جبر کا پردہ گر جائے تو دنیا کشمیر کی اصل تصویر اور حالات کے حقیقی چہرے سے آشنا ہوسکتی ہے
کشمیر کی شناخت کو چھنے اور میرواعظ عمر فاروق کو خانہ نظربند ہوئے چار سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔ ایک طرف بھارتی حکومت اپنی عدلیہ اور دنیا بھر کو یہ یقین دلاتی ہے کہ کشمیر میں 5 اگست2019ء کے بعد حالات میں بہتری آگئی ہے، اور غیر کشمیری باشندوں کو ڈل جھیل، لال چوک اور دوسرے پبلک مقامات پر ڈھول تاشوں کے ساتھ جمع کرکے دنیا کو حالات کے نارمل ہونے کا تاثر دیا جاتا ہے، تو دوسری طرف ایک پُرامن سیاسی اور دینی راہنما کی رہائی اور گویائی سے بھارت کو اس قدر خوف لاحق ہے کہ انہیں چار سال سے اپنے عوام، عشاق اور پیروکاروں سے کاٹ کر نظربند رکھا گیا ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق کی ایک وڈیو گزشتہ برس اُس وقت سامنے آئی تھی جب انہوں نے اپنی رہائش گاہ سے نکل کر خطبہ ٔ جمعہ دینے کے لیے کشمیر کی تاریخی جامع مسجد سری نگر کی طرف جانے کی کوشش کی۔ پولیس اہلکاروں نے انہیں گھر کے مین گیٹ پر ہی روک لیا جہاں میر واعظ عمر فاروق نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ مکالمہ کیا۔ میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ ”جامع مسجد جانے کی اجازت نہ دینا ہمارے بنیادی اور مذہبی حقوق کی خلاف ورزی ہے، میں تین سال سے گھر میں نظربند ہوں، کسی سے مل نہیں سکتا، میری نانی کا انتقال ہوا، چچا کا انتقال ہوا مگر مجھے ان کے ہاں جانے نہیں دیا گیا۔ اگر میں آزاد شہری ہوں تو نظربند کیوں ہوں؟“ جمعہ سے ایک دن پہلے آل پارٹیز حریت کانفرنس نے جامع مسجد کے خالی منبر کی وڈیو کلپ اپ لوڈ کرتے ہوئے تبصرہ کیا تھا کہ یہ منبر تین سال سے خالی ہے، امید ہے کل میرواعظ اس پر براجمان ہوں گے اور ہزاروں افراد کے سامنے جمعہ کا خطبہ دیں گے اِن شااللہ۔ دوسرے روز یہ امید پوری نہ ہوسکی اور میرواعظ عمر فاروق کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ملی۔ جامع مسجد کے نمازیوں نے اپنا غصہ یوں نکالا کہ انہوں نے مسجد میں سلاخوں کے پیچھے بنے میرواعظ کے پوسٹر اُٹھا رکھے تھے جن پر یہ عبارت درج تھی کہ ’’جھوٹ بولنا بند کرو، میر واعظ کو رہا کرو‘‘۔
5اگست 2019ء سے پہلے بھارتی حکومت نے جو ’’حفاظتی‘‘ اقدامات کیے میرواعظ عمر فاروق کی نظربندی اس کا حصہ تھی۔ اس سے پہلے ہی جامع مسجد کو خاردار تاروں میں لپیٹ دیا گیا تھا، اور اس کا مقصد کشمیریوں کے اس قدیم دینی اور تہذیبی مرکز کو کسی ممکنہ احتجاج کا مرکز بننے سے روکنا، میرواعظ کی زباں بندی کرنا اور انہیں حالاتِ حاضرہ پر تبصرے سے باز رکھنا تھا۔
نمازِ جمعہ کے بعد جامع مسجد کے نمازی کشمیر میں ہونے والے مظالم پر نعرے بازی کرتے ہیں اور اکثر اوقات یہ احتجاج پتھربازی تک بھی دراز ہوتا رہا ہے۔ اس لیے جامع مسجد کے میناروں کو خاموش اور اس کے دروازوں کو مقفل کرنا بھارت کی حکمتِ عملی کا حصہ تھا۔ چار سال گزر گئے میرواعظ کی نظربندی ختم نہ ہوسکی۔ اس دوران میں بھارتی ذرائع نے یہ خبریں بھی دیں کہ میرواعظ ایک ڈیل کے نتیجے میں نہ صرف خاموش ہیں بلکہ نظربندی بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ کشمیر کے وسط میں رائے عامہ کے ایک حصے پر اپنا گہرا رسوخ رکھنے والے سیاسی اور مذہبی راہنما کی ساکھ کو متاثر کرنے کی منظم مہم تھی جس کا مقصد کشمیر کے عام آدمی کو حالات سے مایوس کرکے خود سپردگی پر مجبور اور آمادہ کرنا تھا۔
کشمیر میں سید علی گیلانی جیسی قدآور شخصیات منظر خالی کرکے ابد کی راہوں کو چل دیں۔ یاسین ملک، شبیر شاہ، نعیم خان، مسرت عالم، عبدالحمید فیاض جیسے سیاسی راہنمائوں کو بھارت کی دوردراز جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ان کے ساتھ کشمیر کے ہزاروں فعال سیاسی کارکنوں کو بھی جیلوں میں مقید کردیا گیا۔ اس طرح حریت پسند کیمپ کو مکمل خالی اور ویران کردیا گیا ہے۔ لے دے کر میر واعظ عمر فاروق ہی ایک ایسی شخصیت منظر پر موجود ہیں جنہیں نہ تو بھارتی حکومت گرفتار کرسکتی ہے اور نہ آزاد چھوڑ سکتی ہے۔ میرواعظ کی گرفتاری سے بھارتی حکومت کو بھارت کے مسلمانوں اور عرب ملکوں کی طرف سے ردعمل کا ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ خوف شاید بے سبب ہے۔ عرب دنیا کشمیری مسلمانوں کو ان کے حال پر چھوڑ چکی ہے۔
میرواعظ کی عوامی ساکھ کو مشکوک بنانے اور کشمیریوں کے حوصلے توڑنے کے لیے گزشتہ برس بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ اور کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہنا شروع کیا کہ میرواعظ تو آزاد ہیں، وہ اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کرسکتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے اس دعوے کو جانچنے کی پہلی کوشش بی بی سی کی رپورٹر نے کی، جس نے انٹرویو کی خاطر میرواعظ عمر فاروق کے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی، مگر اسے پولیس اہلکاروں کی طرف سے گھر میں داخلے کی اجازت نہیں ملی۔ بی بی سی کی خاتون رپورٹر نے یہ مناظر لائیو چلائے اور اُس وقت میرواعظ اپنے گھر کی جالی سے باہر جھانک رہے تھے۔ اس کے باوجود کشمیر کے گورنر نے میرواعظ کو آزاد شہری کہا تو میرواعظ عمر فاروق نے اس دعوے کی حقیقت بتانے کے لیے خود جامع مسجد جانے کا راستہ اپنایا۔ بھارتی حکام نے انہیں روک کر ’’کشمیر میں سب اچھا ہے‘‘ کے اپنے ہی دعوے کو رد کردیا اور دنیا کو اندازہ ہوا کہ کشمیر میں تصویر کا دوسرا رخ بھی موجود ہے اور وہی کشمیر کی اصل حقیقت ہے۔ اس سے کشمیر کے لوگوں کو بھی اندازہ ہوا کہ ابھی بھی کشمیر کی حریت پسند قیادت اپنے قدموں پر کھڑی ہے اور جبر کا پردہ گر جائے تو دنیا کشمیر کی اصل تصویر اور حالات کے حقیقی چہرے سے آشنا ہوسکتی ہے۔
میرواعظ عمر فاروق کی طرف سے نظربندی کے فیصلے کو روندنے کی اس عملی کوشش کے بعد بھارتی قیادت نے یہ دعویٰ کرنا چھوڑ دیا کہ میرواعظ آزاد ہیں اور جہاں چاہیں جاسکتے ہیں۔ میرواعظ عمر فاروق نے اپنے جرات مندانہ اقدام سے جھوٹ کی قلعی کھول دی تھی۔ اس کے بعد سے ایک سال اور گزر گیا، نہ جامع مسجد کے تالے کھلے، نہ مسلمانوں کو وہاں سربسجود ہونے کا اذن مل سکا، اور نہ ہی میرواعظ اس تاریخی مسجد کے منبر سے کشمیری مسلمانوں کی راہنمائی کا فریضہ انجام دے سکے۔ یہ مسلمانوں کے دینی معاملات میں کھلی مداخلت ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایک طرف امرناتھ یاترا کو گلوریفائی کرنے کا سلسلہ زوروں پر ہے، تو دوسری طرف مسلمان اکثریت کی سب سے قدیم اور مضبوط دینی اور تہذیبی علامت جامع مسجد کو خاردار تاروں کے حصار میں ویران کررکھا ہے۔ مسلمان اس مسجد میں عبادت کو ترس رہے ہیں۔ کشمیر کے سب سے محترم دینی راہنما میرواعظ مولوی عمر فاروق کو بھی قیدی بنا کر رکھا گیا ہے۔ میرواعظ وہ شخصیت ہیں جنہیں بھارتی وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ نے کشمیریوں کے نمائندے کی حیثیت سے وزیراعظم ہاوس بلا کر ملاقات کی ہے۔ اگر میرواعظ عمرفاروق اور ان کے حریت پسند ساتھی دہشت گرد تھے تو سب سے پہلا مقدمہ واجپائی اور من موہن سنگھ پر چلایا جانا چاہیے تھا۔ حقیقت میں بھارت اندر کے خوف کا شکار ہے، وہ کشمیریوں کی راہنمائی اور قیادت کی حامل شخصیات کو منظر سے غائب رکھ کر کشمیری عوام کو کنفیوژ اور مایوس کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ بے سمت ہوکر بھارت کے متعارف کرائے گئے ٹیسٹ ٹیوب سیاست دانوں کو لیڈر ماننے پر مجبور ہوجائیں۔ بھارت نے میرواعظ عمر فاروق کو سید علی گیلانی کے اسٹائل میں ہی گھر میں قید کر رکھا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ اپنے قائدین کی یاد کشمیریوں کے ذہنوں سے محوہوجائے۔ مگر یہ مشق ِ فضول ہے۔ نظریاتی تحریکوں کے خلاف یہ ہتھکنڈے کامیاب نہیں رہتے۔