان سے والہانہ محبت کرتے، جیل کا عملہ ڈیوٹی سے مجبور ہونے کے باوجود اس اللہ والے کے لیے دیدہ ودل فرشِ راہ کرتا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال جیل میں گزارے۔ اس وقت ان کی عمر 83 سال کے لگ بھگ تھی، لیکن ان کی جرات و استقامت مثالی تھی۔

یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

بنگلہ دیش حکومت پر ان کی رہائی کے لیے جہاں بنگلہ دیشی عوام کا دباؤ تھا، وہیں پرسعودی عرب اور قطر کے علماء کا بھی دباؤ تھا لیکن شہادت کی سعادت ان کے حصے میں لکھی تھی ۔وہ ثابت قدمی ، استقامت کا کوہ گراں ثابت ہوئے اور جیل سے اپنے رب کے حضور جا پہنچے۔

علامہ سعیدی عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔ ان کا 14 اگست 2023 ءکو 83 سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک کے باعث بنگلہ بندو میڈیکل یونیورسٹی میں انتقال ہوا۔ وہ قاسم پور سنٹرل جیل میں تھے جہاں سے انہیں اسپتال منتقل کیا گیا۔ وہ اپنے ہم فکر رفقاء اور عزیز واقارب کو دور سے دیکھ کر مسکرائے۔انہیں ان سے ملنے کی اجازت نہ دی گئی مگر اسی شام جب دوسرا حملہ ہوا تو وہ جان لیوا ثابت ہوا۔ اس عالم میں بھی ا ن کی فیملی خاص طور پر بیوی اور بیٹوں کوبھی ان سے نہ ملنے دیاگیا۔ ان کی وفات کے بعد عوام الناس کی خواہش تھی کہ نماز جنازہ ڈھاکہ میں بھی ہو مگر اجازت نہ دی گئی۔ یہ حکومت کا خوف تھا۔ حکومت ان کی زندگی میں جتنی خائف تھی اتنی بلکہ اُس سے زیادہ ان کی میت سے خوف زدہ تھی۔ ان کی وفات کی اطلاع کو خفیہ رکھا گیا۔یہاں سے ان کی میت ایمبولینس کے ذریعے مکمل خاموشی کے ساتھ فیروزپور لائی گئی جہاں علامہ سعیدی فاؤنڈیشن گراؤنڈ میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مرکزی نائب امیر پروفیسر مجیب الرحمٰن نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی نماز جنازہ میں ایک لاکھ سے زائد لوگ شریک ہوئے۔ لوگوں کاانبوہ کثیر تھا جو جنازہ کے لیے امڈآیاتھا۔ 8 سے 10 کلومیٹر تک لوگ ہی لوگ تھے جو اپنے محبوب قائد اور اللہ کے دین کے سپاہی کو خراج عقیدت پیش کرنے آئے تھے۔ان کی ان کے بیٹے کے ساتھ ان کے خاندانی قبرستان فیروزپور میں تدفین کی گئی۔

علامہ سعیدی کی زندگی سعادت کی زندگی تھی اور موت شہادت کی موت قرار پائی، اللہ نے یہ مرتبہِ بلند ان کی قسمت میں لکھا تھا اور وہ اس منصب پر فائز ہو گئے، ایسا مقام ومرتبہ ہر کس وناکس کو نہیں ملتا۔ یہ بلند مراتب اللہ کی دین ہیں۔

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں

اللہ اپنے بندے کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور جنت الفردوس کا اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اللہ ان کے اہلِ خانہ، خیر خواہوں اور دوست احباب کو صبر جمیل اور اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین۔