ملک کو درپیش سیاسی، معاشی، اخلاقی اور آئینی بحران

وطن عزیز، اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت گوناں گوں مسائل سے دو چار اور طرح طرح کے بحرانوں کا شکار ہے، ایک جانب اگر سیاسی عدم استحکام اور مستقبل سے متعلق بے یقینی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں تو دوسری طرف معاشی بحران کے ہاتھوں ملکی معیشت یرغمال بنی ہوئی ہے، مہنگائی اور بے روز گاری نے عام آدمی کی زندگی محال بنا دی ہے، لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو چکے ہیں، تیسری جانب معاشرتی بے راہروی عروج پر ہے، کسی کی جان و مال محفوظ نہیں، ذرا ذرا سے مفاد کی خاطر انسان کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے، بد امنی، چوری، ڈاکے معمول بن چکے ہیں، بدعنوانی معاشرے میں اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ معمولی ریڑھی بان سے بڑے بڑے سرمایا داروں تک سب خوف خدا سے بے پرواہ ہو کر اندھا دھند منافع خوری کو اپنا حق سمجھ بیٹھے ہیں، جائز ناجائز کی پرواہ کئے بغیر دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے اور راتوں رات امیر سے امیر تر بننے کی ہوس نے ہمیں اخلاقیات سے عاری کر دیا ہے، نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جان بچانے کی ادویات تک نقلی تیار ہو رہی ہیں، ملاوٹ اور کم تولنا ہماری تجارت کا شعار بن چکا ہے، ذرائع ابلاغ معاشرتی اصلاح، معلومات کی فراہمی اور حقائق سے پردہ کشائی کی بجائے بے حیائی اور فحاشی کے فروغ جھوٹ اور بے راہروی کی حوصلہ افزائی اور معاشرتی بگاڑ کو بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں، سیاست دان مثبت اقدار کو پروان چڑھانے کی بجائے باہم دست و گریباں، انتقام، الزام تراشی اور اتہام طرازی میں مصروف ہیں، بہتر حکمرانی تو دور کی بات ہے سرے سے حکومت نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں، جو عوام کی فلاح و بہبود اور معاشرتی امن و امان کو یقینی بنا سکے، لوگوں کو احساس تحفظ فراہم کر سکے، ایسی سرکاری مشینری عنقا ہو چکی ہے… لوگ انگریز کے دور غلامی کو یاد کر کے اس کے بہتر طرز حکمرانی کی مثالیں دیتے ہیں۔ بد امنی کو روکنا، مہنگائی سے عوام کو نجات دلانا اور اشیائے ضروریہ مناسب نرخوں پر لوگوں کو فراہم کرنا، حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے مگر حکومت خود عالمی ساہو کاروں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بنک وغیرہ کے شکنجے میں ایسی جکڑی ہوئی ہے کہ ہر ہفتے عشرے بعد بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے تاجروں کو روز افزوں مہنگائی کا جواز خود فراہم کرتی ہے تاہم عوام کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے، چینی کی قیمت کو پہلے نوے روپے سے دو سو روپے تک پہنچایا اور اب یہ خوشخبری زور شور سے سنائی جا رہی ہے کہ شوگر ڈیلرز سے ایک سو چالیس روپے فی کلو چینی کی فروخت کا معاہدہ ہو گیا، اول تو کون جانے اس معاہدے پر عمل ہو گا بھی یا نہیں اور اگر عمل ہو بھی جائے چینی لوگوں کو ایک سو چالیس روپے کلو ملنے بھی لگے تب بھی پچاس روپے اضافہ پر بھی حکومت عوام پر احسان جتلا رہی ہے۔ یہی حال ڈالر اور سونے وغیرہ کی قیمتوں کا ہے، پہلے انہیں بے لگام چھوڑ کر اونچا اڑنے دیا اور اب چند نمائشی اقدامات کے ذریعے ان کی قدر میں برائے نام کمی کو حکومت کا کارنامہ باور کرایا جا رہا ہے، آئی ایم ایف کے حکم پر بجلی کی قیمتوں میں خود حکومت نے ناقابل برادشت اضافہ کیا، عوام کے احتجاج اور جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کی اپیل پر طویل عرصہ بعد ملک گیر مکمل ہڑتال کے بعد بجلی کی قیمتوں میں کمی کی بجائے بجلی چوروں کے خلاف وقتی مہم کی ذرائع ابلاغ کے ذریعے بڑے پیمانے پر تشہیر کے ذریعے لوگوں کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اس ضمن میں بھی ٹھوس، حقیقی اور نتیجہ خیز اقدام کی طرف آنے کے لیے لیے حکومت تیار نہیں جس سے واقعی عوام کو کچھ سہولت مل سکتی ہے، یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس وقت کم و بیش دو لاکھ مراعات یافتہ جرنیل، جج، بیورو کریٹ، ارکان مجلس شوریٰ، وفاقی و صوبائی کابینہ کے ارکان، مختلف حکومتی اور نیم خود مختار اداروں کے اعلیٰ افسران وغیرہ ایسے ہیںجن کو نہ جانے کن غیر معمولی خدمات کے عوض بھاری تنخواہوں کے علاوہ مفت گھر، مفت بجلی، مفت گیس، مفت گاڑیاں اور ان کے لیے پٹرول، ڈرائیور اور درجنوں دیگر ملازمین گھر اور دفتر میں خدمت اور پروٹوکول کے لیے سرکاری خزانے سے فراہم کئے جا رہے ہیں، اگر صرف ان لاڈلوں سے یہ بلاوجہ کی مراعات واپس لے لی جائیں تو نہ صرف عوام کو سستی بجلی، گیس اور پٹرول فراہم کرنا ممکن ہو سکتا ہے بلکہ بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرنا بھی مشکل نہیں رہتا مگر ہمارے حکمران ہیں کہ اس جانب ٹھوس عملی اقدام تو دور کی بات، دھیان تک دینے اور اس کا ذکر تک زبان پر لانے کو تیار نہیں…!!!

ملک کے سیاسی بحران کا واحد حل بھی سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق آئین میں طے شدہ مدت کے اندر عام انتخابات میں مضمر ہے تاکہ عوام کے منتخب لوگ آ کر حالات کو سنبھال سکیں مگر نگران حکومت جس کا اولین اور بنیادی فریضہ نوے دن کے اندر عام انتخابات کرانا ہے، وہ باقی سب کچھ تو کرنے پر تیار ہے خصوصاً آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عملدرآمد اور عوام کے گرد شکنجہ کسنے میں نہایت مستعدی سے مصروف ہے مگر عام انتخابات کی بات کرنے اور اس کی کوئی حتمی تاریخ دینے میں اسے قطعی کوئی دلچسپی نہیں۔ قبل ازیں پنجاب اور صوبہ خیبر میں نوے دن کے لیے بنائی گئی نگران صوبائی حکومتیں نو ماہ مکمل کررہی ہیں مگر ان صوبوں میں بھی انتخابات کا کوئی واضح امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ اس ضمن میں افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالتیں بھی دو ٹوک اور ٹھوس فیصلے دینے اور ان پر عملدر آمد کو ہر صورت یقینی بنانے میں اپنا آئینی کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں، ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے منصف اعلیٰ جو اب اپنی مدت مکمل کر کے سبکدوش ہو رہے ہیں، تمام تر دعوئوں کے باوجود عملاً بے بسی کے اظہار کے سوا کچھ نہیں کر سکے، خدا کرے ان کے جانشین آئین و قانون کی بالادستی کے لیے عدالت عظمیٰ کے کردار سے متعلق قوم کی توقعات پوری کر سکیں…!!! (حامد ریاض ڈوگر)