مکاتیبِ رفیع الدّین ہاشمی بنام مشاہیر

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو عام طور پر ’’ماہرِ اقبالیات‘‘ کہا جاتا ہے، (گو، وہ خود کسی مہارت کا دعویٰ نہیں کرتے) مگر اُنھوں نے اقبالیات کے ساتھ تحقیق، تنقید، تدوین، سفرنامہ نگاری اور تبصرہ نگاری کے شعبوں میں بھی اپنی ہنرمندی کے بہترین اور عمدہ نقوش چھوڑے ہیں۔ اِنھی دنوں اُن کی ڈاکٹر زیب النسا کی مرتّبہ کتاب مکاتیبِ رفیع الدین ہاشمی بنام مشاہیر شائع ہوئی ہے۔

مکتوب نگاری اُردو ادب میں باقاعدہ ایک صنف کی حیثیت رکھتی ہے اور متعدد نام وَر شخصیات کے مکاتیب کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں۔ بابائے اُردو مولوی عبدالحق کہتے ہیں: ’’خط دلی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرارِ حیات کا صحیفہ ہے۔ خط کو بالعموم نصف ملاقات کا نام دیا جاتا ہے، گویا خط بالمشافہ ملاقات کی کمی کو ایک حد تک پورا کرتا ہے۔

قبل ازیں ہاشمی صاحب کے نام اُردو ادب کی کئی نام وَر شخصیات(مشفق خواجہ، رشید حسن خاں، گیان چند، مختار الدین احمد اور ابنِ فرید) کے خطوط کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔ ہاشمی صاحب کے اپنے لکھے ہوئے خطوط کی اشاعت کا بیڑا اُن کی شاگرد ڈاکٹر زیب النسا نے اُٹھایا ہے۔ اِس سے قبل وہ اپنے نام ہاشمی صاحب کے خطوط (مکاتیبِ رفیع الدّین ہاشمی بنام زیب النسا) کے عنوان سے شائع کرچکی ہیں۔ زیرِ تبصرہ مجموعہ اُن کی دوسری مرتّب کردہ کتاب ہے جس میں 61 مشاہیر کے نام ہاشمی صاحب کے 143 خطوط شامل ہیں،جن میںپاکستان کے مشاہیر کے علاوہ بھارت، جاپان اور پیرس کے مکتوب الیہان بھی شامل ہیں۔ چند نام وَر مکتوب الیہان: سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر جاوید اقبال، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر سیّد محمد عبداللہ، عاشق حسین بٹالوی، ڈاکٹر وحید قریشی، مشفق خواجہ، رشید حسن خاں، غلام جیلانی برق، جگن ناتھ آزاد، محمد طفیل مدیر نقوش، ڈاکٹر معین الدین عقیل، فتح محمد ملک، انتظار حسین، صابر کلوروی اور ہیروجی کتاؤگا۔ ‘‘

ڈاکٹر زیب النسا نے دیباچے میں مکتوب نگاری کے فن پر روشنی ڈالی ہے۔ اُن کا خیال ہے اور بجا ہے کہ ”خطوط تحقیق میں مستند مآخذ کا درجہ رکھتے ہیں“۔ کتاب میں درج محمد طفیل (مدیر نقوش) کی بات اِس پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے: ’’خطوط صرف ادب و انشا ہی کے آئینہ دار نہیں ہوتے بلکہ اس سے علمی، ادبی، سماجی اور سیاسی تاریخیں بھی مرتّب کی جا سکتی ہیں۔‘‘

خطوط میں ہر طرح کی بات کی جا سکتی ہے۔ جس قسم کی شخصیت ہوگی اور جو اس کا ذوق ہوگا، خط میں بھی اُسی ذوق کی جھلک ملے گی۔ یہ خط چونکہ مشاہیر کے نام ہیں، اور مکتوب نگار خود بھی مشاہیر میں شمار ہوتے ہیں، اِس لیے اِن خطوط میں زبان و ادب، اقبالیات، کتابوں کی باتیں اور علمی اُمور و مشورے شامل ہیں۔ مثلاً: ہاشمی صاحب مولانا مودودی سے دریافت کرتے ہیں کہ علّامہ سے ملاقاتوں میں کبھی قرآن حکیم کی تفسیر و توضیح کا ذکر آیا؟ آپ نے تفہیم القرآن کا آغاز کیا تو اُنھوں نے آپ کو سُجھایا،یا یہ آپ کا اپنا طبع زاد خیال تھا؟

جسٹس جاوید اقبال کے نام خط میں رقم طراز ہیں: زندہ رُود کے مطالعے کے دوران میں، مَیں نے اپنے ذاتی نسخوں پر جو نشانات لگائے تھے، اُن کی ایک فہرست ارسال کررہا ہوں۔ اِن میں سے بیشتر تو کتابت کی غلطیاں ہیں، البتّہ بعض مقامات کسی نہ کسی اور سبب سے توجّہ طلب ہیں۔ دوسری اشاعت کے موقعے پر، اصلاح و تصحیح میں، میری اس فہرست سے شاید آپ کو کچھ مدد مل سکے۔ جسٹس صاحب نے ہاشمی صاحب کو زندہ رُود کی دوسری اور تیسری جلد کے مسوّدے بھی دکھائے اور ہاشمی صاحب نے اُن میں بھی اصلاح طلب نکات کی نشان دہی کی۔

شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعید کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’حسبِ ارشاد اپنی پہلی تصنیف ”اقبال کی طویل نظمیں“ کا مسوّدہ اصل حالت میں ارسالِ خدمت ہے۔ یہ کتاب 1970ء کے آخر میں لکھی گئی تھی مگر شائع 1974ء کے آخر میں ہوئی۔ حسبِ فرمائش اپنے حالات(حیات نامہ) بھی اِس خط کے ہمراہ بھیج رہا ہوں۔‘‘ حکیم صاحب نے مصنّفین سے اُن کی پہلی پہلی کتابوں کے مسوّدے منگوا کر اپنے ہاں محفوظ کیے تھے۔

ہاشمی صاحب کی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ وقت کے استعمال کا گُر خوب جانتے ہیں۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کر گزرنے کی دُھن سوار رہتی ہے جو قابلِ تقلید ہے۔ اِس بات کی تصدیق مشفق خواجہ کے نام ایک خط سے ہوتی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’سفر میں آرام نہیں، بے آرامی ہوتی ہے۔ تھک گیا ہوں۔ آج نماز کے بعد چل پڑا تاکہ ظہر تک گھر پہنچ کر آرام کرلوں اور کل کے معمولات شروع کرنے کے قابل ہوسکوں۔ اور ان شاءاللہ ہوجاؤں گا۔ سفر میں بھاگ دوڑ رہی۔ فقیر کا سفینہ ہمیشہ طوفانی۔ اَب کل کے کاموں کا خیال آرہا ہے، لاہور کے تفکّرات۔ کل کالج سے تنخواہ لینی ہے۔ سویامانے یاسر دو روز بعد لاہور سے واپس جاپان چلا جائے گا، اُسے تلاش کر کے ملاقات کرنی ہے۔ اقبال اکادمی جانا ہے۔ کتابیات کے مسائل الگ ہیں۔ اِس ماہ کے آخر میں کتابیات کے لیے مزید حوالوں کی تلاش میں کراچی کا چکّر لگاؤں گا۔‘‘ ڈاکٹر سیّد عبداللہ سے وہ ”خضرِ راہ“ کے بعض اشعار کی وضاحت چاہتے ہیں۔ بعض خطوں میں ہاشمی صاحب نے اپنے بیرونِ ملک اسفار کی روداد بیان کی ہے۔

ڈاکٹر زیب النساء کے پاس میرے علم کی حد تک ہاشمی صاحب کے بارہ سو خطوط موجود ہیں جن میں سے ابھی انھوں نے اپنے نام خطوط سے الگ صرف 143 خطوط پیش کیے ہیں۔ دیباچے میں یہ مژدہ بھی سنایا ہے کہ ’’مشفق خواجہ اور ڈاکٹر معین الدین عقیل کے نام الگ الگ مجموعہ شائع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اللہ اُن کے اس ارادے کو جلد از جلد پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔ ‘‘

کتاب کے آخر میں 4 خطوط کے عکس دیے گئے ہیں جن سے ہاشمی صاحب کی صاف شفاف تحریر کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔