حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
”صبر وہی ہے جو مصیبت کے شروع میں ہو (یعنی ثواب اسی میں ملتا ہے)
آخر تو (بعد میں) سب کو صبرآ(ہی) جاتا ہے“۔
(جامع ترمذی ،جلد اول باب الجنائز ،حدیث نمبر987-986 )
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم پر بارانِ رحمت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل گئے۔ جسم سے کچھ کپڑے اُتارے یہاں تک کہ جسم اطہر پر بارش برسی۔ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ آنحضوؐر نے ایسا کیوں کیا؟ آپؐ نے فرمایا: اس لیے کہ یہ رب کے پاس سے بالکل تازہ اتری ہے۔ (مسلم، ابوداؤد، بیہقی)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر طرزِعمل معرفتِ الٰہی کا درس ہے۔ بارش خود بخود نہیں آگئی‘ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا نتیجہ ہے‘ جس طرح کوئی کاریگر نئی چیز تیار کرتا ہے‘ اس کو کاریگر کے ہاتھوں نے مس کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح کی سوچ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے بارے میں دی ہے کہ یہ متبرک ہے‘ رب تعالیٰ کے حکم اور ارادے نے اسے مس کیا ہے‘ اس لیے اس کو جسم پر لینے سے جسم کو فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت ملے گی خصوصاً‘ جب کہ اس تصور کے ساتھ اسے جسم پر لیا جائے کہ اس کی رب تعالیٰ سے ملاقات تازہ بہ تازہ ہے۔
سبحان اللہ! تازہ بارش ہو یا فصل‘ سبزیاں ہوں یا پھل‘ کائنات کی سرسبزی اور شادابی میں سے ہر ایک کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کتنا قوی اور مضبوط ہوگا‘ اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی معرفت کے لیے قرآن پاک مختلف سورتوں میں بار بار اللہ تعالیٰ کی کارسازیوں اور کاریگری کا ذکر کرتا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو کائنات اور قرآن پاک کے نورمعرفت سے اپنے دل و دماغ کو منور کرتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ بنی حارثہ قبیلے کے ایک شخص حرملہ بن زید (جو نفاق کی بیماری میں مبتلا تھے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ دوزانوہوکر بیٹھ گئے اور اپنی زبان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ایمان یہاں پر ہے اور سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا یہاں پر نفاق ہے۔ یہ اللہ کا ذکر نہیں کرتا مگر تھوڑا۔ رسول ؐاللہ نے ان کی بات سنی لیکن خاموش رہے۔ حرملہ نے اپنی بات پھر دہرائی۔ اس پر رسولؐ اللہ نے حرملہ کی زبان کو کنارے سے پکڑا اور یوں دعا فرمائی: ’’اے اللہ! حرملہ کو سچی زبان اور شکرگزار دل عطا فرما اور میری محبت اور مجھ سے محبت کرنے والوں کی محبت سے سرفراز اور ان کا انجام بخیر فرما ‘‘۔
حرملہ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کچھ منافق میرے دوست ہیں اور میں ان کا سربراہ تھا‘ میں ان کے نام آپؐ کو نہ بتلا دوں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا (ابھی اس کی ضرورت نہیں) جو ہمارے پاس اس طرح آئے گا جس طرح آپ آئے ہیں تو ہم اس کے لیے اسی طرح استغفار کریں گے جس طرح آپ کے لیے کیا ہے‘ اور جو اپنے نفاق پر ڈٹا رہے گا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ (کنزالعمال)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی‘ رسول اور نامزد حکمران تھے۔ آپؐ نے اپنی سیرت طیبہ اور اخلاق حسنہ سے ایسا ماحول اور معاشرہ تشکیل دیا جس کو محبت و الفت اور سکون و اطمینان کی چادر اور چھت نصیب ہوئی۔ وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین ’’اور نہیں بھیجا ہم نے آپؐ کو مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘کے عجیب و غریب اور دل کش مناظر دنیا نے دیکھے۔ انھی مناظر میں سے ایک حسین منظر حرملہ کا لپک کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونا ہے اور آپؐ کا اسے محبت اور اپنائیت سے نوازنا‘ ان کی زبان کو اپنے دستِ مبارک میں پکڑ کر ایسی دعا دینا کہ جس سے ان کی زندگی کی کایا پلٹ گئی‘ نفاق کے بجاے اخلاص کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔
ایک منظر تو یہ ہے اور آج ایک دوسرا منظر بھی ہمارے سامنے ہے وہ منظر مخالفین کا تعاقب کرنا‘ تلاش و جستجو کرکے انھیں انتقام کا نشانہ بنانا اور کچل کر رکھ دینا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سایۂ رحمت کا منظر یہ ہے کہ حرملہ مخالفین کے نام پیش کرنے کی پیش کش کرتے ہیں لیکن آنحضوؐر انکار فرما دیتے ہیں۔ اس کے بجاے منافقین اور مخالفین کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ آئیں گے تو انھیں دعائیں ملیں گی‘ ان کے ساتھ بھی ہمدردی و غم گساری کا رویہ اپنایا جائے گا‘ اور اگر نہیں آئیں گے تو بھی ان کی چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال نہیں ہوگا۔ ان کا تعاقب نہیں ہوگا بلکہ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔
یہ ہے وہ معاشرہ جو رحمت للعالمین ؐ کی ذات اقدس کی برکت سے وجود میں آیا‘ جس میں الفت و محبت‘ عدل وا حسان‘ سکون و اطمینان اور ایک دوسرے کو دھتکارنے اور مٹانے کے بجاے قریب کرنے اور سینے سے لگانا ہے۔ کاش! یہ دل کش سوسائٹی پھر سے وجود میں آجائے۔ کوئی تصو کرسکتا ہے کہ اس طرح کی سوسائٹی کسی کے لیے خطرہ ہوسکتی ہے؟ کیا دہشت گردی‘ انتہا پسندی اور بے صبری کا اس کے قریب سے بھی گزر ہو سکتا ہے؟
حضرت جبیر بن مطعمؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جبیر! کیا تمھیں یہ بات پسند ہے جب سفر پر نکلو تو اپنے تمام ساتھیوں سے زیادہ خوش شکل ہو اور سب سے زیادہ زادراہ تمھارے پاس ہو؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! ہاں‘ میں یہ چاہتا ہوں۔
آپؐ نے فرمایا: اگر ایسا ہے تو پھر سفر پر نکلتے وقت پانچ سورتیں قل یا ایھا الکافرون ، اذاجاء نصراللّٰہ ، قل ھو اللّٰہ احد ،قل اعوذ برب الفلق ، قل اعوذ برب الناس پڑھ لیا کرو۔ ہر سورت کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کرو اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پر ان کی قرأت کو ختم کرو۔ حضرت جبیرؓ کہتے ہیں میں دولت مند تھا۔ میرے پاس مال زیادہ تھا لیکن اس سے پہلے جب سفر پر نکلتا تو میری شکل بہت خستہ حال اور زادراہ بہت تھوڑاہوتا تھا۔ اس کے بعد جب میں نکلتا تو سفر سے واپسی تک زیادہ خوش شکل اور سب سے زیادہ زاد راہ والا ہوتا تھا۔ (مجمع الزوائد‘ ۱۰/۱۳۴)
سفر میں آدمی کی ایک ضرورت یہ ہوتی ہے کہ اس کا لباس‘ وضع قطع‘ شکل و شباہت اچھی ہو اور دوسری ضرورت یہ ہوتی ہے کہ زاد راہ زیادہ ہو۔ ان دونوں ضرورتوں کے لیے ظاہری سازوسامان کا انتظام کرنا ضروری ہے لیکن اصل سامان اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد ہے کہ وہی حالات کو سازگار کرنے والی اور برکت دینے والی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ وہ پانچ سورتیں ہیں جن کی رہنمائی رسولؐ اللہ نے فرمائی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بذاتِ خود حجت ہے۔ مزیدبرآں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تجربے سے جو چیز ثابت ہوجائے اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں رہتا۔
حضرت جبیرؓنے اپنا تجربہ بیان فرما دیا ہے۔ آج ہم بھی رسولؐ اللہ کے ارشاد کے روشنی میں ان کے تجربے کو پیش نظر رکھ کر اپنے سفر کی ان دو ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے شخص کے ہاں تشریف لے گئے جو بیماری کے دبائو کے سبب چوزے کی طرح لاغر ہوگیا تھا۔ رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا: آپ نے کوئی دعا کی تھی؟ اس نے عرض کیا: میں دعا کرتا تھا: ’’اے اللہ!آپ نے مجھے جو سزا آخرت میں دینی ہے وہ دنیا میں دے دیجیے‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے یہ دعا کیوں نہ کی: رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب الـنَّارِ (البقرہ:۲۰۱) ’’اے اللہ! مجھے دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے‘‘۔ اس نے یہ دعا شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفا عطا فرما دی۔(کنز العمال‘ ج ۱‘ص ۲۹۰)
اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم ذات ہے۔ اس سے ایسی دعا کی حاجت نہیں جس میں سودا اور لین دین ہو کہ آخرت کی سزا دنیا میں ہوجائے۔ ایسا معاملہ انسانوں کا انسانوں سے ہوتا ہے کہ وہ معاف نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والی ہستی ہے۔ اس لیے اس سے معافی مانگنی چاہیے اور یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ آخرت میں بھی بھلائی عطا فرمائے اور دنیا میں بھی۔
بعض اوقات انسان ایسی دعا کر بیٹھتا ہے کہ اس کے سبب تکلیف سے دوچار ہوجاتا ہے۔ مذکورہ حدیث میں جس شخص کا تذکرہ ہے وہ اپنی دعا کے سبب تکلیف میں مبتلا ہوکر انتہائی کمزور ہوگیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوسری دعا سکھلائی جس کی بدولت اس دعا کے اثرات زائل ہوگئے اور اس شخص کی صحت بحال ہوگئی۔ کیسا خوش قسمت شخص تھا جسے رسول ؐ اللہ کا دست شفقت اور آپؐ کا بتلایا ہوا نسخۂ شفا نصیب ہوگیا۔ آج بھی جسمانی اور روحانی بیماریوں اور تکالیف سے نجات کے لیے یہ دعا اکسیر ہے۔