برطانیہ جوکہ دنیا کی پانچویں بڑی قوت تھا اب اُس کی جگہ بھارت نے لے لی ہے
پاکستان کے پڑوس میں جی 20 کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس کی میزبانی بھارت کے پاس تھی، اور بھارت نے اس کو عمدگی سے نبھایا۔ جی 20 دنیا کے بڑے معاشی ممالک کی تنظیم ہے جس میں بھارت سمیت سعودی عرب، افریقہ، روس، چین امریکہ، برطانیہ، جنوبی امریکی ممالک اور یورپ کے ممالک شامل ہیں۔
جی 20 دنیا کے ممالک مجموعی پیداوار کا 80 فی صد پیدا کرتے ہیں، اور اسی طرح دنیا کی 75فی صد تجارت اور دو تہائی آبادی کے بھی حامل ہیں۔ گزشتہ دنوں دنیا کی بڑی معیشتوں میں ایک بڑا ردوبدل نظر آیا، اور برطانیہ جوکہ دنیا کی پانچویں بڑی قوت تھا اب اُس کی جگہ بھارت نے لے لی ہے، اور بھارت دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے جو کہ معاشی ماہرین کے مطابق اگلے درجوں تک بھی تیزی سے جاسکتا ہے۔
جی 20 ممالک کی تنظیم کے اجلاس کا بھارت میں انعقاد بھارت کے لیے نئے معاشی امکانات لے کر آیا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان خود اس کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت گئے اور بھارت سے بہت بڑے معاہدے کرکے آئے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک معاہدہ بھارت میں آئل ریفائنری لگانے کا ہے جس میں سعودی سرمایہ کاری کا حجم 100 ارب ڈالر ہے۔ اس کے علاؤہ اس کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی چین کے سی پیک کے مقابلے میں بھارت سے مشرق وسطیٰ، مشرقِ بعید، یورپ اور افریقہ کو ملانے کے لیے ریل و روڈ نیٹ ورک کا معاہدہ ہے جس کو انڈین مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور (IMEC) کا نام دیا گیا ہے۔
اس کا اثر دوسرے ہی دن ممبئی اسٹاک ایکسچینج پر ظاہر ہوا، جہاں اسٹاک ایکسچینج 20,000 پوائنٹ کی نفسیاتی حد تک پہنچ گیا اور نیشنل اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں کو 3.37 لاکھ کروڑ کا منافع ہوا۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہورہا ہے جب پاکستان محض دو یا تین ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے کشکول لے کر بھیک مانگ رہا ہے اور ہمارے اپنے برادر اسلامی ممالک خود پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے اب بھارت میں اپنی سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ یہ سب کچھ عالمی منظرنامے پر جاری ہے لیکن اس سب میں ہمارے لیے اپنے دیرینہ دشمن سے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ بھارت میں مودی حکومت اور اس سے قبل کانگریس حکومت ایک ہی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور نوّے کی دہائی میں بھارتی معیشت کی ابتری کے بعد ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر ایک نکاتی میثاقِ معیشت کیا جس کا مقصد ملک میں معاشی استحکام، معاشی ترقی کے مواقع پیدا کرنا اور بھارت کی افرادی قوت کو بیرونِ ملک ملازمت کے اچھے مواقع مہیا کرنا تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والا ملک بھارت یہ سمجھتا تھا کہ اس کا معاشی نظام غیر مستحکم ہے جسے مستحکم کرنے کے لیے فوری طور پر ایک طویل المدت پالیسی مرتب کی جائے اور اس سلسلے میں جمہوری قوتوں کو مکمل اعتماد میں لیا جائے۔ اس کا آغاز کانگریس حکومت نے کیا اور سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ جوکہ خود ایک منجھے ہوئے ماہر معیشت ہیں انہوں نے بطور وزیر اس کا آغاز کیا۔ بعدازاں آنے والی حکومتوں نے اس کا تسلسل برقرار رکھا۔ دنیا بھر میں آئی ٹی کی نئی ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھارت نے اپنی افرادی قوت تیار کیا اور بنگلور جیسے بڑے شہروں میں سلیکون ویلی کی طرز پر انفرااسٹرکچر بنایا گیا اور دنیا بھر میں آئی ٹی کے کورسز کی ٹریننگ یہاں مہیا کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ سوفٹ ویئر کے حوالے سے مقامی سوفٹ ویئر انڈسٹری کو فروغ دیا گیا، جس کے بعد دنیا بھر میں موجود بھارتی باشندوں نے اپنے دفاتر کا آغاز بھارت میں کیا جس سے ایک بڑی تعداد میں بھارتی نوجوانوں کو روزگار ملا۔ آج صرف آئی ٹی کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ ہر بڑی آئی ٹی کمپنی میں بھارتی ماہرین بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ برطانیہ ان کو ترجیحی ویزے جاری کررہا ہے۔ امریکی آئی ٹی انڈسٹری میں بھارتی بہت آگے ہیں۔ پاکستان، ایران اور بھارت گیس پائپ لائن کا ڈول ڈالا گیا، لیکن جس پروجیکٹ کو دسمبر 2014ء میں مکمل ہونا تھا اس کو ایران پر تجارتی پابندیوں کے باعث بین الاقوامی و امریکی دباؤ پر معطل کردیا گیا۔ ہم نے بطور پاکستانی ریاست تو کچھ نہ لیا لیکن بھارت نے اس کے عوض امریکہ سے ایٹمی ٹیکنالوجی کا معاہدہ کیا۔ اس کے بعد چین نے پاکستان کے ساتھ بھارت میں بھی اکنامک کوریڈور کا آغاز کیا، ساتھ ہی ساتھ چین نے اس کوریڈور کے لیے پاکستان کی تمام مین اسٹریم سیاسی جماعتوں سمیت فوج کو بھی اپنے اعتماد میں لیا، اس کے بعد اس منصوبے کا آغاز ہوا۔ لیکن ہماری قومی ترجیحات میں کچھ بھی طے شدہ نہیں تھا، لہٰذا ایک کے بعد ایک عسکری قیادت کی تبدیلی نے سی پیک کا کام تمام کردیا اور اس سب میں سیاست دان اور فوجی جرنیل بروئے کار آئے۔ اس سے قبل افغانستان میں امریکی مداخلت کے عوض ہم نے جو سہولت کاری کی رقم حاصل کی وہ بھی سب جرنیلوں کے اکاؤنٹ میں چلی گئی، اس میں بھی ہم کسی قومی مفاد کو سامنے رکھ کر کام نہ کرسکے۔
سی پیک کو رول بیک کروانے میں امریکہ کا ہاتھ کوئی راز نہیں، اگر ہماری قومی قیادت نے سوچ لیا تھا کہ وہ یہ دباؤ برداشت نہیں کرسکتے تو انہوں نے اس کے عوض قومی مفاد میں امریکہ سے کیا لیا؟
اب صورتِ حال یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ، جنرل عاصم سلیم باجوہ سمیت کئی دیگر جرنیلوں کے غیر ملکی اثاثے و اکاؤنٹ ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس سے قبل جنرل پرویزمشرف کے بھی ملین ڈالرز و پائونڈ اکاؤنٹ بیرونِ ملک موجود تھے۔ یہ محض کاروبار سے نہیں بلکہ ملکی و قومی مفادات کا سودا کرکے کاروبار سے حاصل شدہ رقم ہے۔
بھارت جس کی معیشت ہم سے بھی ابتر تھی، آج دنیا کی بڑی معیشتوں کے ہم پلہ ہے، اور ایک ہم ہیں جنہوں نے پورے مشرقِ وسطیٰ کی ایئرلائن انڈسٹری کو کھڑا کیا آج خود پی آئی اے کو نجی شعبے کے حوالے کررہے ہیں۔ ہم جنوبی ایشیا میں اسٹیل کا سب سے بڑا کارخانہ پوری دنیا میں بیچنا چاہتے ہیں لیکن کوئی اس کا خریدار نہیں۔ ہماری بڑھکیں، دعوے اور بیانات محض سیاست کے سوا کچھ نہیں۔ نہ کوئی قومی مفادات ہیں اور نہ کوئی ترجیحات۔ کبھی سی پیک بناؤ، کبھی اس کو بند کراؤ۔ کبھی ایک کو لاؤ، کبھی دوسرے کو۔ یہ چور، وہ چور… ہم کسی سمت میں چل پائے، نہ اس ریاست کو مکمل جمہوری ریاست بنا پائے، اور نہ ہی مکمل فوجی بادشاہت میں اس کو تبدیل کرسکے۔
گزشتہ دنوں بھی جب پاکستانی حکام سعودی در پر کشکول لیے گئے تو سعودی حکام نے واضح جواب دیا کہ آپ ہمارے پاس سرمایہ کاری کے لیے آئیں تو خوش آمدید، ورنہ ہمارے پاس امداد کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ہماری کوئی معاشی پالیسی ہوتی تو ہم کچھ پیش کرتے۔ ہم کچھ پیش نہ کرسکے، اور اگر کردیتے تو بھی سی پیک کے اربوں ڈالر کے منصوبے کا جو حال ہم نے کیا اُس کے بعد دنیا سے کسی بھی سرمایہ کاری کی توقع رکھنا فضول ہے۔
ہمارے احباب پاکستان کو دنیا بھر کے لیے اسٹرے ٹیجک اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے ”انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور“ پر تنقید کررہے ہیں کہ یہ پاکستان کے بغیر کیسے بنے گا؟ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ دنیا میں اس سے بھی بڑی ترقیاں دنیا کے سیاسی جغرافیہ کو تبدیل کرکے اور تبدیل کیے بغیر بھی کی جاچکی ہیں۔ اس کی دو مثالیں نہر سوئز اور آبنائے باسفورس کی صورت میں موجود ہیں۔
ہم بحیثیتِ مجموعی بھارت پر دن رات تنقید کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے اپنی ریاست کی حد تک اپنے اکثریتی مذہب کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا بلکہ اس کے علاؤہ معاشی ترقی میں بھی دنیا کو واضح پیغام دیا ہے۔ بھارت کی ٹیکنالوجی میں ترقی اس کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت کی حامل ہے۔ ہماری ٹیکنالوجی کی ساری ترقی صرف اور صرف عسکریت کے گرد گھومتی ہے، اس کے سوا ہم کسی بھی شعبے میں کوئی قومی ترقی نہ کرسکے۔
جی 20 کا اختتام تو ہوگیا لیکن بھارت اب دنیا کا صفِ اوّل کا ملک بننے جارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات صرف اور صرف پالیسیوں میں تسلسل، قومی مفادات کا تحفظ اور جمہوریت ہے۔ کرپشن دنیا کے ہر ملک میں ہے، یقیناً بھارت میں بھی ہوگی، لیکن اس سب میں ترقی کرتا بھارت ہمارے لیے پیغام ہے کہ بیک وقت دو سیاسی مخالفین کے ساتھ بھی متوازن تعلقات رکھے جاسکتے ہیں۔ بھارت میں چین کے ریل روڈ نیٹ ورک کے ساتھ اب انڈیا مڈل ایسٹ، یورپ اکنامک کوریڈور اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے بین الاقوامی تعلقات میں بھی بہت غلطیاں کی ہیں جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔
پاکستان اور اس ریاست کے کرتا دھرتا اگر کہیں اور نہیں دیکھنا چاہتے تو کم از کم اپنے پڑوس کو ہی دیکھ لیں کہ جہاں سیاست دان کرپٹ ہونے کے باوجود بھی ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں، جبکہ ہم محض احتساب کے نعروں کی گونج میں ایک نئی کرپشن کا آغاز کرتے ہیں جس کے بعد ہم ایک اور نئی تنزلی کی جانب گامزن ہوجاتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ آزاد ہونے والی ریاستیں ہیں جن کا ماحول اور حقائق بھی تقریباً ایک جیسے تھے ان کا موازنہ زیادہ بہتر ہے تاکہ ہم کچھ سیکھ کر آئندہ کے لیے کسی سمت کا تعین کرسکیں کہ جہاں سیاسی جماعتیں مل کر ایک نکاتی میثاقِ معیشت بنائیں اور اعادہ کریں کہ وہ آئندہ کسی غیر جمہوری قوت کی آلہ کار نہیں بنیں گی۔ ورنہ نہر سوئز اور آبنائے باسفورس کی طرح پاکستان میں بھی نرم یا گرم تبدیلی اب کچھ دور نہیں کہ جب ملک کا یا تو جغرافیہ تبدیل ہوجائے یا ریاست ان کو خود راستے دینے پر آمادہ ہوجائے۔ انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور پاکستان کے لیے بہت بڑے امکانات کی دنیا ہے، لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ذاتی مفادات کے بجائے ملکی مفاد کے لیے سوچا جائے۔