مکالمہ (ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر سے مکالمہ)

دو یا دو سے زیادہ افراد کی باہمی گفتگو، بات چیت ’مکالمہ‘ قرار پاتی ہے۔ مکالمہ کے کئی پہلو اور جہتیں ہوتی ہیں، اس سے دوسروں تک اپنے خیالات کا ابلاغ ہوتا ہے اور دوسروں کے جذبات و احساسات اور خیالات سے آگہی ہوتی ہے۔ مکالمہ زبانی بھی ہوتا ہے اور تحریری بھی۔ اس سے کسی شخصیت کا کردار اور جوہر واضح ہوکر سامنے آتے ہیں۔ مکالمات ڈرامے، ناول اور افسانے کی جان ہوتے ہیں۔ جتنے اچھے مکالمات ہوتے ہیں تحریر بھی اتنی اچھی اور جان دار ہوتی ہے۔ مکالمہ فطری بھی ہوتا ہے اور مصنوعی بھی۔ روزمرہ بول چال، لہجہ اور اشارات اچھے اور معیاری مکالمے کی جان ہوتے ہیں۔

مکالماتِ افلاطون کا تذکرہ تو اکثر پڑھنے اور سننے میں آتا ہے، لیکن اب وقار ملک نے ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کے ساتھ مکالمہ کیا اور خوب صورت، جان دار اور غیر روایتی انداز میں نبھایا۔ وقار ملک کا امتیاز ہے کہ وہ مکالمے میں جان ڈال دیتے ہیں۔ روایتی انداز تبدیل کیے بغیر ایسے خوب صورت کالم تخلیق نہیں پاسکتے۔ وہ انٹرویو دینے والی شخصیات سے نہ صرف ہمہ پہلو مکالمہ کرتے ہیں بلکہ اس میں ساتھ ساتھ اپنی رائے کو مکالمے کا حصہ بناتے ہیں جس سے نہ صرف معلومات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ سوالات میں تیکھاپن، غیرروایتی انداز اور سوال کرنے کے ہنر سے مکمل آشنائی اور آگہی اہم عنصر ہے۔

ایس ایم ظفر وطنِ عزیز کے نامور قانون دان ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی، معاشرتی، عدالتی، ثقافتی تاریخ کے عینی شاہد ہیں۔ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ وسیع ہے۔ وہ سیاست میں نئے راستے نکال کر آگے بڑھ جانے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں سینئر صحافی اور کالم نگار مجیب الرحمن شامی کے بقول وہ سیاست میں اجتہادی بصیرت اور تدبر کے حامل ہیں۔ تعلیم، تہذیب وشائستگی، روایات و اقدار اور جذبۂ حُبِّ وطن و ملت کے پاس دار اور علَم بردار ہیں۔

انہوں نے 1965ء میں فوجی حکمران جنرل ایوب خان کی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر قانون سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ پیرپگاڑا کی مسلم لیگ میں بطور نائب صدر، چودھری شجاعت حسین کی مسلم لیگ (ق) کے مرکزی قائد اور سینیٹ میں نمائندگی کرتے رہے۔

وقار ملک نے 25 سال تک ایس ایم ظفر کے ساتھ مکالمے کیے جو مختلف مؤقر اخبارات و جرائد روزنامہ پاکستان، روزنامہ الاخبار، ہفتہ روزہ حرمت اور زندگی کی زینت بنتے رہے۔ ربع صدی تک جاری رہنے والے یہ مکالمے عرق ریزی، محنت اور جانفشانی کی نادر مثال ہیں۔

ایس ایم ظفر کے حالاتِ زندگی، تصورِ پاکستان، انسانی حقوق، حقوقِ نسواں، عدلیہ، جمہوریت، مذہب، سائنسی امور، مسئلہ کشمیر، پاک بھارت تعلقات، مسئلہ فلسطین و اسرائیل، بین الاقوامی امور، قومی مسائل، دہشت گردی، کالا باغ ڈیم، ذرائع ابلاغ، طنز و مزاح، تفریح اور دوسرے بہت سے عنوانات پر مبنی کُل کالمز اور مکالموں کی تعداد 159 ہے جو دراصل ایک انتخاب ہے۔ یہ انتخاب علم و آگہی کا باعث اور چشم کشا ہے۔ اس کا مطالعہ قارئین کے لیے جہاں بصیرت، شعور اور دانش کے دریچے وا کرتا ہے وہیں پر پڑھنے والوں کے دلوں میں اسلام، پاکستان اور نظریۂ پاکستان سے وابستگی اور تعلق گہرا ہوتا ہے اور فروغ پاتا ہے۔

یہ مکالمات پڑھنے کی چیز ہیں جن میں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کے لیے خاصا لوازمہ موجود ہے، جبکہ نسلِ نو کے لیے یہ کتاب سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

علامہ عبدالستار عاصم نے کتاب کو محنت، توجہ اور لگن کے ساتھ دیدہ زیب گیٹ اپ، خوب صورت سرورق اور دلکش انداز میں طبع کیا ہے۔