معیشت کی بحالی، کرپشن کا خاتمہ اور دہشت گردی سے نمٹنا ایک ایسا ٹاسک ہے جس کا نگران حکومتوں کے پاس نہ مینڈیٹ ہے، نہ ہی تجربہ اور نہ صلاحیت
نگران حکومت سب کچھ کررہی ہے لیکن انتخابات سے زیادہ دیگر معاملات پر کام ہورہا ہے۔ اس کی وجوہات جو بھی ہوں، اب ضروری ہے کہ آئین میں نگران حکومتوں کے کردار کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے۔ جمہوری معاشروں میں کہیں بھی ایسی نگران حکومت کا تصور نہیں جو انتخابات کرانے کے بجائے کسی دوسرے امور میں گھس جائے۔ یہ تصور دراصل ملک میں دوسرے مارشل لا کے بعد بحال ہونے والی اسمبلی کے ذریعے ورثے میں ملا جب صدر اور گورنروں کے اس اختیار کو آئین کا حصہ بنادیا گیا کہ وہ اسمبلیوں کی میعاد ختم ہونے پر نگران وزیراعظم اور نگران وزرائے اعلیٰ کا تقرر کریں۔ یہ آج بھی آئین کا حصہ ہے۔
ہمارے ہاں کا نگران بندوبست نرالے ڈھنگ کا ہے، اس کی ذمہ داری شہبازشریف حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے جس نے جاتے جاتے ایسی قانون سازی کی جس کی جمہوریت میں کوئی مثال نہیں ملتی جو الیکشن ایکٹ، 2017ء کی انتخابی اصلاحات کے منافی ہے جو واقعی ایک متفقہ، جامع اور مستند دستاویز ہے۔ اس ایکٹ کا آرٹیکل 230 اور اس کی گیارہ ذیلی شقیں وضاحت سے بتاتی ہیں کہ نگران حکومتوں کے فرائض کیا ہیں اور انہیں کون سے کام نہیں کرنے چاہئیں: (1) حکومت چلانے کے لیے روزمرہ کی عمومی انتظام کاری، (2) قانون کے مطابق انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت، (3) معمول کے ایسے کام (Routine Tasks) جو عوامی مفاد کے لیے ضروری ہوں اور جنہیں آنے والی حکومت واپس لینا چاہے تو اُسے مشکل نہ ہو۔ (4) تمام افراد اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھنا۔ گویا نگران حکومت کسی بھی منتخب حکومت کے لیے نہ مشکل پیدا کرسکتی ہے اور نہ اس کی اتھارٹی مجروح کر سکتی ہے، لیکن پی ڈی ایم حکومت نے پہلے یہ تحفہ ہمیں دیا۔ اب پی ڈی ایم کی جماعتیں باہم دست و گریباں ہیں۔ صدر مملکت عارف علوی ایک الگ آئینی کردار کے ساتھ سامنے آرہے ہیں، ان کے ساتھ حکام کی متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں، تاہم ان میں کیا طے ہوا اور کیا نہیں، اس کا اندازہ صدر کی حرکات و سکنات سے ہوگا۔ نگران حکومت کے ایجنڈے میں دیگر معاملات انتخابات سے زیادہ اہم ہیں۔ معیشت کی بحالی، کرپشن کا خاتمہ اور دہشت گردی سے نمٹنا ایک ایسا ٹاسک ہے،جس کا نگران حکومتوں کے پاس نہ مینڈیٹ ہے، نہ ہی تجربہ اور نہ صلاحیت۔
یہ بات درست ہے کہ معاشی بحران، کرپشن اور دہشت گردی نے پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کی بنیادوں کو ہلا دیا ہے۔ یہ فوری حل طلب مسائل ہیں، لیکن انتخابات سے کس حد تک گریز ہوسکے گا؟ منتخب حکومتیں نہ ہونے سے خلا بڑھ جائے گا۔ پاکستان کی سرحدوں سے باہر نئی علاقائی اور عالمی صف بندی ہورہی ہے اور پاکستان کو ایک بار پھر عالمی طاقتوں کا میدان جنگ بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
وزارت خزانہ کی تازہ ترین معلومات کے مطابق گزشتہ ماہ اگست اقتصادی اپ ڈیٹ پرامید رہا، طے کیے گئے ہدف تک پہنچ میں آسانی رہی۔ یہ کسی حد تک حوصلہ افزا علامات ہیں۔ لیکن یہ ڈیٹا عارضی ہے اور شاید اگلے مہینے صورت حال مختلف رہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں منفی 15 فیصدبے روزگاری بڑھی ہے اور یوں غربت کی لکیر سے نیچے جانے والی آبادی ایک خوف ناک منظر ہے۔ مالیاتی خسارے کو بھی محدود کرلیا جائے تو پیٹرولیم کی قیمتیں اور لاگت کی مکمل وصولی ایک بڑا امتحان ہے۔ اب ملک کی سیاسی قوتیں چاہتی ہیں کہ اگر اگلے سال جنوری یا فروری میں عام انتخابات ہو جائیں تو اچھی بات ہے، ورنہ حالات اچھے نظر نہیں آ رہے۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں نے خود معاملات اپنے ہاتھ سے نکالے ہیں۔عوام پہلے ہی بھاری بلوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے کہ فی یونٹ بجلی مزید ایک روپے 46پیسے مہنگی کردی گئی ہے، بجلی کے بعد اب گیس کی باری ہے،آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کے درمیان ابھی گیس سیکٹر کا گردشی قرض کم کرنے کی کسی اسکیم پر کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف نے ڈیویڈنڈ پلگ ان بیک اسکیم کا مسودہ منگوا کر کوئی جواب نہیں دیا ہے پاکستان نے ڈیویڈنڈ پلگ ان بیک اسکیم سے گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ 400 ارب روپے کم کرنے کا پلان دیا تھا۔ بجلی کے بلوں کے خلاف عوامی دبائو کے بعد ملک بھر میں بجلی چوروں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون شروع کیا گیا ہے۔ یہ کوشش بجا، مگر 2018ء تک بننے والی حکومتوں نے سستی بجلی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جس کے بعد بجلی مہنگی ہوتی چلی گئی اوراس کی چوری کے امکانات بھی بڑھتے چلے گئے۔ہرسال 589ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے جس کے سدباب کے لیے نگران حکومت نے بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام، رینجرز کی خدمات حاصل کرنے اور صوبائی و ضلعی سطح پر خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
بجلی کی چوری ایک اور بڑا مسئلہ ہے جس کی عام صارفین سے بلوں کے ذریعے وصول کی جاتی ہے۔ اب تک بجلی چوری کے ہزاروں میٹر پکڑے جا چکے ہیںاور کروڑوں روپے کے جرمانے عائد کرنے کے علاوہ دو سو سے زائد افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔ گیس چوروں کے خلاف بھی کریک ڈائون تیزکر دیا گیا ہے اور درجنوں میٹر منقطع کر دئیے گئے ہیں۔ اسمگلنگ اور دوسرے جرائم کے خلاف ملک گیر مہم نگران حکومت کا اچھا اقدام ہے۔ اگر اس پر نیک نیتی سے عمل کیا گیا تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے، لیکن ماضی کی حکومتوں کی طرح اسے صرف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا گیا تو اس کا الٹا نقصان ہوگا۔ بجلی چوری آج کا مسئلہ نہیں، یہ دہائیوں سے چلا آرہا ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے متعدد طریقے بھی متعارف کرائے جاتے رہے، لیکن عمل درآمدکے فقدان کے باعث سب حربے بے سود رہے، جس کی بڑی وجہ بااثر طبقات کا اس میں ملوث ہوناہے۔ حالیہ گرینڈ آپریشن کے دوران بھی لاہور میں بجلی چوری میں اہم شخصیات ملوث نکلیں خیبر پختون خوا کے مختلف شہروں میں 270کنڈے پکڑے گئے، حیسکو ریجن میں 4ہزار غیر قانونی کنکشن کاٹے گئے، ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں 290بجلی چور پکڑے گئے۔ بجلی چوری پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر آغاز پر ہی اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاتا تو آج یہ تناور درخت نہ بنتا، گردشی قرضے اربوں تک نہ پہنچتے۔ نگران حکومت نے یہ چیلنج قبول کیا ہے تاہم بجلی چوری کے خلاف کریک ڈائون کو اسی وقت کامیاب سمجھا جائے گا جب اس کے اثرا ت غریب آدمی تک پہنچیں گے۔ نگران حکومت نے فوج اور دوسرے متعلقہ اداروں کی مدد سے جو کریک ڈائون شروع کیا ہے اس کے نتیجے میں زبوں حال معیشت کے وسیع تالاب میں تیرتی کچھ گندی مچھلیاں پکڑی جانے لگی ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، وسائل کی چوری اور ملکی سرمائے کی لوٹ مار معاشی بربادی کی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔ ایک حساس سول ادارے نے وزیر اعظم ہائوس کو اپنی رپورٹ میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کا اس حوالے سے بطور خاص ذکر کیا ہے۔ 29سیاست دان، 90سرکاری حکام اور 76 ڈیلر یہ غیر قانونی کاروبار کررہے ہیں۔ پاکستان کو سالانہ 20 ارب 81کروڑ لیٹر تیل اسمگل کیا جاتا ہے جس سے ہر سال 60 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ اسمگلنگ سے ہونے والی آمدنی دہشت گرد بھی استعمال کرتے ہیں اور تیل کی نقل و حمل میں پاکستان اسٹیٹ آئل کی گاڑیاں بھی استعمال ہوتی ہیں۔
چینی، زرعی اجناس اور ڈالر سمیت غیر ملکی کرنسی کی اسمگلنگ ایک اور بڑا ناسور ہے جسے جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں 722 کرنسی ڈیلر حوالہ ہنڈی کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ ان میں سے 205پنجاب، 183 خیبرپختون خوا، 176 سندھ، 104بلوچستان، 37 آزاد کشمیر اور 17ڈیلر اسلام آباد میں ہیں۔ 361افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ملزموں میں سے بعض کا تعلق افغانستان سے ہے۔
ملکی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ وفاق میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی حکومتیں رہی ہیں، عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کے دعوے تینوں جماعتوں نے کیے۔ آج عام آدمی کی زندگی کتنی آسان ہے؟ یہ صورت حال اور حقائق ان جماعتوں کے دعووں کا ایک مکمل شفاف جواب ہے۔ ہمارے ملک میں ایک مسئلہ ہے کہ یہاں سیاسی جماعتیں ہوں یا حکومتی ادارے، سب میں کلی اختیار ہاتھ میں رکھنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور نتیجتاً عام آدمی روز بروز پس رہا ہے، اسے انصاف میسر ہے، نہ ہر سطح پر استحصال کے باعث عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی۔ ملک کا پورا معاشی اور سیاسی نظام آئی ایم ایف اور بیرونی مداخلت کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ نگران حکومت اور وفاق میں اقتدار میں رہنے والی تینوں سیاسی جماعتوں نے ملک میں بہتر معاشی نظام لانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن اس لیے ناکام رہیں کہ ان کے پاس دعووں اور عوام کے لیے لولی پاپ کے سوا کچھ نہیں تھا، اور ملک بہتری لانے کے نام پر مسلسل آئی ایم ایف اور عالمی ساہوں کاروں کے چنگل میں پھنستا چلا گیا، ماضیِ بعید کی بات چھوڑ دیتے ہیں، ماضیِ قریب کی بات کرتے ہیں۔ یہ شہباز شریف کی پی ڈی ایم حکومت کا چھٹا مہینہ تھا، گزشتہ سال ستمبر میں آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی تھی اور شہباز شریف حکومت پورا ڈیڑھ سال اقتدار میں رہی، مجال ہے اس رپورٹ کی روشنی میں ہی اپنے لیے بہتری کا کوئی بندوبست کیا ہو۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قومی سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی قابلِ عمل فارمولا نہیں ہے اور ملک کی معیشت کو درپیش بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں مکمل اور درست زمینی حقائق سے لاعلم ہیں، یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے قبل دعوے کرتی ہیں، اقتدار مل جائے تو کہتی ہیں کہ بہت مشکل حالات ہیں۔ ابھی حال ہی میں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹرشمشاد اختر نے بھی یہی کچھ کہا ہے، جب کہ وہ معیشت دان ہیں اور اسٹیٹ بینک کی گورنر رہ چکی ہیں۔ آج ملک کو جس قدر بھی معاشی مسائل درپیش ہیں اس کی ذمہ داری انہی پر ہے جو ماضی میں ملکی معیشت کے پالیسی ساز رہے ہیں، ڈیڑھ دو سال کے وقفے کے بعد گزشتہ بیس سالوں سے یہی لوگ کسی نہ کسی صورت میں ملکی معیشت کے نگران رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر زرمبادلہ کے ذخائر کو 20 بلین امریکی ڈالر سے اوپر رکھنا ہے تو پاکستان کو 6.6 بلین امریکی ڈالر کی اضافی ضرورت ہوگی۔ یہی وجہ تھی کہ آئی ایم ایف نے شہبازشریف حکومت کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے اسے چھ بلین ڈالر کی اضافی رقم کا بندوبست کرنے کے لیے پابند کیا تھا، اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کو کسی بھی دوسرے ذریعے سے تقریباً 73 بلین ڈالر درکار ہیں۔ گزشتہ سال معاشی ماہرین کے اندازوں کے مطابق اس مدت کے دوران 51 ارب امریکی ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی توقع تھی، یہ ہدف حاصل کرنے کے بعد بھی 22 ارب ڈالر کی ضرورت باقی رہتی ہے اور حکومت کے لیے مسئلہ یہی ہے کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی؟ یہ صورت حال معاشی استحکام کی تصویر نہیں ہے، یہی اس وقت ملک کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ابھی حال ہی میں جب لندن میں نواز شریف کی وطن واپسی کے مشورے ہورہے تھے تو اس وقت بھی نواز شریف نے شہباز شریف سے یہی پوچھا کہ بتائو، کس منہ سے وطن واپس جائوں، پی ڈی ایم حکومت نے عام آدمی کی بھلائی کے لیے کیا کیا ہے؟ تو شہباز شریف کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔بات یہ ہے کہ جس طرح کا معاشی بحران اور مشکل صورت حال آج ہمیں درپیش ہے اس کی ہلکی سی ابتدا دسمبر 2021ء میں ہوئی تھی، 2022ء میں 78 ارب ڈالر کی ریکارڈ درآمدات اور 32 ارب ڈالر کی ریکارڈ برآمدات ہوئی تھیں جس سے ہماری تجارت کا مجموعی تخمینہ 110 ارب ڈالر بنتا تھا، اس 78 ارب کے مقابلے میں ہمیں برآمدات اور ترسیلاتِ زر کی مد میں 55 سے 56 ارب ڈالر ملے تو پچھلے سال حکومت درآمدات کو کنٹرول کرکے 55 ارب ڈالر تک لے آئی، لیکن اس سے خام مال اور ٹیکسٹائل کی برآمدات میں ساڑھے تین ارب ڈالر کی کمی کے ساتھ ساتھ دیگر برآمدات میں بھی کمی آئی اور اس کے نتیجے میں مارکیٹ مجموعی طور پر 30 ارب ڈالر تک سکڑ گئی۔اس صورت حال سے نکلنے کے لیے منڈیاں کھولنے کی ضرورت ہے کیونکہ صنعتیں بند ہونے سے
چیزیں مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پانے کے لیے بند صنعتیں چلانی اور ان کے لیے خام مال درآمد کرنا ہوگا۔صنعت چلے گی تو ملک کا پہیہ چلے گا اور کاروبار بڑھے گا۔ مہنگائی کا بحران بھی درآمدات بڑھانے سے کم ہو سکتا ہے اور 300 کا ڈالر 250 کا بھی ہوسکتا ہے۔
ملکی معیشت کے لیے بنیادی فکر کی بات یہ ہے کہ اگلے چار پانچ سالوں میں پاکستان میں 60 بلین ڈالر سے زیادہ کی غیر ملکی سرمایہ کاری کیسے ہوگی اور اس کے امکانات کیا ہیں؟ اگرغیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاروں کے پاس دستیاب فنڈز کا جائزہ لیا جائے تو یہ کوئی بڑی رقم بھی نہیں ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ جس طرح یہاں نظام حکومت چلایا جاتا رہا ہے اور اب بھی چلایا جارہا ہے اسے دیکھ کر عالمی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے محفوظ آپشن نہیں۔ ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ان کا سرمایہ محفوظ ہونے کی ضمانت دے، سرمایہ کاری کے لیے اعتماد بڑھائے۔دوسری صورت میں یہ معیشت کے لیے نقصان دہ ہے۔