پندرہ سالہ دورِ اقتدار کے اختتام پر سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اپنے پیدائشی حلقے کے عوام کو بنیادی سہولیات بھی فراہم نہیں کرسکے ہیں۔ ضلع شہید بے نظیر آباد(نواب شاہ) سابق صدر کا حلقہ انتخاب بھی ہے، اگرچہ اس حلقے کی صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر دوڑ شہر سے صوبائی وزیر صحت اُن کی ہمشیرہ اور نواب شاہ شہر سے رکن سندھ اسمبلی چودھری طارق مسعود آرائیں چار مرتبہ کامیاب ہوکر سندھ اسمبلی میں رکینت کے مزے لیتے رہے ہیں، لیکن یہ حکمران اپنے حلقے کے عوام کو صرف دورانِ الیکشن ہی نظر آئے۔ چونکہ عوام کے بنیادی مسائل کے حل کا ادراک نہ ہونا ان اراکین اسمبلی کا مسئلہ نہیں ہے، اسی وجہ سے یہ ارکان 20سال سے منتخب ہونے کے باوجود اپنے علاقے کے عوام کو پینے کا صاف پانی تک فراہم نہیں کرسکے۔
ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے سے لوگ ہیضہ، دست اور کئی دیگر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں، اور آلودگی سے پاک پانی کی فراہمی کو یقینی بنا کر لوگوں کو ایسی بیماریوں کا شکار ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ماہرین کے مطابق اس وقت ملک کی لگ بھگ 80 فیصد آبادی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔
سابق وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نےپارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں ملک میں میسر پینے کے پانی کے معیار کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ سرکاری ادارے ’پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘ نے ملک بھر میں پانی کے معیار کو جانچنے اور اس کی نگرانی کے عمل کے لیے کئی منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔انھوں نے بتایا تھا کہ ملک کے 24 اضلاع میں واقع دو ہزار آٹھ سو سے زائد دیہات سے حاصل کیے گئے پانی کے نمونوں کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ بیشتر علاقوں میں پانی پینے کے قابل نہیں تھا۔رانا تنویر نے قوم کو یہ بھی بتایا تھا کہ سرکاری ادارے کی رپورٹ کے مطابق پانی میں آلودگی کی وجہ جراثیم اور زہریلی دھاتوں کی موجودگی تھی۔
پانی کے وسائل سے متعلق تحقیقاتی ادارے ’پاکستان واٹر ریسرچ کونسل‘ کے سابق سربراہ ڈاکٹر اسلم طاہر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں صاف پانی کی فراہمی بلاشبہ ایک مسئلہ ہے۔ ”جتنے بھی حالیہ سروے پاکستان میں ہوئے ہیں ان سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ شہروں میں رہنے والے پندرہ فیصد لوگوں کو صاف پانی میسر ہے جب کہ دیہی علاقوں میں صورتِ حال کچھ بہتر ہے جہاں یہ شرح اٹھارہ فیصد ہے۔ اسی وجہ سے اسپتالوں میں داخل مریضوں میں سے چالیس سے ساٹھ فیصد ایسے لوگ ہیں جو آلودہ پانی پینے سے بیماریوں کا شکار ہوئے ہیں“۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی دستیاب ہو۔ ”عملی طور پر پاکستان میں کوئی ایسی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی پانی کی فراہمی کی نگرانی کرنے والا کوئی ادارہ موجود ہے جس طرح دوسرے کئی ملکوں میں ہوتے ہیں جو اس چیز کو دیکھتے ہیں کہ کیا صاف پانی فراہم ہورہا ہے؟ اس کے علاوہ پانی کی ترسیل کے پائپوں میں بھی خرابیاں ہیں۔“
پاکستان میں اجتماعی مفاد نہیں بلکہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے سیاست کی جاتی رہی ہے۔ یہی کچھ نواب شاہ کے شہریوں کے ساتھ ہوا ہے۔ نواب شاہ کے شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ ایشیا کا سب سے بڑا الٹرا فلٹریشن پلانٹ نواب شاہ شہر کو صاف پانی فراہم کرنے میں ناکام ہے، شہر کے مختلف علاقوں میں گٹروں کا بدبودار پانی فراہم کیا جارہا ہے جبکہ ماہانہ دو کروڑ روپے مینٹی نینس کی مد میں آتے ہیں۔ نجی کمپنی کا معاہدہ ختم ہونے کے بعد ضلعی انتظامیہ سمیت پبلک ہیلتھ ڈپارٹمنٹ نواب شاہ کو یہ پلانٹ واپس ملا جس کے بعد اس کو چلانے والی ٹیم اور کام کرنے والے ملازمین کو نکال دیا گیا اور ان کی کئی ماہ کی تنخواہیں بھی ہڑپ کرلی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ اس کا افتتاح پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کیا تھا، اور اس کے افتتاح کے کچھ عرصے بعد ہی اس میں آئے دن کوئی نہ کوئی مسئلہ دکھاکر اس کا بجٹ ہڑپ کیا جانے لگا تھا، اور ابھی تک یہ عمل جاری ہے۔ حکومت سمیت پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو چاہیے کہ فوری طور پر نوٹس لے کر اس کو فعال کیا جائے اور ملازمین کو بحال کرکے ان کو تنخواہیں دی جائیں تاکہ وہ فاقہ کشی والی زندگی گزارنے سے بچ سکیں۔
شہریوں کا سابق صدر آصف علی زرداری سمیت ضلعی انتظامیہ اور میئر،ڈپٹی میئر سے مطالبہ ہے کہ مختلف علاقوں میں واٹر سپلائی لائنوں میں ڈرینج کا گندا پانی آنے کا نوٹس لے کر معاملے کو حل کیا جائے تاکہ شہریوں کو پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولت میسر آسکے۔