پرانی کہانی… بدلتے کردار

معیشت کی باگ ڈور بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں

نہ سیاست بدل رہی ہے اور نہ ہی معیشت۔ کہانی وہی ہے البتہ اس کے کردار بدل رہے ہیں، اور نئے کردار نئے سیاسی نعروں کو بنیاد بناکر ایک اور نئی کہانی پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نئی کہانی کے جو اسکرپٹ رائٹر ہیں وہ نئے کرداروں کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، مگر کہانی کا اسکرپٹ پرانا ہے یا اس کے متن میں کوئی ایسی نئی چیز نہیں جس کی بنیاد پر ہم تبدیلی کا کوئی بڑا عمل دیکھ سکیں۔ تبدیلی کا نعرہ بھی یہاں اپنی اہمیت کھو رہا ہے اور عوام کو لگتا ہے کہ تبدیلی کے نام پر اور جذباتیت کی بنیاد پر ہمیں الجھایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عوام تبدیلی کے نام پر انقلاب چاہتے ہیں یا سب کچھ بدلنا چاہتے ہیں،کیونکہ انہیں یقین ہوتا جارہا ہے کہ جو یہ نظام ہے اس کا براہِ راست تعلق ہماری زندگیوں کی بہتری سے نہیں ہے۔ عملی طور پر نظام پر سے عوام کا اعتماد اٹھ رہا ہے، اور یہ عدم اعتماد محض اس نظام تک محدود نہیں بلکہ مجموعی طور پر ریاست سے جڑا سوال ہے۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان جو عمرانی معاہدہ ہے وہ اپنی اہمیت کھو رہا ہے جو ہمارے لیے زیادہ فکرمندی کا پیغام دیتا ہے۔

اس وقت بظاہر ریاستی اسٹیبلشمنٹ اور نگران حکومت کی جانب سے پیغام دیا جارہا ہے کہ سیاسی اور معاشی استحکام میں جو بھی رکاوٹ ہوگی اسے ہم ہر صورت میں دور کریں گے۔ معیشت کی باگ ڈور بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے اورکوشش کی جارہی ہے کہ معاشی بہتری کے عمل میں جو بھی رکاوٹیں ہیں ان کو ختم کیا جائے۔ ممکن ہے آرمی چیف کے پاس معاشی سطح پر کوئی روڈمیپ ہو، اور اس کی بنیاد پر ان کے پاس حکمت عملی اورعمل درآمد کا کوئی عملی خاکہ بھی ہو۔ اسی بنیاد پر وہ کراچی اور لاہور میں بڑے بڑے صنعت کاروں اور کاروباری افراد سے ملے ہیں۔ ہوسکتا ہے ان کے پاس کوئی شارٹ پلان ہو جس پر عمل درآمد کرنے میں بھی وہ کسی حد تک کامیاب ہوجائیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی فرد یا ادارہ سیاسی تنہائی میں معیشت کا علاج کرسکتا ہے؟ اورکیا سیاسی قوتوں کے بغیر کسی بھی سطح کا معاشی استحکام ممکن ہوسکے گا؟ جو اس وقت غیر یقینی معاشی صورتِ حال ہے اس میں فوری بہتری کیسے ممکن ہوسکے گی اور اس کا روڈمیپ کیوں عوام کے سامنے واضح طور پر پیش نہیں کیا جارہا؟ اہم سوال یہ ہے کہ معیشت کا علاج ڈنڈے کے ساتھ کرنا ہے یا افراد کو ڈرا کر کرنا ہے؟ کیونکہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ڈنڈے کے زور پر ہونے والے اقدامات فوری طور پر ہماری معیشت کے لیے ریلیف کا ذریعہ بن سکیں؟ ڈنڈے کے زور پر آپ کچھ دن تک تو ہلچل مچا سکتے ہیں اور اس سے کچھ بہتر نتائج بھی مل سکتے ہیں، مگر یہ کوئی مستقل حل نہیں، بلکہ اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ تیزی سے کیے جانے والے اقدامات معیشت سے جڑے افراد میں مزید بداعتمادی پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔

اصل بحران یہ ہے کہ ملک انتخابات کے دہانے پر کھڑا ہے اور پوری قوم میں ابہام موجود ہے کہ کیا انتخابات ممکن ہوسکیں گے ؟کیونکہ یہ منطق بڑی شدت کے ساتھ بڑھائی جارہی ہے کہ انتخابات اِس وقت مسائل کا حل ثابت نہیں ہوں گے، اور ہمیں انتخابات کے مقابلے میں پہلے معیشت کی بحالی کو اپنی ترجیح بنانا ہوگا۔الیکشن کمیشن سے لے کر نگران حکومت تک، اور اِس وقت کی اسٹیبلشمنٹ سے لے کر سیاست دانوںاورکاروبار ی افراد تک سبھی انتخابات سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جس سے لگتا ہے کہ انتخابات کی ترجیح کہیں پیچھے چلی گئی ہے۔نگران حکومت بننے کے باوجود انتخابات کا کوئی ماحول غالب نظر نہیں آتا۔ ویسے بھی اگرہم اپنی سیاسی یا انتخابی تاریخ کا جائز ہ لیں تو یہاں انتخابات سے پہلے انتخابات کا ماحول اورانتخابات کے نتیجے میں بننے والی منتخب حکومت کا خاکہ تیار کیا جاتا ہے۔ یعنی ہم انتخابات سے قبل ہی سیاسی نظام کی ابتدائی شکل تیارکرلیتے ہیں اوربعد میں انتخابات کے نام پر اس میں اپنی مرضی اورمنشا کے مطابق سیاسی رنگ بھرے جاتے ہیں۔اس وقت انتخابات کی راہ میں سب سے بڑی سیاسی رکاوٹ پی ٹی آئی اور عمران خان ہیں۔ کیونکہ منطق یہ غالب ہے کہ انتخابات سے قبل عمران خان کاسیاسی بندوبست ہوگا اور پی ٹی آئی کو اسی سیاسی بندوبست کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی، اور اگر سیاسی بندوبست میںناکامی ہوتی ہے تو پھر انتخابات میں تاخیری حربے اختیار کرنا فیصلہ سازوں کی سیاسی مجبوری ہے، اوراس مجبوری کو ہی انتخابی سیاسی حکمت عملی کے تحت جوڑ کر دیکھا جائے۔کہا جارہا ہے کہ انتخابات میں جو بھی تاخیر ہورہی ہے اس کی بڑی وجہ سیاسی بندوبست کے نام پر چلنے والی کہانی ہے جس میں مختلف فریقین کے درمیان اعتماد کے بجائے عدم اعتماد کا ماحول غالب ہے۔

سوا ل یہ ہے کہ اگر بروقت انتخابات نہیں ہوتے اورحکمتِ عملی کے تحت انتخابات ترجیح ہی نہیں تو پھر انتخابات کے بغیر سیاسی استحکام اورمعاشی ترقی کے عمل کو کیسے آگے بڑھایا جاسکتا ہے؟کیا اس حکمت عملی کے تحت معاملات میں اورزیادہ خرابی نہیں ہوگی؟ اورکیا سیاسی و معاشی استحکام کا نہ ہونا ہمیں مزید پیچھے کی طرف نہیں دھکیلے گا؟کیونکہ سیاسی غیر یقینی کی کیفیت کسی بھی صورت میں معاشی استحکام کی ضمانت نہیں بن سکتی، اور یہ کام آگے بڑھانے کے لیے سوائے سیاسی مفاہمت کے اورکچھ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ انتخابات کا راستہ ہی مسائل کے حل کی کنجی ہے، مگر جو بھی انتخابات ہوں ان کی شفافیت پر بہت زیادہ سوالات نہ کھڑے ہوں۔ سیاسی لیول پلیئنگ فیلڈ بھی یقینی بنائی جائے اوراس تاثر کی نفی کرنا ہوگی کہ ہم کسی کو باہر نکال کر سیاسی و انتخابی میدان سجانا چاہتے ہیں۔لیکن اگر ہمیں ماضی کی طرح سیاسی مہم جوئی کرنا ہے اوراپنی مرضی کا ہی سیاسی نظام یا سیاسی شخصیات کو سامنے لانا ہے تو سیاست، جمہوریت اورانتخابات کی ساکھ جو پہلے ہی اپنی اہمیت کھوتی جارہی ہے، مزید پسپائی کی طرف جائے گی۔اس لیے جو فیصلہ سازہیں اُن پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جذباتیت اورمقابلہ بازی سے باہر نکلیں اور خود کو ذمہ دارانہ کردار کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے پیش کریں۔ کیونکہ جس طرح تنقید اسٹیبلشمنٹ پر بڑھ رہی ہے اس سے خود اسٹیبلشمنٹ کا اپنا نقصان ہے۔کیونکہ عوامی رائے عامہ اگر اسٹیبلشمنٹ کے برعکس ہوگی تو اس سے اس ادارے پر تنقید کے نئے دروازے بھی کھلیں گے اور سیاسی ماحول میں مزید کشیدگی کا پہلو بھی نمایاں ہوگا۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت علاقائی صورتِ حال میں نئے معاشی امکانات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ پہلے سی پیک منصوبہ اوراب جی 20کے بعد علاقائی سیاست میں نئے معاشی امکانات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے علاقائی سطح کے معاملات کی درست درجہ بندی اور ترجیحات کا تعین کریں۔کیونکہ علاقائی سیاست اورمعیشت کا فائدہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم اپنے داخلی سیاسی اورمعاشی معاملات میں اپنا قبلہ درست کرسکیں گے۔علاقائی معیشت میں تیزی سے جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ہمیں ان کے ساتھ خود کو جوڑنا ہے، اور یہی حکمت ِعملی ہمیں علاقائی اور عالمی طور پر فائدہ دے گی اورہم اس سے معاشی میدان میں بہت حد تک فائدہ اٹھاسکیں گے۔

عدالتی محاذ پر چیف جسٹس عمرعطابندیال جارہے ہیں اور نئے چیف جسٹس، جسٹس فائز عیسیٰ اس منصب پر آرہے ہیں۔ نئے چیف جسٹس کے تناظر میں بہت سی انقلابی باتیں کی جارہی ہیں اورکہا جارہا ہے کہ وہ پرانے چیف جسٹس سے زیادہ طاقت ور ہوں گے اور اپنی طاقت بھی دکھائیں گے۔ موجودہ چیف جسٹس جو اپنی مدت مکمل ہونے کے بعد جارہے ہیں اُن کا مجموعی دور ہنگامہ خیز رہا، اور اس دور کو کسی بھی صورت میں مثالی نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں اعلیٰ عدالتوں کی بے توقیری ہوئی، ان کے فیصلوں پر ہی عمل کرنے سے انکار کردیا گیا اور اعلیٰ عدالتوں نے اپنی بے بسی ظاہر کی۔ یہی وجہ ہے کہ نئے چیف سے بہت سے لوگوں کو بہت سی توقعات ہیں۔ لیکن اعلیٰ عدلیہ کے جو حالات ہیں اُن میں کوئی بڑی مثبت تبدیلی نئے چیف جسٹس کی بنیاد پر دیکھنے کو مل سکے گی؟ المیہ یہ ہے کہ ہم غیر ضروری اور غیر اہم باتوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ان کو ہی اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بناکر اپنی اصل طاقت ضائع کرتے ہیں۔ ہماری توجہ کا مرکز قومی سطح کے بڑے اور اہم مسائل نہیں ہوتے، ہم ان پر توجہ دینے کے بجائے عملاً ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریباں ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں بطور ریاست اپنے مجموعی مزاج میں بہت کچھ بدلنا ہے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کا راستہ تلاش کرنا ہے۔

اس وقت قومی سیاست میں بہت کچھ تبدیل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) پر سابقہ سولہ ماہ کی سیاسی حکومت کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، اور اس کی اتحادی جماعتیں بشمول پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) کا سیاسی بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے کی مخالفت میں بیان بازی کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ نوازشریف کے بعد شہبازشریف کی لندن میں موجودگی بھی ایک سوالیہ نشان ہے، اورمسلم لیگ (ن) اس وقت انتخابات کے معاملے میں سب سے زیادہ فکرمند نظر آتی ہے،کیونکہ اس کو احساس ہے کہ اِن حالات میں اگر انتخابات ہوں گے تو اسے بہت زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی پر مسلم لیگ (ن) ہی نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن بھی خاصی تنقید کررہے ہیں اور پی ڈی ایم حکومت بننے کا سارا بوجھ آصف زرداری پر ڈالا جارہا ہے کہ وہی اس کھیل کے اصل کردار تھے اور ان ہی کی وجہ سے پی ڈی ایم کی سیاست کو نقصان ہوا ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی میں آصف علی زرداری اوربلاول بھٹو کے درمیان کچھ سیاسی تلخیاں بڑھ رہی ہیں اورباپ بیٹے کی سیاسی حکمت عملی میں حقیقی مسائل ہیں، یا یہ بھی ایک سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ آصف زرداری اوربلاول بھٹو نے الگ الگ ٹریک پر کام کرنا ہے۔ پیپلزپارٹی کو لگ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس کے سیاسی مخالفین کے لیے راہیں ہموار کررہی ہے اور بالخصوص سندھ میں اسے دیوار سے لگانے کا کھیل بھی جاری ہے۔ اس کھیل میں کچھ لوگوں کے بقول فیصل واوڈا کا کردار ہے جو کسی کی پشت پناہی سے سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف اتحاد پر کام کررہے ہیں۔ممکن ہے کہ بلاول بھٹو کی حکمت ِعملی یہ ہو کہ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ سے صلح میںآصف زرداری آگے ہوں تو دوسری طرف وہ عوامی سیاست کو بنیاد بنا کر پارٹی کے عوامی تشخص کو بہتر بنائیں۔مولانا فضل الرحمن بھی خاصے نالاں ہیں اوران کو لگتا ہے کہ ان کی خیبر پختون خوا میں دال نہیں گل رہی، اورنہ ہی فیصلہ ساز ان کے لیے کوئی مثبت حالات پیدا کررہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کو گلہ ہے کہ ان کے مقابلے میںپرویزخٹک کو آگے لایا جارہا ہے جو ان کو سیاسی نقصان پہنچائیں گے جو انہیں قبول نہیں۔ پی ٹی آئی کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس کا کھیل ختم ہوگیا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے، اور پارٹی بھی اوراس کا ووٹر بھی بہت حد تک میدان میں موجود ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ حالات پی ٹی آئی کے لیے اچھے نہیں، مگر یہ حالات مستقل رہیں گے یہ بھی ممکن نہیں، کیونکہ پی ٹی آئی بھی ایک سیاسی حقیقت ہے جسے آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔اس سارے منظر نامے میں جو سیاسی مہم جوئی کی جارہی ہے اور ان جماعتوں کے مقابلے میں نئی جماعتوں کی تشکیل یا ان میں سیاسی ہوا بھرنے کی جو کوشش ہورہی ہے وہ حالات درست کرنے کے بجائے مزید سیاسی کشیدگی کا سبب بنے گی۔

اس لیے فیصلہ ساز سیاسی مہم جوئی سے خود کو بھی دور رکھیں اور سیاسی جماعتوں میں بھی اس طرح کی مہم جوئی کی حوصلہ شکنی کریں۔ ہمیں اگر واقعی ایک مضبوط سیاسی اور معاشی نظام کی طرف جانا ہے تو اپنی موجودہ پالیسیوں میں بہت کچھ تبدیل کرنا ہوگا، کیونکہ روایتی اور پرانا سیاسی کھیل اب وہ نتائج نہیں دے سکے گا جو ہم ماضی میں لیتے رہے ہیں۔ حالات بھی ماضی جیسے نہیں، اور اب حالات میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں وہ ہمیں مجبور کررہی ہیں کہ پرانے خیالات سے نکل کر نئے خیالات اپنائیں، یہی ہمارے قومی مفاد میں ہے۔