انٹریو : الطاف حسن قریشی

سلیمان دیمرل کا انٹرویو ایوب خان کے سینے میں تیر کی طرح پیوست ہوگیا
جسارت بھٹو کے دور حکمرانی میں اپوزیشن کی جماعتوں کا واحد ترجمان بن گیا

پانچویں اور آخری قسط

سوال: صوبۂ پنجاب کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ دوسرے صوبوں کے ساتھ اس نے نا انصافی اور استحصال کا رویہ اختیار کیے رکھا ہے۔ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں؟

الطاف حسن قریشی: یہ بات اس حد تک درست ہے کہ جب پاکستان بنا، اُس وقت زیادہ تر بااختیار لوگ صوبہ پنجاب ہی سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے آگے چل کر طرح طرح کے گل کھلائے۔ چیف جسٹس محمد منیر اور گورنر جنرل غلام محمد کیسے فراموش کیے جا سکتے ہیں؟ بعد ازاں بعض اچھی تبدیلیاں بھی آئیں اور آئندہ بھی آسکتی ہیں۔ ون یونٹ بنتے وقت پنجاب نے اپنے حصّے کی قربانی دی۔ اسی طرح جب نیشنل فنانس ایوارڈ آیا تو صوبہ پنجاب نے رضاکارانہ طور پر صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کے حق میں اپنا حصّہ کم کردیا۔ بلوچستان میں پہلے کے مقابلے میں پنجاب کے ساتھ نسبتاً بہتر تعلقات فروغ پارہے ہیں۔ خوش قسمتی سے پنجاب کے باشعور حلقوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ ہمیں تمام صوبوں سے فراخ دلانہ سلوک روا رَکھنا چاہیے۔

دراصل ساری بات رویوں ہی کی ہے۔ اگر ہمارے رویوں میں رعونت ہے، اجنبیت ہے یا کوئی عصبیت ہے،تو کسی صورت ہم ایک دوسرے کے قریب نہیں آ سکتے۔ مختلف صوبوں میں پنجاب کے خلاف اس نفرت اورمغائرت میں کمی لانےمیں نوازشریف صاحب کی کاوشیں قابلِ قدر ہیں جو نظرانداز نہیں کی جانی چاہئیں۔ آج اگر ہم اپنے رویوں میں محبت، اپنائیت، ملنساری اور فراخ دلی پیدا کرلیتے ہیں، حسنِ سلوک سے پیش آتے ہیں اور لوگوں کو ان کا حق دلانے میں مدد کرتے ہیں، تو ہر طرح کے منفی تعصبات میں بہت کمی آسکتی ہے۔

سوال: ماضی میں اسٹیبلشمنٹ اور نوازشریف میں فاصلے بڑھے اور نواز شریف کو ملک چھوڑناپڑا لیکن جس قسم کی مزاحمت ان کی طرف سے ہوئی ہے، اگر ان کی جگہ سندھ، بلوچستان یا خیبرپختون خوا کا کوئی لیڈر ہوتا، تو کیا اس کے ساتھ صورتِ حال مختلف نہ ہوتی؟

الطاف حسن قریشی: یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ماضی میں صوبہ پنجاب کے اندر اسٹیبلشمنٹ کو خاص حیثیت حاصل رہی، لیکن موجودہ حالات میں سیاسی جماعتوں نے دم خم کا ثبوت دیا ہے اور عوام اپنی قیادت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پنجاب میں یہ طاقت ور رُجحانات پرورش پارہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حدود میں رہنے اور سیاسی لوگوں کا احترام کرنے اور عوام کے نمائندوں کو حکومت سازی کا مکمل اختیار دینے کی روش اختیار کرنا ہوگی۔ اب اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوچلا ہے کہ حدود سے تجاوز کرنے کے نتائج آخرکار بہت خراب نکلتے ہیں، عزت بھی جاتی ہے اور عوامی اعتماد پر بھی ضرب لگتی ہے۔ آج سبق تو سب ہی سیکھ رہے ہیں.. سیاست دان بھی، اسٹیبلشمنٹ بھی اور عدلیہ بھی۔ خدا کرے کہ ہمارے اہلِ صحافت اور اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے مالکان بھی اسی شعور کا جرأت کے ساتھ مظاہرہ کریں جو شعور مہذب ملکوں میں نظر آتا ہے۔

سوال: ماہ نامہ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کے قارئین کا بنگال کے اردو بولنے والوں سے بھی تعلق تھا، کیا وہاں کے لوگوں نے کبھی آپ سے مغربی پاکستان کے حوالے سے کوئی شکوے کیے تھے؟

الطاف حسن قریشی: جب مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان کی تحریک چلی، تو اردو کا دائرہ محدود ہوتا گیا۔ ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کا اجراء 1960ء میں ہوا، تب مشرقی پاکستان میں ہمارے مستقل قارئین کی تعداد بڑھتی گئی تھی۔ میں پہلی دفعہ 1964ء میں ڈھاکہ گیا اور گروپس کی صورت میں ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کے قارئین سے ملاقاتیں ہوئیں۔ یونی ورسٹی کے طلبہ اور پروفیسر بھی تھے اور کاروباری حلقے بھی۔ مشرقی پاکستان مَیں سال میں دو بار ضرور جاتا اور کئی کئی ہفتے قیام کرتا۔ لوگوں سے میرا براہِ راست رابطہ قائم ہوگیا تھا۔ وہ صحافی جو مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان اکثر جاتے رہے، ان میں میرا نام سرفہرست تھا۔ مَیں حالات کا درست اندازہ لگانے کے لیے دور دراز علاقوں میں بھی گیا۔ جہاں تک شکایات کا معاملہ ہے، تو بعض صورتوں میں وہ درست اور اکثر صورتوں میں افسانوی شاہکار ہوتیں۔

سوال: آپ انٹرویو کرتے وقت نوٹس (Notes) نہیں لیتے تھے۔ اس کی کیا وجہ تھی؟

الطاف حسن قریشی: ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ میں جب انٹرویوز کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا، وہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے جبر کا دور تھا۔ انٹرویو دینے والی شخصیتیں بات ریکارڈ کرانے سے گھبراتی تھیں، چنانچہ میں نے ٹیپ ریکارڈر استعمال کرنے اور نوٹس لینے سے مکمل اجتناب کیا اور انٹرویو کو بےتکلف بات چیت کا رنگ دیا۔ مَیں انٹرویو دینے والے حضرات کی باتیں پورے دھیان سے سنتا، حافظے میں محفوظ رکھتا اور بعدازاں انھیں زینتِ قرطاس بنادیتا۔

میری کوشش ہوتی کہ ہلکی پھلکی باتوں میں وقت کے اہم ترین اور حساس ایشوز زیرِبحث لے آئوں۔ اس کے لیے بےتکلفی کی فضا قائم رکھنا ضروری تھا، کیونکہ آپ بےتکلفی میں جو باتیں کہہ جاتے ہیں، وہ ضابطوں کے ماحول میں نہیں کہہ سکتے، چنانچہ لائٹ موڈ میں بڑے بڑے راز افشا ہوجاتے۔ دوسری بات میرے یہ پیشِ نظر رہتی کہ انٹرویو دینے والی شخصیت کو کسی قسم کی گھبراہٹ یا خوف محسوس نہ ہو کہ اس کی گفتگو کے نوٹس لیے جارہے ہیں۔ مجھے گفتگو اپنے اندر جذب کرنے کی بڑی مشق ہوگئی تھی اور پورا انٹرویو ذہن میں ٹھیک کئی ہفتوں محفوظ رہتا۔

ایک دفعہ تو یہ لطیفہ ہوا کہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر، جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا، مَیں ان کا انٹرویو لینے ان کے کمرے میں گیا۔ وہ اسلام آباد ہوٹل میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ ہمیں گپ شپ کرتے دو گھنٹے گزر گئے۔ تب مَیں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی۔ انھوں نے کہا تم نے انٹرویو تو لیا ہی نہیں۔ میں نے کہا انٹرویو تو ہوگیا۔ وہ حیرت سے میرا منہ تکتے رہے۔ انٹرویو شائع ہوا، تو وہ بہت خوش ہوئے اور ملاقات کے لیے ایک بڑے خوبصورت اور یادگار تحفے کے ساتھ آئے۔ ہلکے پھلکے انداز میں بات چیت کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ انٹرویوز میں یبوست یا بھاری پن ہونے کے بجائے بے ساختگی اور بے تکلفی قائم رہتی اور حقائق اپنے فطری انداز میں بے نقاب ہوتے گئے جن سے ایک مستند تاریخ ترتیب پاتی رہی۔

سوال: کبھی کسی نے یہ تو شکایت نہیں کی کہ میں نے کچھ اور کہا تھا اور آپ نے کچھ اور شائع کردیا؟

الطاف حسن قریشی: ہاں فقط ایک شکایت آئی جو شیخ مجیب الرحمٰن کی طرف سے آئی تھی۔ میں نے مئی 1969ء میں اُن کا انٹرویو لیا جو جولائی کے شمارے میں شائع ہوا۔ انٹرویو لینے کے لیے دوبار ان کے دولت کدے پر حاضر ہونا پڑا تھا۔ دورانِ انٹرویو مَیں نے ان سے ایک اہم سوال کیا کہ ’’کیا یہ ایک محفوظ راستہ نہیں ہوگا کہ نئے دستور کی تدوین کا خطرہ مول لینے کے بجائے 1956ء کے دستور کی بحالی کا مطالبہ کیا جائے جسے دوسری دستور ساز اسمبلی نے بھی اکثریت سے منظور کیا تھا؟“ پہلے تو وہ اس طرف نہیں آئے اور کہتے رہے کہ جس زمانے میں 1956ء کا دستور منظور ہوا تھا، اب حالات اس سے یکسر مختلف ہیں۔ مَیں نے لقمہ دیا کہ ہمارا سیاسی سانچہ تو پہلے جیسا ہی ہے۔ اُنھوں نے بحث کو طول دیتے ہوئے جواب دیا کہ اب ہمارے عوام چھے نکات پر پوری طرح متفق ہیں۔ مَیں نے کہا کہ اس کی روشنی میں 1956ء کے دستور میں مناسب ترمیم کی جاسکتی ہے۔ اس پر اُنھوں نے کہا کہ 1956ء کا دستور بحال کردیا جائے اور اس میں سادہ اکثریت سے ترمیم کرنے کا اختیار دے دیا جائے، تو یہ فارمولا ہمارے لیے قابلِ قبول ہوگا۔

یہ انٹرویو جب چھپا،تو غالباً ان کی پارٹی کے طاقت ور گروپس نے اعتراض کیا کہ تم نے انٹرویو میں یہ کیا کہہ دیا ہے۔ ہمیں تو 1956ء کے دستور کی بحالی کسی طور منظور نہیں۔ اس پر شیخ مجیب نے بیان جاری کردیا کہ ’’میں نے 1956ء کے دستور کی بحالی سے اتفاق نہیں کیا تھا۔‘‘ شیخ مجیب کی جانب سے اس صریح غلط بیانی پر جناب حسین شہید سہروردی کی صاحبزادی محترمہ اختر سلیمان نے کراچی سے پریس ریلیز میں کہا کہ ’’میں اس انٹرویو کے دوران موجود تھی اور میرے شوہر سلیمان بھی۔ مجیب الرحمٰن نے ہم دونوں کی موجودگی میں الطاف حسن قریشی سے بالکل وہی بات کہی تھی جو ’اردو ڈائجسٹ‘ میں شائع ہوئی ہے‘‘۔ اس بیان سے شیخ مجیب پر اپنے موقف سے پھر جانے کا حرف آیا جو اُس وقت قومی سطح پر ایک بڑے مسئلے کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔

سوال: آپ کی زندگی کا سب سے اچھا انٹرویو کس کا رہا؟

الطاف حسن قریشی:قطعیت کے ساتھ کوئی رائے دینا بہت مشکل ہے، کیونکہ اپنی اپنی جگہ سبھی انٹرویو ایک امتیازی شان رکھتے ہیں۔

سوال: میرا خیال تھا آپ مولانا مودودیؒ کا نام لیں گے۔

الطاف حسن قریشی: جی ہاں، مولانا نے تعاون فرماتے ہوئے تین قسطوں میں نہایت مفصل انٹرویو دیا تھا۔ اس میں ان کا مکمل فلسفۂ حیات، اس کا اندازِ فکر، ان کا نصب العین اور ان کی ذاتی زندگی کے احوال یکجا ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور انٹرویو بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ثابت ہوا۔ مَیں دسمبر 1968ء میں جمہوریہ ترکیہ کے وزیراعظم سلیمان دیمرل[1924ء-2015ء] کا انٹرویو لینے انقرہ گیا جہاں مجھے چند روز انتظار کرنا پڑا۔ ایک صبح ان کے پرائیویٹ سیکریٹری کا فون آیا کہ انٹرویو کا وقت آج گیارہ بجے کا طے ہوگیا ہے۔ مقررہ وقت سے پندرہ منٹ پہلے مَیں وزیرِاعظم کے دفتر جا پہنچا۔ اسٹاف کے بعد اُن سے سلام دعا ہوئی۔ وہ بڑے تپاک سے ملے اور پاکستان میں ہونے والے ہنگاموں سے متعلق پوچھنے لگے۔ انٹرویو شروع ہوا تو اُنھیں ٹیلی فون کال آگئی اور گفتگو دیر تک ہوتی رہی۔ فارغ ہونے پر مجھ سے مخاطب ہوئے کہ میرے پاس آپ کے انٹرویو کے لیے مشکل سے پندرہ بیس منٹ ہیں، اِس لیے آپ کو جو کچھ پوچھنا ہے جلد جلد پوچھ لیجیے۔ میں بہت سٹپٹایا، کیونکہ مَیں تو ڈیڑھ دو گھنٹے طویل انٹرویو لینے کا عادی تھا، سوچنے لگا کہ اتنا طویل سفر طے کیا ہے، بھلا پندرہ منٹ میں کیا بات ہوسکے گی! اسی دوران اُنھیں ایک اور کال آگئی۔ میں ان کے لیے پاکستان ہینڈی کرافٹ کا ایک جاذبِ نظر تحفہ لے کر آیا تھا۔ خیر جب انھوں نے ٹیلی فون بند کیا، تو میں نے ان کی خدمت میں وہ تحفہ پیش کردیا جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے:’’اطمینان سے سوال کیجیے۔‘‘

سلیمان دیمرل صاحب نے مجھے پندرہ منٹ کے بجائے ڈھائی گھنٹے عطا کیے۔ اُنھوں نے اپنی ساری مصروفیات منسوخ کردی تھیں۔ میں نے ان سے وہ تمام سوالات پوچھے جو اُس وقت پاکستان میں صدر ایوب خان سے پوچھے جارہے تھے۔ ایوب خان جس سیاسی فلسفے پر دس سال حکومت کرتے آئے تھے، مَیں نے اُس فلسفے کے بارے میں ترکیہ کے وزیرِاعظم کی رائے معلوم کی۔ میرا پہلا سوال تھا: کیا سیاسی جماعتیں حقیقت میں ملکی استحکام کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں؟ انھوں نے بڑی حیرت سے میری طرف دیکھا اور کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا کہ وہی تو ملک کو متحد رکھتی ہیں اور عوام کے اندر ایک تنظیم پیدا کرتی ہیں۔ میں نے دوسرا سوال پوچھا: کیا آپ کے ہاں بھی آزادیِ صحافت ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہے؟ کیونکہ عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ صحافی بے پَر کی اڑاتے اور انتشار پھیلاتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا ’’جی نہیں! ہمارے ملک میں ہرگز ایسا تاثر نہیں پایا جاتا، البتہ بعض اخبارات غیرذمےداری کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر جب دوسرے جرائد عوام کے سامنے ایک صحیح اور مستند تصویر پیش کرتے رہتے ہیں، تو وہ جان لیتے ہیں کہ کون سا اخبار معتبر ہے اور کون سا غیر معتبر۔ وہ غیر ذمےدار اخبار پڑھنا بند کردیتے ہیں۔ پھر یا تو وہ اپنی روش بدل لیتا ہے یا بند ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں پریس حکومت کی مشینری کو مستعد اور چوکس رکھتا ہے۔ یوں وہ عوام اور حکومت کے لیے ایک بہت بڑی نعمت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ ترک وزیرِاعظم کا انٹرویو ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کے سالنامے جنوری 1969ء میں شائع ہوا جو ایوب خان کے سینے میں تیر کی طرح پیوست ہوگیا، کیونکہ اس نے ان کے بنیادی فلسفۂ سیاست کے بخیے ادھیڑ دیے تھے۔

سوال: خود آپ کا سب سے طویل اور پہلا انٹرویو کس نے کیا؟

الطاف حسن قریشی: مجھے صحیح طور پر یاد نہیں، کیونکہ مَیں ایک ورکنگ جرنلسٹ کی حیثیت سے انٹرویو دینے کے حق میں نہیں۔ مجھے جو کچھ کہنا تھا، مَیں اپنے مضامین اور اداریوں میں لکھتا رہا ہوں اور بفضلِ خدا آج بھی لکھ رہا ہوں۔

سوال: یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ آپ کا پہلا مفصل انٹرویو ہے؟

الطاف حسن قریشی: آپ کہہ سکتے ہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ شاید اس سے قبل میرا ایک انٹرویو ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ میں بھی چھپا تھا۔ غالباً وہ ممتاز لیاقت صاحب نے لیا تھا۔

سوال: آپ نے پاکستان کی طویل سیاسی تاریخ کا مشاہدہ کیا ہے۔ آپ کے نزدیک پاکستانی حکمرانوں میں سب سے بہتر اور سب سے خراب حکمران کون کون تھے؟

الطاف حسن قریشی: اس کا ٹھیک طور پر تعین کرنا بےحد مشکل ہے، کیونکہ ہرشخص اور حکمران میں کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہوتی ہیں۔ میرے نزدیک قائدِاعظم کے بعد لیاقت علی خاں اپنی چند خوبیوں کے باعث ایک عظیم لیڈر تھے۔ پاکستان کا پہلا وزیراعظم بہت بڑی جائداد بھارت میں چھوڑ کر آیا، مگر کوئی کلیم (مطالبہ) اس شدید احساس کے ساتھ داخل نہیں کیا کہ جب سارے مہاجرین کے کلیم ادا کردیے جائیں گے، تو پھر میری باری آئے گی۔ شہادت کے بعد جب اُن کی شیروانی اتاری گئی، تو ان کا بنیان پھٹا ہوا نکلا۔ ایثار اور کفایت شعاری کی ان غیرمعمولی مثالوں کے علاوہ ان کے اندر اسلام اور پاکستان سے محبت بھی ایک خاص حیثیت رکھتی تھی۔ انھوں نے انتہائی نامساعد حالات میں کٹے پھٹے پاکستان کو تین چار برسوں ہی میں اپنے قدموں پر کھڑا کردیا اور اس کی معیشت کو چار چاند لگا دیے۔ اس زبردست کامیابی میں ان کی دانش مندی اور وسعتِ قلبی کا بڑا دخل تھا۔ ان خوبیوں کے پہلو میں بعض خامیاں بھی تھیں۔ مثال کے طور پر انھیں سیاسی مخالفت گوارا نہیں تھی اور وہ اپنی سیاسی جماعت کو حکومت کے تحت رکھنا چاہتے تھے۔ اس بنا پر کسی ایک حکمران کے بارے میں ایسا کہنا کہ ’’وہ سب سے اچھا تھا‘‘ بہت مشکل ہے۔

اسی طرح صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی کچھ باتیں مجھے پسند تھیں، لیکن وہ بہرحال ایک فوجی حکمران تھے۔ شخصی حکمرانی میں جو خرابیاں ہوتی ہیں،وہ ان کے دور میں بھی در آئی تھیں،اگرچہ کسی قدر کم تھیں، لہٰذا ہم انھیں بھی آئیڈیل حکمران قرار نہیں دے سکتے۔ ان کا لوگوں سے ملنے کا طریقہ، بعض لوگوں کو مصنوعی لگتا تھا، لیکن میرے نزدیک ایسا نہیں تھا۔ میں نے انھیں مختلف وقتوں میں مختلف درجے کے لوگوں سے ملتے دیکھا، وہ سبھی سے بڑی عزت اور احترام سے پیش آتے جن میں چھوٹے لوگ بھی تھے اور بڑے بھی۔ ان کے پاس لامحدود اختیارات تھے جن کا درست استعمال بھی ہوا اور بعض اوقات انتہائی خراب۔ میں ان سے بعض اوقات الجھ پڑتا تھا اور وہ برا بھی نہیں مناتے تھے۔

اپنی حکمرانی کے ایک مرحلے میں انھوں نے مجلسِ شوریٰ قائم کی۔ مَیں نے اس نامزد شوریٰ کے خلاف ’اردو ڈائجسٹ‘ میں انتہائی سخت اداریہ لکھا کہ جو مجلس شوریٰ حضرت محمدﷺ نے قائم کی تھی اس میں بہترین صحابہ کرام  کا انتخاب کیا گیا تھا، مگر ہمارے صدرِ محترم نے اپنی مجلسِ شوریٰ میں زیادہ تر بدمعاش اکٹھے کرلیے ہیں۔ اس طرح مجلسِ شوریٰ کے مقدس نام پر بہت حرف آیا ہے۔ اس کے چند ہی روز بعد مجھے مدیرانِ جرائد کے ساتھ صدرِ مملکت کی میٹنگ میں شمولیت کی دعوت ملی۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار میں آنے کے چند ہی ماہ بعد اپنی پسند کے پندرہ بیس مدیران کا ایک گروپ تشکیل دیا تھا جس کے ساتھ وہ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر سیر حاصل گفتگو کرتے اور مشورے بھی طلب فرماتے۔ مجھے احساس ہورہا تھا کہ اس میٹنگ میں ضرور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر خفگی کا اظہار کریں گے۔ ملاقات میں چائے کا دور چلتا رہا۔ مہمانوں کو رخصت کرتے وقت انھوں نے فرداً فرداً ہاتھ ملایا اور جب میری باری آئی تو مجھے رک جانے کے لیے کہا۔

سب رخصت ہو گئے، تو وہ میرے قریب آکر بیٹھ گئے۔ مَیں قدرے فکرمند تھا کہ جنرل صاحب کھنچائی کریں گے، مگر مجھے اُس وقت عجب طرح کی حیرت ہوئی جب انھوں نے میرے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا ’’الطاف! تم نے جو اداریہ لکھا ہے، اس نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ خدا گواہ ہے کہ میں بہت شرمندہ ہوں، مگر تیر نکل چکا ہے۔ میری درخواست ہے کہ آپ اسی طرح لکھتے اور ہماری کوتاہیوں کی نشان دہی کرتے رہیں۔ یہ آپ کا مجھ پر بڑا اِحسان ہوگا۔‘‘ مجھے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آرہا تھا اور مَیں سوچ رہا تھا کہ اس کے بعد عتاب کا لمحہ ابھی آنے والا ہے۔ پھر میرے کانوں میں یہ آواز آئی کہ قریشی صاحب! آپ میرے ساتھ کھانا بھی کھائیں گے اور مزید باتیں بھی ہوں گی۔ ایسی خوبیاں حکمرانوں میں شاذونادر پائی جاتی ہیں۔

اس ضمن میں ایک اور واقعہ بیان کرنا مناسب رہے گا۔ جنرل صاحب کی حکومت نے ایک سال بہت خراب بجٹ پیش کیا تو مَیں نے اور شامی صاحب نے اس پر کڑی تنقید کی۔ ہم دونوں ایوانِ صدر میں کھانے پر بلا لیے گئے۔ جنرل صاحب ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ شامی صاحب نے آدھ گھنٹے تک ان سے اس قدر سخت لہجے میں گفتگو کی جس کا آپ تصور نہیں کرسکتے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کیسے جرنیل ہیں کہ معیشت کا کچھ پتا ہی نہیں اور عوام پر ایک خوفناک بجٹ مسلط کردیا ہے جس سے چیخیں نکل رہی ہیں۔ وہ الفاظ کے تازیانے برساتے اور ضیاء صاحب خاموشی سے برداشت کرتے رہے۔ بعد میں صرف اتنا کہا کہ شامی صاحب! بجٹ لوگوں نے بنایا ہے اور میں کوئی معیشت دان نہیں ہوں، لیکن آپ نے جو کچھ کہا ہے، اس کی روشنی میں اصلاح کی پوری کوشش کروں گا۔ سچی بات یہ ہے کہ سخت باتیں تو وہی شخص برداشت کرسکتا ہے جسے قدرت نے بہت بلند حوصلہ عطا کیا ہو۔

سوال: ’جسارت‘ اخبار سب سے پہلے ملتان سے جاری ہوا، سوال یہ ہے کہ ’جسارت‘ کو جاری کرنے کا خیال آپ کو کیسے آیا؟ اور یہ مکمل طور پر آپ نے جاری کیا یا کچھ دوسرے احباب بھی اس منصوبے میں شامل تھے؟

الطاف حسن قریشی: سب سے پہلے ’جسارت‘ ملتان ہی سے شائع ہوا، جسے ادارہ اردو ڈائجسٹ نے جاری کیا تھا۔ دراصل صدر ایوب خان کے زمانے سے ہم کوشش کررہے تھے کہ آزادیِ اظہارِ خیال کا کوئی راستہ بنائیں اور اسلام کا اصل اور حقیقی تصور لوگوں تک پہنچائیں۔ لیکن بہت سی پابندیوں کے سبب اس زمانے میں ایک ماہنامہ شائع کرتے رہے۔ جب ہم نے محسوس کیا کہ ان کا آمرانہ دور ختم ہوگیا ہے اور حالات کا تقاضا ہے کہ اس سیاسی، نظریاتی اور قومی کشاکش میں تعمیری سوچ پیش کرنے کے لیے کوئی ہفت روزہ بھی ہونا چاہیے تو اگست 1969ء میں لاہور سے ہفت روزہ ”زندگی“جاری کیا۔ اسی دوران یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اب روزنامہ بھی جاری کرنا چاہیے، اور ڈیکلریشن حاصل کرنے کے لیے پہلے جیسی مشکلات بھی نہیں تھیں، اس لیے 1969ء کے وسط ہی میں ہم نے روزنامہ جاری کرنے پر سوچ بچار بھی شروع کردی تھی۔ ہمارے ایک دوست چودھری ریاض صاحب سے ہماری ذہنی ہم آہنگی تھی، وہ مشہور قومی روزنامے The Pakistan Times سے وابستہ تھے، اور صحافتی حلقوں میں قابلِ احترام تھے اور ہماری طرح وہ بھی جماعت اسلامی کے ہم خیال تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جنوبی پنجاب میں کوئی روزنامہ ایسا نہیں ہے جو اسلامی ذہن کی ترجمانی کرتا ہو۔ چونکہ انتخابات آنے والے ہیں، لہٰذا وہاں ایک ایسا روزنامہ ہونا چاہیے جو اس علاقے میں اسلامی افکار اور پروگرام کو پیش کرتے ہوئے رائے عامہ میں وسعت لاسکے‘‘۔ چنانچہ وہ ملتان سے لاہور آئے، تفصیل سے بات کی اور بتایا کہ ’’وہاں ہمارے احباب نے بھی اس کی اہمیت پر زور دیا ہے اور اس ضمن میں مل جل کر مالی وسائل فراہم کرنے کے لیے تیار بھی ہیں۔ چونکہ آپ کا نام معروف ہے، اس لیے ہم سب مل کر روزنامہ نکالیں گے‘‘۔ ڈاکٹر اعجاز حسن صاحب اور میرا خیال تھا کہ’’روزنامہ نکالنا، ماہ نامے کے مقابلے میں بالکل مختلف اور خاصا پھیلا ہوا اور ایک مشکل کام ہے، اگر شائع کرنا بھی ہو تو پہلے اسے لاہور سے نکالنا چاہیے جہاں ہر چیز پہلے سے موجود ہے‘‘۔ لیکن جب ریاض صاحب نے ملتان سے اشاعت پر بہت زیادہ زور دیا کہ وہ علاقہ سیاسی اعتبار سے انتہائی اہم ہے، تو ہم نے ان کی تجویز پر ملتان سے روزنامہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اخبار ’جسارت‘کا نام بھی میں نے ہی تجویز کیا تھا اور جب مولانا مودودی صاحب کو بتایا گیا کہ ہم اس نام سے روزنامہ شائع کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے بھی نام اور ارادے کو پسند کیا۔ چنانچہ ہم نے روزنامہ ’جسارت‘ کا پہلا شمارہ ملتان سے 23 مارچ 1970ءکو شائع کیا۔

سوال: اس دوران اخبار کی اشاعت کے ضمن میں آپ کی مولانا مودودی سے کوئی گفتگو ہوئی ہو یاانھوں نے رہنمائی دی ہو؟

الطاف حسن قریشی: تمام قومی، دینی، تہذیبی اور عملی میدانوں میں رہنمائی تو مولانا محترم ہی کررہے تھے۔ چونکہ ماہ نامہ ’اردو ڈائجسٹ‘ کا تجربہ بڑا کامیاب رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کی اشاعت ایک سال میں کہاں سے کہاں چلی گئی۔ اس لیے مولانا مودودی کے سامنے جب مقصد بیان کیا گیا تو انہوں نے پسند کیا اور فرمایا کہ ’’بہت اچھا نام ہے۔ اللہ کا نام لے کر شروع کریں‘‘۔ چنانچہ ہم نے اس سمت میں بنیادی کام کا آغاز کردیا۔ اخبار کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے اے کے بروہی صاحب کراچی سے تشریف لائے۔ وہ ہمارے کاموں میں برابر دلچسپی لیتے تھے۔ محمد صلاح الدین صاحب اور متین الرحمٰن مرتضیٰ صاحب بھی آئے،کچھ احباب لاہور اور کراچی سے بھی اس کارِخیر میں شریک ہوئے اور ملتان میں ہماری مدد کی۔

سوال: اورپھر کراچی سے”جسارت ‘‘کب شائع ہوا؟

الطاف حسن قریشی: جماعت اسلامی کراچی کے ایک نہایت روشن دماغ، عملی منصوبہ ساز، دوراندیش اور تمام مکاتبِ فکر میں قابلِ احترام رہنما چودھری غلام محمد صاحب کا خواب تھا کہ کراچی شہر سے ایک روزنامہ شائع ہو۔ اس مقصد کے لیے وہ بہت سوچ بچار اور عملی سطح پر پیش رفت بھی کرتے رہے، مگر 29جنوری 1970ء کو بہ عارضہ سرطان ان کا انتقال ہوگیا۔ تاہم اس سمت میں اُن کے طے کردہ نقوش بڑے واضح تھے۔ اس لیے انھی بنیادوں پر کراچی میں جماعت اسلامی کی قیادت سے ہماری بات چیت ہوئی کہ جماعت اسلامی جیسا روزنامہ نکالنا چاہتی تھی ویسا اخبار ہم ملتان سے شائع کررہے ہیں اور تمام پالیسیاں بھی وہی ہیں۔ اس پر کراچی جماعت اسلامی کے نظم نے خواہش کا اظہار کیا کہ کراچی سے بھی ہم یہی اخبار شائع کریں۔ اس طرح ’جسارت‘ ملتان اور کراچی کا تقریباً ڈیڑھ سال تک میں ہی مدیر رہا۔ چونکہ1971ء میں میرے لیے کراچی، ملتان اور لاہور میں وقت کی تقسیم خاصی مشکل ہوگئی تھی اس لیے کراچی میں ادارتی ذمہ داری ادا کرنے سے دوستوں سے معذرت کرلی۔ کچھ مدت بعد ملتان سے ’’جسارت ‘‘بند ہوگیا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو صاحب سے کشمکش شروع ہوچکی تھی اور 1972ء میں ہم گرفتار کرلیے گئے، اس وجہ سے یہ معاملہ دوبارہ چل نہیں پایا۔

سوال: ’’جسارت‘‘ کی سیاسی کردار کے حوالے سے کوئی معلومات بیان کرنا چاہیں گے؟

الطاف حسن قریشی: ’جسارت‘ اخبار کی اہمیت یہ تھی کہ جس عزم اور قوت کے ساتھ ہم اسلامی نظریہ پیش کرتے تھے اور جماعت اسلامی کی بھی حمایت کرتے تھے، ایسا روزنامہ پاکستان میں پہلے سے کوئی موجود نہیں تھا۔ بلاشبہ ’نوائے وقت‘ میں اسلام کے بارے میں بات ہوتی تھی، لیکن بنیادی طور پر وہ جماعت اسلامی کا سخت مخالف اخبار تھا۔ وقت بے وقت مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کو زچ کرنے کا بہانہ تلاش کرکے بدمزگی پیدا کردیتا تھا۔ اس طرح دینی اور قومی معاملات میں جماعت اسلامی کا نکتہ نظر پوری وضاحت اور قوت کے ساتھ پیش کرنے والا کوئی روزنامہ موجود نہ تھا۔ ’جسارت‘ کی صورت میں یہ کمی دور ہوئی۔ پھر دوسری بات یہ ہوئی کہ کچھ ہی عرصے بعد 1972ء میں حالات ایسے بن گئے کہ’جسارت‘ ہی وہ واحد اخبار تھا جو بھٹو صاحب کے دورِ حکمرانی میں اپوزیشن کی جماعتوں کا ترجمان بن گیا، خصوصاً صوبہ بلوچستان اور صوبہ سرحد(خیبرپختون خوا) کے مسائل کی جس طرح جسارت ترجمانی کرتا تھا، اس وجہ سے وہاں کے عوام کا ہم پر بہت اعتماد پیدا ہوا۔ بھٹو صاحب کے دورِ ستم میں اپوزیشن جماعتوں کے ترجمان کی حیثیت سے روزنامہ ’جسارت‘ کراچی نے بڑا تاریخی اور نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ’جسارت‘ بند ہوتا رہا اور اس پر بہت سی پابندیاں بھی لگائی جاتی رہیں، مگر دوسری جانب اخبار کے لیے عوامی حمایت بھی جاری رہی۔ اس لحاظ سے اس کی بڑی اہمیت تھی۔

روزنامہ ’جسارت‘ کراچی ہی کی وجہ سے خان عبدالولی خاں، عطاء اللہ مینگل اور میر غوث بخش برنجو صاحب کی نیشنل عوامی پارٹی کا جماعت اسلامی پر بہت زیادہ اعتماد پیدا ہوا۔ پاکستان کے قومی اور دستوری معاملات پر وہ ہم سے مشورہ کرتے تھے، ہم ان کے پاس جاتے تھے، وہ ہماری بات بہت غور سے سنتے تھے۔ وہ اچھی طرح یہ بات سمجھتے تھے کہ ہم کسی بھی مفاد کے بغیر ان کی حمایت کررہے ہیں۔ ہم ان کی حمایت میں آگے بڑھے، ان کے حق میں لکھتے رہے، ان کے جائز اور مبنی برحق مسائل اجاگر کرتے رہے، ان پر جو ظلم اور زیادتی ہورہی تھی، اس کے آگے بند باندھنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ سب کام اس ثابت قدمی سے کیا کہ بار بار قید و بند سے گزرے۔ 1973ء میں صوبہ بلوچستان میں بھٹو صاحب کی حکومت نے جو فوجی آپریشن کیا، اس کی مخالفت میں ’جسارت‘، ’زندگی‘ اور ’اردو ڈائجسٹ‘نے جو رول ادا کیا، وہ پوری قوم کی ڈھارس بندھانے کا ذریعہ بنا۔ اس ضمن میں سب سے بڑھ کر جسارت ہی کا تاریخی کردار تھا۔

سوال: ’’جسارت ‘‘سے وابستگی کے دوران کوئی ایسی خاص بات جس کا ذکر ضروری سمجھتے ہوں؟

الطاف حسن قریشی: جب روزنامہ ’جسارت‘ شائع ہوا تو میں نے ایک اداریہ لکھا تھا کہ ”یہ لمحہ پھر نہ آئے گا“ یعنی آپ اپنا فرض ادا کریں اور ووٹ ڈالنے کے لیے نکلیں، کیونکہ یہ ایک ایسا مرحلہ ہے کہ جو آگے چل کر ہماری قومی زندگی اور ہمارے موقف کے لیے انتہائی اہم ہوگا۔ بہرحال قوم نے ہمیں ووٹ نہ دیا، قوم بحران کی دلدل میں پھنس گئی اور ملک ٹوٹ گیا۔

سوال: جنرل یحییٰ خان کی کابینہ میں وزیر اطلاعات میجر جنرل ریٹائرڈ شیر علی خان صاحب کے حوالے سے لبرل اور سوشلسٹ طبقے آج تک کہتے آئے ہیں کہ وہ ایک ایسے اسلام پسند وزیر تھے، جن کے تعلقات جماعت اسلامی کے حامی اخبار نویسوں سے تھے۔ کیا ان کے دور میں آپ کی شیر علی خان صاحب سے ملاقاتیں ہوئیں اور ان میں کیا باتیں ہوئیں؟

الطاف حسن قریشی: شیر علی خاں صاحب سے میری ملاقاتیں اُن کے وزیر بننے سے پہلے بھی ہوئیں۔ ان سے پہلی ملاقات انڈونیشیا کے سفر کے دوران ہوئی، تب انھوں نے بتایا تھا کہ میں آپ کے ڈائجسٹ کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتا ہوں۔ ان کے ہاں ایک عزم اور جوش تھا اور اپنی بات پر اصرار بھی تھا۔ پھر نومبر 1968ء کے دوران بھٹو صاحب کو گرفتار کرلیا گیا تو اس زمانے میں بھی ملاقات ہوئی تھی۔ پھر تین سال بعد بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں کچھ عرصے تک شیر علی خاں صاحب اور میں جیل میں اکٹھے بھی رہے۔ وہ یہ بات کہتے تھے:’’نظریہ پاکستان کا پاکستان کے وجود کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اس لیے ہمیں پاکستان کو زندہ رکھنے کے لیے، اسلام سے اپنی وابستگی کو بہت گہرا کرنا چاہیے‘‘۔ یہ کوئی ایسی انوکھی بات یا کوئی نیا خیال نہیں تھا، بلکہ بہت پہلے سے دوسرے لوگ بھی یہی بات کہہ رہے تھے۔ خود علامہ محمد اقبال کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے اس موضوع پر ایوب خاں کے دورِ حکومت کے پہلے سال 1959ء میں ایک کتاب بھی لکھی تھی:Ideology of Pakistan۔ مطلب یہ کہ ’نظریہ پاکستان‘ کوئی نئی بات تو تھی نہیں، البتہ شیر علی خاں صاحب اس بات کو دینی احساس اور قومی کمٹ منٹ کے ساتھ دہراتے تھے، کیونکہ لوگ اس بنیاد سے دور ہٹتے جارہے تھے، لہٰذا وہ کہتے رہے کہ ’’ہمیں اسلام سے وابستگی میں تازگی رکھنی چاہیے، کیونکہ پاکستان کا استحکام، اسلام ہی کے ساتھ وابستہ ہے، اس لیے ہمیں اسلامی تعلیمات، اسلامی تہذیبی رویوں کی ترویج پر توجہ دینی چاہیے اور یہ کہ لادینی نظریات پاکستان کے لیے بہت نقصان دہ ہیں‘‘۔ اس نکتہ نظر کا وہ سب کے سامنے برملا اظہار کرتے تھے۔ پہلے وہ انڈونیشیا میں پاکستان کے سفیر بھی رہ چکے تھے۔

سوال: آپ کی زندگی میں چونکا دینے والی کوئی بات جو یاد آرہی ہو؟

الطاف حسن قریشی: میری جدوجہد سے بھری زندگی میں مشکل مقامات بہت آئے، مگر کوئی چونکا دینے والا واقعہ پیش نہیں آیا۔ ہمارے والدین کا ہم پر یہ بہت بڑا احسان رہا کہ وہ ہمیشہ نصیحت فرماتے کہ زندگی سادہ بسر کرو اور اللہ پر ہر آن توکل رکھو اور لوگوں سے توقعات وابستہ کرنے سے اجتناب کرو۔ اُنھوں نے پوری عمر انہی اصولوں کے مطابق بسر کی جس کے ہم سب بہن بھائیوں پر صحت مندانہ اثرات مرتب ہوئے۔ یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مَیں اپنی بشری کمزوریوں، کوتاہیوں پر کئی بار بری طرح چونکا ہوں… کبھی ضمیر کی آواز پر، کبھی ٹھوکر کھاکر اور کبھی دوستوں کے احساس دلانے پر۔ مَیں ہر بار اپنے رب کریم سے مغفرت اور نصرت طلب کرتا رہا ہوں۔

میرے ہم عصروں میں آغا شورش کاشمیری، جناب مجید نظامی، محمد صلاح الدین اور مجیب الرحمٰن شامی بڑی ثابت قدمی سے آزادیِ صحافت کا عَلم بلند رکھے رہے۔ صلاح الدین صاحب کا روزنامہ ’’جسارت‘‘ کی تعمیر و ترقی میں ایک قائدانہ کردار رہا۔ ان کے ہمراہ پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ کا توانا قلم تھا۔ اور پھر ان سے قبل جناب نصراللہ خاں عزیز، جناب آباد شاہ پوری، جناب نسیم حجازی، جناب عبدالکریم عابد، جناب پروفیسر عبدالحمید صدیقی اور چودھری غلام جیلانی تجزیاتی اور تعمیری صحافت کی آبیاری کرتے رہے۔ ان سبھی کے تجزیاتی اسلوب، طرزِ استدلال اور زبان اور بیان کی شستگی اور شائستگی سے نئے لکھنے والے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

ہم ایک مشنری جذبے سے صحافتی ذمےداریاں ادا کرتے آئے ہیں اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں قبول فرمائے۔ ایک عام سا شخص جس کی نہ کوئی برادری ہے نہ کوئی بڑا سیاسی پس منظر، نہ فوج اور بیوروکریسی میں کوئی رشتےداری اور نہ کوئی صحافتی پس منظر، مگر اس کے لاکھوں پڑھنے والے پیدا ہوئے اور خاندان کے خاندان اور دو تین نسلیں زیرِ اثر آئیں۔ اسے اللہ تعالیٰ کا ایک معجزہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس فضلِ خاص پر جس قدر شکر ادا کیا جائے، اتنا ہی کم ہے۔