میں جامعہ الازہر میں اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک زور زور سے نعروں کی آوازیں آنے لگیں۔ یہ ایک خلافِ معمول بات تھی۔ میں نے اٹھ کر تیسری منزل پر واقع اپنے دفتر کے لمبے چوڑے دریچے سے باہر جھانکا۔ باہر طالب علموں کا ایک ہجوم جمع تھا۔ عام طور سے مصری معاشرے اور جامعہ الازہر کی زندگی خاصی پُرسکون تھی، لوگ اپنے اپنے من میں مست جی رہے تھے۔ قاہرہ کے جس علاقے میں میری رہائش تھی وہاں خاص طور پر عوام زندگی کو اپنے جی میں جی کر گزارنے کے قائل دکھائی دیتے، تعلیمی اداروں کا حال بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا، جامعہ الازہر میں بھی صبح کے وقت تو کچھ چہل پہل دکھائی دیتی، جب طالب علم گھروں سے یونیورسٹی آ رہے ہوتے۔ طلبہ کلاسوں میں چلے جاتے تو تعلیمی بلاکوں کے باہر کوئی چہل پہل نہیں ہوتی تھی۔ لیکن آج میں الازہر میں پہلی بار ایک جلوس دیکھ رہا تھا۔ مصر میں یہ میرے لیے ایک نئی بات تھی۔ پہلے تو معلوم ہی نہ ہوا کہ یہ طالب علم کیا چاہتے ہیں؟ میں اس جلوس کی طرف حیرت سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ’’یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے‘‘ کہ جلوس کے آگے حرکت کرتے ہوئے ایک بینر پر نظر پڑی جس پر جلی حروف میں لکھا تھا انقذوا غزہَ۔
اس سے عقدہ کھلا کہ گزشتہ روز غزہ میں اسرائیلی طیاروں کے تازہ حملے کے نتیجے میں جو سات فلسطینی حریت پسند شہید کر دیئے گئے تھے، یہ جلوس ان بے گناہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے نکالا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے چھوٹے چھوٹے پلے کارڈز بھی تھے جن کی عبارات خاصی باریک اور میری نگاہوں سے دور ہونے کے باعث پڑھی نہیں جا رہی تھیں تاہم ان کے پرجوش نعرے کوشش کرنے پر سمجھ آنے لگے۔ کچھ نعرے تو وہ تھے جن کا جواب ہجوم بہ یک آواز ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ اور ’’نصراللہ‘‘ سے دے رہا تھا ،کچھ نعرے ہجوم کی مشترک آواز کے طور پر ابھر رہے تھے مثلاً (ترجمہ)’’ محمدؐ کا قافلہ پھر اٹھ کھڑا ہوگا‘‘ یا ’’اے ہمارے حکمرانو! تم کیوں خاموش ہو‘‘ یا ’’اے ہمارے حکمرانو !کیا تمہاری خاموشی کافی ہے‘‘ وغیرہ۔۔
مختلف شعبوں سے طلبہ آ کر اس جلوس میں شامل ہوتے رہے اور جلوس کا جوش و خروش بڑھتا چلا گیا۔ میں دیر تک اس خلاف معمول منظر کو دیکھتا رہا۔ طلبہ بڑے جوش و خروش سے نعرے لگا رہے تھے۔ پھر یہ جلوس حرکت کرتا ہوا دوسری سمت میں چلا گیا۔ ادھر میری کلاس کا وقت ہو رہا تھا۔ میں کلاس پڑھانے چلا گیا۔ کلاس میں گیا تو کمرہ جماعت کے تختہ سفیدپر سیاہ قلم سے لکھا ہوا تھا۔( ترجمہ)’’غزہ کے بچے رو رہے ہیں… ہم کہاں ہیں… دعا… صدقہ… بائیکاٹ‘‘۔یہ کلمات احتجاج کرنے والوں کے جذبات کا زیادہ واضح ابلاغ کر رہے تھے۔
یہ 2008ء کی اسرائیلی دہشت گردی کا ذکر ہے۔ جولائی 2014ء میں اسرائیل کی جانب سے دہشت گردی اور نسل کشی کا سلسلہ ایک بار پھر شروع کیا گیا، جس میں اس پہلے حملے کی طرح کسی اسپتال،ا سکول یا اقوام متحدہ کے مرکز کی کوئی تمیز روا نہیں رکھی گئی۔ غزہ کی اسلامی یونیورسٹی پر بھی گولہ باری کی گئی۔ اس قضیے میں پانچ لاکھ بیس ہزار فلسطینی اور صرف غزہ میں دو لاکھ بیس ہزار افراد بے گھر ہوئے۔ غزہ ایک پچیس میل لمبی اور چھ میل چوڑی پٹی ہے جس میں اٹھارہ لاکھ انسان رہتے ہیں، جن میں سے صرف پانچ فیصد لوگوں کو پینے کے لیے پائپ کا پانی میسر ہے۔ یہاں کے اکیس فیصد افراد 313 پائونڈ سے بھی کم ماہانہ آمدنی کے حامل ہیں جب کہ 41 فیصد بے روزگار ہیں۔ غزہ کے اکلوتے پاور پلانٹ کو اسرائیلی حملوں نے تباہ کر دیا۔ غزہ کا مسئلہ فلسطین کے مسئلے کا ایک جزو ہے جسے اس بنیادی مسئلے کے تاریخی پس منظر کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔
غزہ کا علاقہ سرور کائنات رسول اللہ ﷺ کے پردادا ہاشم کا علاقہ تھا۔ اسی لیے اسے غزہ ہاشم بھی کہا جاتاہے۔ جناب ہاشم کا مزار بھی غزہ میں ہے۔ اسلام کے دورِ جدید میں مسلمان ساتویں صدی عیسوی میں فلسطین میں داخل ہوئے اور فلسطین کو اسلامی مملکت کا ایک صوبہ بنایا۔ الاصطخری کے بیان کے مطابق یہ صوبہ طول میں رافیہ (Raphia)کے سرحدی شہر سے لے کر لجون کے سرحدی شہر اور عرض میں یافہ سے لے کر اریحا تک پھیلا ہوا تھا اور اس کا سب سے بڑا شہر رملہ تھا۔ ابن خلدون نے آٹھویں صدی ہجری کے نصف آخر میں فلسطین کے مالیہ کی مقدار تین لاکھ دس ہزار دینار بتائی ہے۔اجناس اس کے علاوہ تھیں۔ صلاح الدین ایوبی کے عہد میں صوبے کی حیثیت ختم کرکے مملکات میں تقسیم کر دیا گیا۔24 اگست 1516ء کو فلسطین پر ترکوں کی حکومت قائم ہو گئی اور ایک درمیانی مختصر وقفے کے سوا چار سو سال تک ترک اس علاقے پر حکمران رہے۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران 1918ء میں جنرل ایلن بی کی زیر قیادت انگریز فوجیں جنوبی فلسطین میں داخل ہو گئیں اور جرمن اور ترک افواج بتدریج ہٹتی چلی گئیں اور 31اکتوبر 1917ء کو جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران میں برطانیہ نے حمایت کے حصول کی خاطر فلسطین کے عربوں اور یہودیوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے انہیں جن انعامات کا لالچ دیا وہ باہم متضاد تھے۔ ایک طرف عربوں کو ترکوں کی حکومت سے آزادی کا لالچ دیا گیا تھا تو دوسری طرف یہودیوں سے ان کے الگ وطن کے قیام کے لیے پخت وپز کی گئی۔ چنانچہ 2نومبر 1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ لارڈ بالفور نے ایک یہودی لارڈ روتھ شیلڈ کے نام ایک خط میں یہودی سلطنت کے قیام کا وعدہ کیا جسے ”اعلانِ بالفور“ کہا جاتا ہے۔ فلسطین پر انگریزوں کا قبضہ ہو جانے کے بعد پہلے پہل انگریز ہائی کمشنر انتظام چلاتے رہے بعد ازاں 22جولائی 1922ء کو لیگ آف نیشنز کی منظوری کے بعد 29ستمبر 1933ء کو یہ علاقہ باقاعدہ برطانیہ کے زیر انتداب آ گیا۔
اپریل 637ء میں جب حضرت عمر فاروق ؓ فلسطین میں داخل ہوئے تو یہاں کوئی یہودی خاندان آباد نہیں تھا۔1267ء میں یہاں دو یہودی خاندان آباد ہوئے1745ء میں یہاں یہودیوں کی تعداد بارہ ہزار تھی۔1897ء میں سوئٹزر لینڈ میں ہونے والی پہلی یہودی کانفرنس میں 200یہودی لیڈروں نے مل کر باسل پروگرام کا اعلان کیا اور یہودی صہیونی تحریک (World Zionist Organization)کی بنیاد رکھی گئی اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ وہ دس سے پچاس سال کے عرصے میں ایک یہودی سلطنت قائم کرکے دم لیں گے۔ فلسطین کو یہودی بنانے کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے 1901ء میں اس تنظیم کے تحت ہونے والی پانچویں کانفرنس میں جے این ایف (جیوئش نیشنل فنڈ)قائم کیا گیا تاکہ فلسطین کی زیادہ سے زیادہ زمین خریدی جا سکے۔
ان کے لیڈر ہرزل نے ترکی کے سلطان عبدالحمید سے درخواست کی کہ فلسطین میں یہودیوں کو زمین خریدنے کی اجازت دی جائے ہم اس کی ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں، لیکن سلطان عبدالحمید اس سے پہلے یہودیوں کو عثمانی سلطنت میں داخلے اور تین ماہ تک قیام کی اجازت دینے کا تجربہ کر چکے تھے۔ سلطان نے فلسطین کی ایک انچ زمین بھی دینے سے انکار کردیا، لیکن پہلی جنگِ عظیم 1914-18ء کے زمانے میں انگریزوں کے ایما پر یہاں یہودی آباد کاری کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ یہودیوں نے بھاری قیمت ادا کرکے یہاں زمینیں خریدنا شروع کر دیں۔ بڑے بڑے یہودی سرمایہ داروں نے اس تحریک کو مالی مدد فراہم کی۔ عربوں نے اس پر توجہ نہ کی جس سے یہاں یہودی آباد کار بڑھتے چلے گئے اور رفتہ رفتہ 1922ء تک یہ تعداد تینتیس ہزار نو سو ستر تک پہنچ گئی اور 1919ء میں عالم عرب کے قلب میں پہلا یہودی شہر تل ابیب بسا لیا گیا۔
برطانیہ کو ملنے والے مینڈیٹ کی مدت 1948ء میں ختم ہوئی تو اقوام متحدہ نے برطانیہ کے ایما پر فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور 55فیصد علاقہ ہوشیاری سے آباد کی گئی یہودی آبادی کو دے دیا گیا جبکہ ملک کے اصل باشندوں یعنی آبادی کو 45فیصد رقبہ دیا گیا۔ یہودیوں نے اپنے حق میں ہونے والے اس فیصلے پر عملدرآمد کا بھی انتظار نہ کیا اور پیشتر اس سے کہ اقوام متحدہ ان کے سرپرست برطانیہ کی طرف سے انہیں 55فیصد علاقے کا تحفہ دینے کا اعلان کرتا یہودی لیڈر ڈیوڈ بن گوریان نے 14مئی 1948ء کی رات دس بجے آزاد اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا اور صدر ٹرومین نے اسرائیل کو اسی روز تسلیم بھی کر لیا اور محض دو دن کے بعد روس نے بھی اس کی تائید کر دی۔ اس کے بعد جس قضیے کا آغاز ہوا وہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان متعدد جنگوں اور اسرائیل کی خوں آشامیوں کے باوجود ہنوز تصفیہ طلب ہے اور غزہ پر آ ئے روزاسرائیلی حملے اسی کا تسلسل ہیں جن پر عالمی ضمیر مجرمانہ طور پر مہر بہ لب ہے لیکن خان یونس کے پریپ اسکول کی کم سن طالبہ ’’روہا‘‘ نے اپنی ایک نظم Peaceمیں امن کی تمنا کو اس طرح زبان دی ہے:
Like a river running through a barren land
Like rain falling over desert
Like a flower watered with love and equality is life
It is reconciliation in time of dispute
Like fresh air ln the midst of pollution
peace is rose of human rights
(بہ شکریہ: رونامہ دنیا)